چند باتیں ایسی ہیں، جو مجھے
کبھی سمجھ میں نہیں آئیں، مثلاً بعض گنجے حضرات، نائی… سوری، ہیئر کٹنگ
سیلون میں آخر کیا کرنے جاتے ہیں؟ یہی نہیں بلکہ وہاں جا کروہ یہ کیوں کہتے
ہیں کہ ”سائیڈوں سے بال ہلکے رکھنا۔“مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر
خدانخواستہ سائیڈوں سے بال”ہلکے“ نہ رکھے گئے تو کیا انہیں اپنی”زلفیں“جھٹک
جھٹک کر پیچھے کرنی پڑیں گی؟اسی طرح پچھلے دنوں ایک کھوکھے نما ریڑھی پر
نظر پڑی، جس کا ”پروپرائٹر “ فالسے کا جوس بیچ رہا تھا۔ موصوف نے اپنی
ریڑھی پر لکھ کر لگایا ہوا تھا ”ہماری اور کوئی برانچ نہیں۔“ یہ بات بھی
میرے اوپر سے گزر گئی کہ آیا یہ ”اطلاع“ تھی یا ”التجا؟“ایسا ہی نظارہ ایک
اور جگہ بھی دیکھنے کو ملا۔ تقریباً 8x12 فٹ کی ایک دکان جس میں چند دواؤں
کی شیشیاں سجی ہوئی تھیں، ایک بورڈ سے مزین تھی، جس پر لکھا تھا ”شاہ جہان
میڈیکل کمپلیکس۔“
آج کل بے غیرتی کا بھی بہت رواج چل پڑا ہے، جب کہ کسی زمانے میں محض شبہے
کی بنیاد پر قتل ہوجایا کرتے تھے۔ مثلاً اگر رشیداں اپنے گھر کی چھت پر
کپڑے سُکھانے گئی ہے اور اُدھر سے نذیر اپنی چھت پر کبوتروں کو دانا ڈالنے
نکلا ہے، نہ رشیداں کو نذیر کی کچھ خبر ہے اور نہ ہی نذیر کو رشیداں سے کچھ
لینا دینا ہے، مگر یونہی محلے کے ایک لڑکے کا رشیداں کے بھائی کو یہ کہہ کر
بھڑکا دینا کہ نذیر اس کی بہن رشیداں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا ہے، بس
اتنی سی بات پر بھائی صاحب بغیر کسی تحقیق کے چھرا مار کر نذیر کا قتل
کردیتے اور چودہ سال کے لیے اندر ہوجاتے۔ آج کل لوگ ایسے قتل نہیں کرتے،
بلکہ ایسے بھائی بھی نہیں ہوتے۔ آج کل اگر پنکی اپنے فرینڈ کے ساتھ اپنے
کمرے بیٹھی ہو اور اوپر سے پنکی کا بھائی ٹمی آجائے تو اپنی بہن کو دیکھ کر
وہ کچھ اس قسم کا ردعمل ظاہر کرے گا ”پنکی پکڑی گئی (تالی بجاتے ہوئے) پنکی
پکڑی گئی… آج تو میں اپنی بہن سے اس بات پر ٹریٹ لوں گا!“
اس قسم کی باتوں کا جواب میں نے اپنے شاعر دوست رؤف تنہا سے لینے کی کوشش
کی تو فرمانے لگے ”تمہاری پہلی مثال کا جواب تو بڑا سیدھا ہے… گنجے حضرات
کا نائی کے پاس جانا ایسا ہی ہے جیسے کسی بے ایمان شخص کا مسجد میں نماز
پڑھنے چلے جانا، یعنی اس کا فائدہ کچھ نہیں ہوتا، فقط دل کو تسلی مل جاتی
ہے اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ چھوٹی چھوٹی دکانوں والوں نے اپنے
باہر اس قدر پُرشکوہ بورڈ اور اعلانات کیوں لگائے ہوتے ہیں؟ تو میری جان !
تمہیں اس پر کیا اعتراض ہے؟ آخر ان بے چاروں کو بھی جینے کا حق ہے۔ اگر اس
ملک کے بونے قسم کے دانش ور اپنے آپ کو مافوق الفطرت قسم کی کوئی چیز سمجھ
سکتے ہیں تو پھر فالسے کا شربت بیچنے والے کو بھی اس بات کا حق ہے کہ وہ یہ
کہہ سکے کہ اس کی اور کوئی برانچ نہیں اور رہی بات بے غیرتی کی تو اس بابت
اتنا عرض ہے کہ یہ کوئی نیا phenomenon نہیں ہے۔ تمہیں یاد ہوگا کہ اس
بازار میں جہاں کے ”پائے“ بہت مشہور ہیں، جب ہم کالج کے زمانے میں جایا
کرتے تھے، تو ایک مکان کی بیل دینے کے بعد کیا منظر ہوتا تھا؟ میں نے
زہریلی نظروں سے تنہا کی طرف دیکھا اور کہا ”مجھے نہیں پتا، میں صرف وہاں
”پائے“ کھانے جایا کرتا تھا۔“ تنہا نے میری بات سنی ان سنی کردی اور اپنی
بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا ”Anyways…جب اس مکان کی بیل دی جاتی تو ساڑھے
چھ فٹ کا ایک کڑیل جوان اندر سے برآمد ہوتا، جسے دیکھ کر ہی دم نکل جاتا،
لیکن پھراس وقت جان میں جان آتی جب وہ ہمیں کہتا…”آپ اندر بیٹھیں”باجی“
تیار ہو رہی ہیں… مجھے سو روپے دیں، میں اتنی دیر میں گولڈ لیف کی ڈبی لے
آتا ہوں۔“ تنہا کی زبانی یہ واقعہ سننے کے بعد ایک لمحے کو دل چاہا کہ اس
کا منہ چوم لوں، لیکن پھر اس کی اور اپنی صحت کا خیال کر کے ارادہ ترک کر
دیا اور فقط یہ پوچھنے پر اکتفا کیا ”اس واقعے سے کیا ثابت ہوتا ہے؟“موصوف
نے جواب دیا ”اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر کسی کے غیرت کے اپنے اپنے
standards ہوتے ہیں، لہٰذا تم خوامخواہ اپنا جی ہلکان نہ کیا کرو۔“
تھوڑی دیر توقف کے بعد رؤف تنہا نے دوبارہ اسٹارٹ لیا ”تم نے خود تو سمجھ
میں نہ آنے والی باتیں سمجھ لیں، لیکن اب تم مجھے بھی ایک بات سمجھا دو جو
میری سمجھ میں نہیں آرہی… اگر خدانخواستہ کسی شریف آدمی کے گھر ڈاکو گھس
آئیں اور اس کی بیوی اور معصوم بچوں کو یرغمال بنا کر اس کا گھر لوٹ لیں،
تو اس آدمی کو کیا کرنا چاہیے؟“ اس قدر آسان سوال سن کر میں بہت خوش ہوا،
لہٰذا فوراً جواب دیا ”اسے چاہیے کہ وہ پولیس میں رپورٹ کروائے اور اگر وہ
ڈاکو پکڑے جائیں، تو انہیں عبرت ناک سزا دی جائے۔“ تنہا نے خوش ہو کر مجھے
تھپکی دی اور کہا ”شاباش… لیکن اگر کوئی اس شریف آدمی کو یہ مشورہ دے کہ
بھائی دراصل یہ ڈاکو نہایت بھلے مانس لوگ ہوتے ہیں، چوں کہ انہیں نوکری
وغیرہ نہیں ملتی، تو اس لیے یہ ردعمل کے طور پر ڈاکے ڈالتے ہیں، لہٰذا
انہیں بات چیت سے سمجھانا چاہیے اور اس بات کی پروا نہیں کرنی چاہیے کہ
انہوں نے کسی کے بیوی بچوں کو قتل کر کے کسی کو لوٹ لیا ہے، تو ایسا مشورہ
دینے والے کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہوگا؟“
”استغفراللہ …ایسا مشورہ تو کوئی پاگل ہی دے سکتا ہے۔“
” جی نہیں! ایسا مشورہ آج کل چند دانش ور نما لوگ دے رہے ہیں اور ان نام
نہاد دانشوروں کے خیالات اسی قسم کے ہیں جیسے میں نے ابھی تمہیں ڈاکو والی
مثال کے ذریعے سمجھانے کی کو شش کی۔ یقین نہیں آتا تو یہ دیکھو…“ تنہا نے
ایک اخبار کا تراشا میرے سامنے رکھ دیا، جس میں کچھ لائنیں نشان زد کی ہوئی
تھیں، جن کا مفہوم یہ تھا کہ طالبان مخلص اور دین دار لوگ ہیں، جو اللہ کی
رضا کی خاطر یا ملک و قوم کی خاطر گھر بار چھوڑ کر جان ہتھیلی پر لیے پھرتے
ہیں۔ چوں کہ امریکیوں تک ان کی رسائی نہیں، تو وہ سیکورٹی فورسز، حکومتی
شخصیات یا کھاتے پیتے لوگوں پر اپنا غصہ نکال رہے ہیں۔
جب میں یہ پڑھ چکا تو تنہا اخبار لپیٹتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا اور بولا”اب تم
ہی مجھے سمجھاؤ کیوں کہ فی الحال تمہاری طرح میں نے بھی اس بات کو ”نہ سمجھ
میں آنے والی باتوں“ کے کھاتے میں ڈال دیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دانشور
جن لوگوں کے حق میں اس طرح کے خوب صورت دلائل تراشتے ہیں، ان کا نماز روزے
سے دور تک کا بھی تعلق نہیں، وہ لوگوں کے گلے کاٹتے ہیں، خودکش حملوں سے
خاندان کے خاندان اجاڑ دیتے ہیں، لیکن آفرین ہے، ہمارے دانشوروں پر کہ ان
جیسے لوگوں کے حق میں بھی ایسی ایسی دل فریب تاویلیں گھڑ لیتے ہیں کہ عقل
دنگ رہ جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو میں طالبان کا وکیل کہتا ہوں۔“ یہ کہہ کر
رؤف تنہا نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور رخصت ہوگیا۔ |