تقویم - ماہ و سال

تقویم کے لغوی معنی کیلنڈر کے ہیں، نظام جس کے ذریعے وقت کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے تقویم (Calender)کہلاتا ہے، گویا تقویم کے ذریعے دن، ہفتہ، ماہ اور سال وغیرہ کا حساب لگایا جاتا ہے۔ مگر اصطلاح میں کواکب کی حرکات اور دائرۃ البروج میں مقام کی جدولیں پر مشتمل رسالے کو تقوم (Ephemeris) کہتے ہیں۔ کواکب کی بروج میں پوزیشن کے علاوہ تقویم میں نیرین (شمس و قمر) کے اوقات طلوع و غروب، منازل قمر، کوکبی وقت (سڈرل ٹائم) اور نظرات کی تفصیل بھی دی ہوتی ہے۔ امریکہ اور یورپ میں تقویم کی ترتیب و طباعت کا کام نہایت سائنسی بنیادوں پر ہوتا ہے۔ ہندوستان میں بھی تقویم سازی کے کئی تحقیقی مراکز قائم ہیں۔ پاکستان میں چونکہ نجوم نہ تو سائنسی بنیادوں پر استوار ہے اور نہ اسکے معلمین اور قاریئن تعلیم یافتہ ہیں، لہٰذا یہ تاحال ’’جنتری‘‘ کا ہی ضعیف حصہ ہے۔

جنتری۔ وقت کو گھنٹوں، دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں مرتب کرنا۔ تقویم گویا تاریخ اور ہفتے کے دنوں کی تعین کے جدول کا نام ہے۔ سال شمسی ہوتا ہے یا قمری۔ شمسی سال اس عرصے کے برابر ہوتا ہے جس میں زمین اپنے مدار کو پوری طرح طے کر لیتی ہے۔ یعنی پوری طرح سورج کے گرد چکر کاٹ لیتی ہے۔ یہ عرصہ 365 دن 5 گھنٹے، 40 منٹ اور 4624 اعشاریہ 47 سیکنڈ کے برابر ہوتا ہے۔ ہم چونکہ سال کو صرف پورے 365 دنوں کا شمار کرتے ہیں اس لیے ہمارا سال اصل سال سے چھوٹا ہوتا ہے اور یہ کمی سال بہ سال زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ سال بسال وہی مہینے مختلف موسموں میں آنے شروع ہو جائیں گے۔ جس سے ہمارے نظام زندگی میں گڑ بڑ پڑ جائے گی۔ اور وقت کا بھی کوئی صحیح اندازہ نہیں ہوسکے گا۔ اس وقت کو رفع کرنے کے لیے لیے جولیس سیزر شاہنشاہ روم نے ہر چوتھے سال میں ایک دن کا اضافہ کر کے ہر چوتھا سال 366 دن کا استعمال کیا۔ یعنی فی سال 4/1 دن کی مزید زیادتی ہوگئی۔ باالفاظ دیگر اس قسم کا سال صحیح سال سے بقدر 11منٹ 14 سیکنڈ اوسطاً بڑھ جاتا ہے۔ یعنی 4/1 دن فی سال زیادہ کرنے سے ہم اصل سال سے 11 منٹ 14 سیکنڈ بڑھا دیتے تھے۔ چونکہ یہ زیادتی 100 سال میں جمع ہو کر ایک دن کے قریب ہو جاتی تھی۔ اس لیے ہر صدی کا لیپ سال سادہ سال شمار کر کے زیادتی کے برابر کر دیا گیا۔ یعنی 100ء اگرچہ لیپ کا سال ہے: تاہم اس کے 365 دن ہی شمار ہوں گے۔ اسی طرح 200 ء، 300ء لیپ کے سال شمار نہیں ہوں گے۔ اس طرح چار سو سال کے بعد پھر ایک دن کی کمی واقع ہوجاتی تھی۔ اس لیے 400 اور ہر ایک صدی کے سال کو جو 4 پر تقسیم ہو جائے، لیپ کا سال شمار کر لیا گیا ہے۔ عملی طور پر جو سال 4 پر تقسیم ہوجائے لیپ کا سال ہے اور اس میں سال کا سب سے چھوٹا مہینہ فروری بجائے 28 کے 29 دن کا ہوتا ہے۔ جو صدی 400 پر منقسم ہو جائے وہ بھی لیپ کا سال ہے۔ باقی تمام سال سادہ ہیں۔ اس طرح سے موسم و تاریخ کا ربط کم و بیش صحیح طور پر قائم رہتا ہے۔ یہ تمام کیفیت شمسی سال یعنی عیسوی سال کی ہے۔

قمری تقویم:
اس تقویم کی بنیاد چاند کے سائز اور اس کے طلوع و غروب ہونے پر ہے تقویم کا یہ طریقہ سب سے پرانا اور سب سے آسان ہے چنانچہ پہلے زمانے کے لوگ چاند کو دیکھ کر دن گنا کرتے تھے اور چونکہ چاند کا سائز ہر روز بدلتا رہتا ہے اس لیے اس کے ذریعے حساب لگانا بھی آسان ہے۔

اس تقویم کے مطابق مہینہ کبھی انتیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی تیس دن کا، ہر پہلی رات کے چاند سے مہینے(مہینہ کی جمع) کا آغاز ہوتا ہے، جب انتیس دنوں(دن کی جمع) کے بعد نظر آئے تو مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے ورنہ تیس دن کا۔ اسلامی یا ہجری تقویم داراصل ایک قمری تقویم ہے جو اسلام سے پہلے بھی عرب میں رائج تھی۔ بعد میں اس میں مناسب تبدیلیاں کر کے اسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجرت سے شروع کیا گیا۔

اسلامی تقویم :
ہجری تقویم کو اسلامی تقویم بھی کہا جاتا ہے۔ ہجری تقویم سے مراد تواریخ کا حساب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدینہ کی طرف ہجرت سے لگانا ہے۔ اس میں جو مہینے استعمال ہوتے ہیں ان کا استعمال اسلام سے پہلے بھی تھا۔ جس میں سے محرم پہلا مہینہ ہے۔ یہ ایک قمری تقویم ہے یعنی مہینہ چاند کو دیکھ کر شروع کیا جاتا ہے۔ سال کا کل دورانیہ 354.367056 دن اور ایک ماہ کا کل دورانیہ 29.530588 دن ہے۔

تکنیکی معلومات:
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدینہ کو ہجرت 26 صفر کو ہوئی۔ مگر چونکہ عرب لوگ سال کا آغاز محرم سے کیا کرتے تھے اس لئے اسلامی سال کو ایک ماہ 25 دن پیچھے سے کیا گیا۔ اس طریقہ سے یکم محرم ایک ہجری 16 جولائی 622 کو ہوئی۔ حسب سابق اس میں بارہ ماہ رکھے گئے۔ ہر مہینہ انتیس یا تیس دن کا ہوتا ہے۔ جس کے شروع ہونے کا فیصلہ چاند کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ ہجری سال ہر عیسوی سال کی نسبت دس یا گیارہ دن پہلے شروع ہوتا ہے یعنی ہر سال ہجری اور عیسوی سال کا وقفہ کم ہو جاتا ہے۔ اندازہ ہے کہ سن 20842 میں ایک ہی ہجری اور عیسوی سال ہوگا۔ ہر 33 یا 34 سال بعد ایسا موقع آتا ہے جب ایک ہجری سال مکمل طور پر ایک عیسوی سال کا اندر ہی رہتا ہے جیسا سن 2008 عیسوی میں۔

ہجری سے عیسوی تاریخ میں منتقلی:
ہجری سے عیسوی تاریخ میں منتقلی کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ ہجری سال کو 0.970224 سے ضرب دیں اور اس میں 621.5774 جمع کر دیں۔ جواب میں اعشاریہ سے پہلے جو حصہ ہے وہ سال کو ظاہر کرے گا۔ اگر اعشاریہ کے بعد والے حصے کو 365 سے ضرب دے دی جائے تو جواب میں ان دنوں کی تعداد آ جائے گی جتنے دنوں کے بعد اس عیسوی سال میں یکم محرم ہوگی۔ یہ اعداد و شمار ایک یا دو دن کے فرق سے معلوم ہوں گے کیونکہ ایک ہی وقت میں دنیا کےمختلف حصوں میں دو مختلف اسلامی تاریخیں ممکن ہیں۔ 0.970224 اصل میں عیسوی سال کے حقیقی دورانیہ کو ہجری سال کے حقیقی دورانیہ پر تقسیم کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر اگر 1428 کو 0.970224 سے ضرب دیں اور اس میں 621.5774 جمع کر دیں تو جواب میں 2007.057272 حاصل ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ 1428 ہجری سن 2007 عیسوی میں شروع ہوگا۔ اگر 2007.057272 کے اعشاریہ کے بعد والے حصے کو 365 سے ضرب دی جائے تو 20.9 حاصل ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ یکم محرم 1428 ہجری دنیا کے کچھ حصوں میں 20 جنوری 2007 عیسوی اور کچھ حصوں میں 21 جنوری 2007 عیسوی کو شروع ہوگا۔ یاد رہے کہ چونکہ عیسوی تقویم میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں اس لئے 1500 عیسوی سے پہلے کی تاریخوں سے یکم محرم کا حساب لگانے کے لئے 365 سے ضرب دینے کے بعد تین تفریق کرنا ضروری ہے۔
Tahira Inam
About the Author: Tahira Inam Read More Articles by Tahira Inam: 3 Articles with 4127 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.