Ganvie کو افریقی وینس بھی کہا جاتا ہے اور یہ افریقہ کا
ایک ایسا گاؤں ہے جو کہ جسے مکمل طور پر جھیل کے اوپر مضبوط لکڑی کے ڈنڈوں
سے تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ گاؤں افریقی شہر Cotonou کے نزدیک موجود Nokoué
جھیل پر تعمیر کیا گیا ہے-
اس گاؤں کی تیس ہزار افراد پر مشتمل آبادی نے بانس سے گھروں کو جھیل کے
پانی کے اوپر ڈنڈوں کے سہارے کھڑا کیا ہوا ہے اور بغیر کسی دشواری کے خوش
وخرم زندگی بسر کر رہے ہیں۔
|
|
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ گاؤں کے لوگ اپنے پڑوس تک جانے کے لئے بھی درخت
کے تنے کی بنی کشتیوں کا استعمال کرتے ہیں۔
یہ گاؤں سولہویں یا سترہویں صدی میں Tofinu قبیلے کے باشندوں نے اس وقت
تعمیر کیا جب Dahomeyan جنگجوؤں نے ان کے دیہات پر حملہ کیا- یہ جنگجو
لوگوں کے قیدی بنا کر یورپی تاجروں کو بطور غلام فروخت کیا کرتے تھے-
اس گاؤں کے باشندوں کا بنیادی پیشہ کھیتی باڑی تھا لیکن اب ان کے گاؤں کی
مرکزی صنعت ماہی گیری اور فش فارمنگ ہے-
|
|
میلوں پر پھیلے ہوئی اس گاؤں کے زیادہ تر باشندے اردگرد کے سفر کے لیے
چھوٹی کشتیوں کا استعمال کرتے ہیں-
گاؤں میں چند دکانوں کے علاوہ ایک ہوٹل اور ریسٹورنٹ بھی بنایا گیا ہے جس
کا مقصد یہاں آنے والے سیاحوں کو سہولیات مہیا کرنا ہے- Chez Raphael نامی
یہ ہوٹل گاؤں کے امیر اور نوجوان افراد کی بیٹھک بھی ہے٬ جہاں وہ شام ہوتے
ہی ڈیرے ڈال لیتے ہیں-
گاؤں میں موجود ڈاکٹر کا کلینک بھی دوسرے گھروں کی مانند بانسوں پر ہی
بنایا گیا ہے اور ڈاکٹر کو کلینک تک پہنچنے کے لیے بھی کشتی ہی کی سواری
کرنا پڑتی ہے-
گاؤں میں آپ کو ضروریاتِ زندگی کی تمام اشیا میسر آئیں گی یہاں تک کہ گاؤں
میں ایک سوفٹ ڈرنک کی شاپ بھی بنائی گئی ہے-
|
|
اس گاؤں کا ایک منفرد نظام یہ بھی ہے کہ یہاں کے زیادہ تر مرد مچھلیاں شکار
کر کے اپنی بیویوں کے حوالے کرتے ہیں اور ان بیویوں کی ذمہ داری کی یہ ہوتی
ہے وہ ان مچھلیوں کو فروخت کریں- جس کے بعد یہ خواتین انہیں مقامی مارکیٹ
میں فروخت کر کے اپنے بچوں اور شوہر کے لیے غذا کا بندوبست کرتی ہیں-
شکار کی گئی مچھلی صرف قابل اعتبار مچھلی فارموں کو ہی فروخت کی جاتی ہے-
یہاں کے رہائشیوں کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے ان میں سب سے بڑا مسئلہ
جھیل کے پانی میں پھینکا جانے والا کچرا ہے- کیونکہ اس کچرے کے باعث جھیل
مسلسل آلودہ ہوتی جارہی ہے- اگر ان باشندوں کو مستقبل میں بھی یہی رہائش
پزیر رہنا ہے تو پھر ان اس مسئلے کا حل جلد ڈھونڈ نکالنا ہوگا-
اگرچہ یہ گاؤں کوئی سیاحتی مقام نہیں ہے لیکن پھر بھی 1996 میں یونیسکو نے
اس کا نام عالمی ثقافتی ورثہ کے طور پر فہرست میں درج کیا تھا-
|
VIEW PICTURE
GALLERY
|
|