ہم نے اپنے بچپن میں تیس مار خاں
کی کہانی پڑھی تھی۔ جس میں لوگ تیس مار خاں کے نام سے تھرتھراتے تھے۔ لوگ
سمجھتے تھے کہ تیس مار خاں نے تیس بندوں کو کھڑ کھڑا دیا ہے۔ یوں لوگ اس کی
ہیبت سے کانپتے تھے۔ پھر یوں ہو ا کہ ایک دن تیس مار خاں کو سیر کا سوا سیر
مل گیا۔ انہوں نے تیس مار خاں سے کہا کہ اب بتا تو کہاں کا تیس مار خاں ہے۔
اور تونے کتنے بندے پھڑکھائے ہیں۔ یہ سن کر تیس مار خاں رونے لگا اور کہنے
لگا کہ میں نے تو آج تک ایک بندہ نہیں مارا۔ تیس آدمی کہاں اور ان کو مارنا
کہاں۔ اصل کہانی یہ ہے کہ میں گھر بیٹھا مکھیاں مار رہا تھا۔ جب تیس مکھیاں
مار لی تو میں نے اپنے آپ کو تیس مار خاں کا خطاب دے لیا۔ اپنے اس خود
ساختہ خطاب کے نتیجے میں لوگ مجھے تیس مار خاں سمجھنے لگے۔ اب جہاں لوگوں
کو ضرورت پڑتی وہ مجھے تیس مار خاں کہہ کر لے جاتے۔ لوگوں کا کام نکل جاتا
اور میری روزی روٹی چل نکلی۔ یہ ہے میری کہانی۔ مجھے تیس مار خاں کی کہانی
اس لئے یاد آئی کہ امریکی صدر کو بھی تیس مار خاں بنے کا شوق چرایا ہے۔ بش
نے تو عراق افغانستان پاکستان کو مقتل گاہ بنا کر چل دئے ہیں۔ اب بارک
اوباما کی باری ہے۔ جو ایران پر نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے اپنے
ایجنٹوں کے ذریعے ایران میں جلاﺅ گھیراﺅ تو شروع کرا دیا ہے اور وہ ایران
کے اندرونی معاملات میں مسلسل بیان بازی کر رہے ہیں۔ اگر امریکی صدر یہ نہ
کرے تو کیا مکھیاں مارے گا۔
اس کی ابتد ا انہوں نے گزشتہ دنوں کر دی ہے۔ جب دنیا کا طاقتور ترین شخص
قرار دیئے جانے والے صدر امریکہ نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران ایک مکھی کو
مار کر اپنی مہارت کو ثبوت دیا۔ صدر باراک اوباما کو ایک مکھی نے پریشان کر
رکھا تھا۔ وہ وائٹ ہاؤس میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔اس دوران جب صدر اوباما
انتہائی سنجیدگی اوراخلاص کے ساتھ اپنے میزبان کے سوالوں کا جواب دے رہے
تھے کہ نہ جانے کہاں سے ایک مکھی انکے درمیان مخل ہوگئی۔ صدر نے مکھی کو
ہاتھ سے اڑانے کی بہت کوشش کی گویا خبردار کررہے ہوں کہ بھاگ جا، ورنہ جان
سے جائے گی۔ تاہم مکھی ان کے گرد چکر لگاتے ہوئے انکے اختیار کو مسلسل
چیلنج کرتی رہی۔ صدر اوباما مناسب موقع کی تلاش میں تھے اور جوں ہی مکھی نے
انکے بائیں ہاتھ پر بیٹھنے کی کوشس کی انھہں نے کسی کراٹے چمپئن کر طرح
چاروں طرف منڈلاتی ہوئی مکھی کو ڈھیر کر کے اپنی طاقت اور پھرتی کا عملی
ثبوت پیش کر ڈالا۔ دربار فرعون میں ایک مچھر نمرود کی تباہی کا باعث بن گیا
تھا۔ کیا عجب کہ کوئی ایسی ہی معمولی مخلوق امریکہ کی تباہی کو باعث بن
جائے۔ ایڈز، اور دوسری بیماریاں ننھے ننھے جراثیم ہی سے پھیلتی ہیں۔ اور
یہی ان کی تباہی کا سبب بنے گی۔ |