کامیاب ازدواجی زندگی

کامیاب ازدواجی زندگی کے لئے میاں بیوی میں باہمی محبت و الفت اور ذہنی ہم آہنگی کا ہونا اشد ضروری ہے ذہنی ہم آہنگی ایک دوسرے کی بات سمجھنے میں معاونت و آسانی پیدا کرتی ہے دوسری چیز الفت و محبت ہے جہاں محبت ہوتی ہے وہاں ایک دوسرے کے لئے احترام بھی خود بخود پیدا ہو جایا کرتا ہے

اگرچہ ساس سسر کی خدمت کرنا مذہب کی رو سے عورت پر فرض نہیں لیکن انسانی و اخلاقی فرض تو ہے مذہب کے علاوہ کچھ خاندانی و معاشرتی پابندیاں سمجھ لیں یا عائلی زندگی کے اصول شادی شدہ زندگی میں ان کی بھی اپنی اہمیت ہے اگر ان پر عملدرآمد کر لیا جائے تو بیوی اور شوہر دونوں کی زندگی قدرے پرسکون گزر سکتی ہے

اگر بہو ساس اور سسر کو ماں باپ کا درجہ دے کر اور ان کی خدمت کو اپنا فرض سمجھ کر ادا کرتی ہے تو اس میں لڑکی کا کچھ نقصان نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اسکے والدین کی بھی عزت افزائی ہے کہ لڑکی کا ہنر اور سلیقہ سسرال میں لڑکی کی قدر بڑھاتا ہے اور یہ لڑکی کے والدین کی بہترین تربیت کا ثبوت ہے

جہاں تک خاندان سے باہر شادی ہونے کا تعلق ہے تو یہ لڑکی کے والدین کی ذمہ داری ہے کہ اسکی تربیت میں یہ چیز شامل کریں اور ذہنی طور پر اسے تیار کریں کہ نئے ماحول کو اجنبی نہ سمجھے کیونکہ شادی کے بعد اسکے شوہر کا گھر ہی اسکا اپنا گھر ہے کسی چیز کو اپنا سمجھ کر ہی اسکا خیال بہتر طور پر کیا جا سکتا ہے جب لڑکی شوہر کے گھر کو اپنا گھر سمجھے گی تو اپنے گھر کا اچھے طریقے سے خیال بھی رکھ سکے گی

بعض خواتین ملازمت کے لئے بھی تو گھر کی چار دیواری چھوڑ کر دفتر کے نئے ماحول میں خود کو بہت جلد 'ایڈجسٹ' کر لیتی ہیں کیونکہ وہ ایسا کرنا چاہتی ہیں تو پھر نئے گھر کے نئے ماحول میں 'ایڈجسٹمینٹ' مسئلہ کیوں بنے۔۔۔؟

لڑکی کی تربیت میں یہ چیز شامل ہونی چاہیے کہ اپنی ، اپنے شوہر اپنے والدین اور اپنے خاندان کی عزت اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ یہ عزت حسن تدبیر اور ہنرمندی سے بنا سکتی ہے تربیت یافتہ بیٹیاں ہی سسرال میں اپنے والدین کی بہترین تربیت کا ثبوت پیش کرسکتی ہیں

تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے جہاں لڑکی کو ‘پٹیاں‘ پڑھانے کے ضمن میں لڑکی والوں کا کچھ قصور ہے تو وہاں لڑکے والوں کے دل میں بھی نئی دلہن کی بابت کچھ بدگمانیاں پائی جاتی ہیں جو لڑکے والوں کے لئے لڑکے کے ‘کان بھرنے‘ کا کام دیتی ہیں

بات دراصل یہ ہے کہ شادی کے بعد محبت توجہ اور وقت کی تقسیم کی تبدیلی وقتی طور پر گراں ضرور گزرتی ہے لیکن یہ ضروری بھی ہے جو لڑکی اپنا خاندان چھوڑ کر نیا خاندان بسانے بالکل نئے ماحول میں آئی ہے اسے نئے ماحول کو سمجھنے میں کچھ وقت تو لگے گا یہاں لڑکے والوں کو بھی لڑکی کے مسائل و ضروریات کے پیش نظر اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیئے اور اپنے گھر کے ماحول سے مانوسیت دلانے میں معاونت کرنا چاہیے

علاوہ ازیں لڑکے اور لڑکی دونوں کے گھر والوں میں ایک دوسرے کی بابت بدگمانیاں جن کا کوئی جواز نہیں شادی سے پہلے ہی پیدا ہو جایا کرتی ہیں اور اس کو غالبا ً فرض سمجھ لیا گیا ہے کہ ساس بہو، نند اور بھابی ان میں کبھی بن ہی نہیں سکتی لڑکے والے ہوں یا لڑکی والے دونوں فریقین کو اپنے دلوں سے بدگمانیاں دور کرکے ہی ایک دوسرے کو دل سے قبول کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے

یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ جیسے ہی لڑکی رخصت ہو کر نئے گھر آتی ہے فریقین کے دل میں ایک دوسرے کی بابت خوامخواہ کی بدگمانیاں پیدا ہو جاتی ہیں انہیں ختم کرنا ہر دو اطراف کے فریقین کی ذمہ داری ہے

ہمارے معاشرے میں یہ منِر دکھائی تو نہیں دیتا کہ ساس بہو کو بیٹی بہو بیٹی کو ماں اور بھابی اور نندیں ایک دوسرے کو بہن سمجھ کر ایک دوسرے کے ساتھ بخوشی گزارہ کر سکیں تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں
یہ تو ظاہر ہے کہ شادی کے بعد محبتیں اور وقت تقسیم ہو جاتا ہے لیکن اس تقسیم کو خوشدلی سے قبول کرنے میں ہی دونوں خاندانوں کی بہتری ہے

شادی خاندان میں ہو یا خاندان سے باہر اگر شوہر اور بیوی میں الفت و محبت ہے تو وہ اس محبت کی خاطر ایک دوسرے کو باآسانی خوش رکھ سکتے ہیں کیونکہ جس سے محبت ہو پھر اس سے وابستہ ہر چیز پیاری ہوتی ہے اور جو چیز پیاری ہو اس کی خدمت کو انسان عبادت سمجھ کر کرتا ہے اور عبادت وہیں ہوتی ہے جہاں احترام ہو اور محبت و احترام کا تقاضہ ایک دوسرے کی خوشی و ضروریات کا خیال رکھنا ہے

جہاں تک لڑکی کو آزادی دینے کا تعلق ہے تو یہ شادی شدہ عورت کے لئے آزادی کے مفہوم پر منحصر ہے اگر آزادی کا مطلب یہ ہے کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر یا اسکی غیر موجودگی میں جہاں چاہے چلی جائے جس سے چاہے ملے تو ایسی آزادی دینے سے بہتر ہے کہ عورت کو اپنے دائرے سے مکمل آزادی دے دی جائے

ہاں لیکن اپنے شوہر سے بات چیت اور دیگر ازدواجی معاملات کی بابت شوہر اور بیوی دونوں آزادی کا یکساں حق رکھتے ہیں جہاں تک شوہر کی آزادی کا تعلق ہے تو اس کے لئے یہ روا نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو چھوڑ کر دوسری عورتوں میں محبت اور توجہ تلاش کرتا پھرے اور یہ یہ بات عورتوں پر بھی لاگو آتی ہے
شادی میاں بیوی دونوں میں الفت و محبت کو پروان چڑھاتی ہے اور محبت کے دائرے میں آنے کے بعد محبت کی قید ہی آزادی ہے اور اس قید سے بہت سے دائروں کی آزادی سے آزادی ہی حقیقی آزادی ہے

بہرحال عورت کی آزادی کے ضمن میں بیوی پر شوہر کی طرف سے لگائی گئیں ایسی پابندیاں کہ وہ شوہر کی غیر موجودگی یا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ جائے وغیرہ عائد کر سکتا ہے اور یہ قید یا پابندی نہیں بلکہ شوہر کا بیوی سے محبت کا تقاضہ اور حق بھی ہے اور محبت کی اس قید میں ازدواجی زندگی کی بہتری بھی ہے اگر بیوی شوہر کی محبت کو قید سمجھتی ہے تو پھر اسے حق ہے کہ وہ اس قید سے مکمل چھٹکارا حاصل کرلے

شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے راز دار ہوتے ہیں انہیں اپنی آپس کی باتیں کسی تیسرے فرد سے کرنا جائز نہیں اور نہ ہی کسی تیسرے فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان کے انتہائی ذاتی معاملات میں دخل دے اور کوئی اس وقت تک دخل نہیں دیتا جب تک کہ دونوں فریقین میں سے کوئی دوسرے کو خود اپنے معاملات میں دخل اندازی کا موقعہ نہ دے شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے لباس کی طرح ہوتے ہیں تو دونوں میں سے جس نے بھی اپنی ذاتی باتوں میں کسی تیسرے کو شامل کیا تو یہ خود کو غیر کے آگے بےلباس کرنے کے مترادف ہے

ازدواجی زندگی کی کامیابی کے لئے بہتر تو یہ ہے کہ شادی سوچ سمجھ کر کی جائے آیا کہ شادی شدہ زندگی کی جائز پابندیاں قبول کر بھی سکتے ہیں یا نہیں کوئی بھی رشتہ جوڑنا اس قدر مشکل نہیں جتنا اسے نبھانا مشکل ہے اور اگر رشتہ جڑ کر ٹوٹ جائے تو یہ عمل نہ صرف دو افراد بلکہ دو خاندانوں کے لئے اذیت و تکلیف کا باعث ہے لٰہذا شادی کے معاملات خوب سوچ سمجھ، تمام حالات کا جائزہ لینے کے بعد اور لڑکے لڑکی کی باہمی رضا مندی کے بعد ہی طےکرنے چاہیے کہ جبر سے جوڑنے والے رشتوں کو نبھانا بہت تکلیف دہ عمل ہوتا ہے

ازدواجی زندگی کی کامیابی کے لئے میاں بیوی میں باہمی محبت ‘نسخہ کیمیا‘ ہے کہ محبت انسان کو ہر طرح کے حالات میں خوشگوار زندگی بسر کرنا سیکھا دیتی ہے ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے درگزر کرنا اور صبر و برداشت کی عادت رفتہ رفتہ دلوں میں پیدا ہونے والی ناحق کدورتوں کو مٹا سکتی ہے اور اس پر لڑکی اور لڑکے دونوں کا حسن عمل حسن تدبیر، ہنر مندی اور سلیقہ شعاری سونے پر سہاگہ ہے

ہم ہر طرح کے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں بات صرف چاہنے کی ہے جو گھر بسانا چاہتا ہے وہ گھر بسا بھی لیتا ہے بنا بھی لیتا ہے اور سب کو خوش بھی رکھتا ہے کاش کے ہر ایک میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کا ظرف پیدا ہو جائے کہ غلطیوں کی نشاندہی ہی غلطیاں ختم کر سکتی ہے مختصر یہ کہ الفت و محبت، باہمی تعاون اور حسن تدبیر کے ذریعے ہی شادی شدہ زندگی کو بہ احسن و خوبی خوشگوار اور کامیاب بنایا جاسکتا ہے
uzma ahmad
About the Author: uzma ahmad Read More Articles by uzma ahmad: 265 Articles with 488690 views Pakistani Muslim
.. View More