کالم نگار وہ لوگ ہیں جو سیاسی ، سماجی اور معاشرتی
اچھائیوں اور برائیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہم کالم نگاروں(تجزیہ نگاروں)
کو تین خانوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک وہ جو واقعتا کالم نگار ہیں مگر
واضح طور پر سیاسی وابستگی رکھتے ہیں۔ دوسری قسم وہ ہے جو بنیادی طور پر
کالم نگار نہیں ہیں، صرف تنظیمی دباؤ کی وجہ سے اخبارات پر مسلط ہیں۔ تیسری
قسم وہ ہے جوسکہ بند کالم نگار بھی ہیں اور غیرجانبداری کے ساتھ سیاسی
تجزیہ بھی کرتے ہیں۔ گوکہ ایسے لوگ بہت کم ہیں مگر انہی کی وجہ سے کالم
نگاری کا بھرم قائم ہے۔ اخبارات کی مجبوری ہے کہ اگر وہ چاہیں تب بھی
’’پیڈکالم نگاروں‘‘ سے جان چھڑانا ان کے لیے آسان نہیں ہے، البتہ اگر
قارئین چاہیں تو وہ ان سے چھٹکارا پاسکتے ہیں، نام لکھنے کی ضرورت نہیں
اخبار پڑھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ کون سا کالم نگار کسی کے ایجنڈے پر
کام کرنے والا اور کون سا غیرجانبدار ہے، بس آپ صرف یہ کریں کہ کسی بھی
کالم نگار کی بات پر آنکھ بند کرکے ہاں نہ کردیا کریں۔
کالم نگاروں کی ویسے تو کوئی درجہ بندی نہیں ہوتی مگر اس دنیا داری نظام
میں کالم نگاروں کے بھی تین درجے ہیں۔ ایک وہ جو نامور اخبارات میں لکھتے
ہیں ۔ دوسرے وہ جودرمیانہ درجے کے اخبارات میں لکھتے ہیں۔ تیسرا اور آخری
درجہ ان کالمسٹ کا ہے جو لوکل اخبارات میں کالم لکھتے ہیں۔
جو نامور اخبارات میں کالم لکھتے ہیں وہ نہ صرف ان اخبار والوں سے معاوضہ
لیتے ہیں بلکہ وہ کالم بھی ان کی فرمائش پر لکھتے ہیں۔ ان کا کالم ایک
مخصوص طبقہ پڑھتا ہے ۔ اس لیے ان کالمسٹ کی حکومتی سطح پر واقفیت ہوتی ہے
مگر عوام میں ان کی پذیرائی بہت کم ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے درجہ کے
کالمسٹ کے کالم ہر لوکل اور درمیانے درجے کے اخبا رات میں شائع ہوتے ہیں
اور یہ کالمسٹ کسی بھی اخبار سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں حاصل کرتے۔ یہ
کالم حالات حاضرہ کے مطابق حقیقت پسندانہ اور عوامی رائے کو مدنظر رکھ کر
لکھتے ہیں کیونکہ یہ عوام میں گھلے ملے ہوتے ہیں۔ ان کاتعلق غربت میں پسی
عوام کے ساتھ زیادہ قریبی ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان درمیانے درجے کے کالمسٹ کو تحفظ کون دے گا۔ کیونکہ وہ
حالات حاضرہ کے مطابق دیانت داری سے،ایمانداری سے اور حقیقت پر مبنی کالم
لکھ کر معاشرتی برائیوں اور ناہمواریوں کو سب کے سامنے لاتے ہیں ۔کسی بھی
قسم کے لالچ، دباؤ اور خوف سے بالاتر ہو کر کالم لکھتے ہیں۔ جس برائی کی یہ
کالمسٹ نشاندہی کرتے ہیں اس کے خالق اور ان کے حواری ان کالمسٹ کو دھمکیاں
دینا شروع کردیتے ہیں۔ اگر کسی سیاسی پارٹی کے خلاف کالم لکھتے ہیں ان کے
سپورٹر ان یا اس پارٹی کے لیڈرز کے خاص احباب ان کالمسٹ کو برے نتائج کی
دھمکیا ں دینا شروع کردیتے ہیں بلکہ اکثر اوقات نقصان بھی پہنچا دیتے ہیں ۔
ان سب سے بڑھ کر معاشرے کے کسی شعبہ میں کرپشن جس کی جڑیں بہت مضبوط اور
گہری ہیں اس کے خلاف جب بھی کسی کالمسٹ نے آواز بلند کی اسی وقت اس کو
دھمکی آمیز فون آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر دینی کالم لکھا اور اس
میں کسی بھی گروہ کی غلطی کی نشاندہی کی تو اسی گروہ کے لوگ بر ابھلا کہتے
اور دھمکیاں دینا شروع کردیتے ہیں۔ بعض دفعہ تو ایسا ہوتا ہے کہ ان کالم
نگاروں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے باقاعدہ اسلحہ کا بھی بے دریغ استعمال کیا
جاتا ہے۔
صحافی برادری کی مختلف یونینز ہیں ۔ اس برادری کو حکومت بھی کافی اہمیت
دیتی ہے۔ان کے لیے کالونی قائم کی جاتی ہیں۔ (بے شک ان کا فائدہ حکرانوں کے
کاسہ لیس نامور صحافی اٹھا رہے ہیں) ان کو حکومتی سطح پر منعقد کیے گئے
پروگرامات میں مدعو کیا جاتا ہے ۔ بیرون ممالک کے دوروں پر ساتھ لے جایا
جاتا ہے مگر حفاظتی اقدام ان کے لیے بھی کوئی خاص نہیں کیے جاتے ہیں۔ کتنے
صحافی اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔جس کی
مثال سلیم شہزد اور ولی بابر سمیت کئی صحافی ہیں جن کو غنڈہ گردی کے ذریعے
قتل کردیا گیا اور اس کے بعدان کے ورثاء آج تک انصاف کے منتظر ہیں ۔
کالمسٹ لوگوں کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی۔نہ ہی ان کو پروگرامات میں مدعو
کیا جاتا ہے۔ اگر سروے کیا جائے توکالمسٹ کی تعداد ایک ضلع میں دونوں
ہاتھوں کی انگلیوں سے زیادہ نہ ہوگی ۔ ہو سکتا ہے کسی ضلع میں اس سے زیادہ
بھی ہوں۔صحافی برادری کاضلعی انتظامیہ سے بھی بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے جبکہ
ضلعی انتظامیہ کالم نگار وں کے نام سے بھی واقف نہیں ہوتی۔کالم نگار اپنی
مدد آپ کے تحت اپنے فرائض منصبی ادا کررہے ہیں۔
صحافت پاکستان کا ایک اہم ستون ہے اور صحافیوں اور کالم نگاروں کو چاہیے کہ
وہ اپنا فریضہ ایمانداری سے نبھائیں۔ کسی کی ذات یا کسی ادارے کو انتقامی
کاروائی کے طور پر استعمال نہ کریں۔ ہمیشہ سچ پر مبنی خبر اور حالات حاضرہ
کا تذکرہ کیا جائے۔ عوام کو اصل حقائق سے آگاہ رکھنا صحافی برادری اور ان
کا مثبت تجزیہ پیش کرنا کالم نگاروں کا کام ہے۔جن ذرا سی غلطی بیانی سے
عوام میں بے چینی پھیل جاتی ہے ۔
حکومت کو چاہیے کہ جس طرح صحافی برادری کو اہمیت دی جاتی ہے اسی طرح کالم
نگاروں کو بھی عزت اور احترام دیاجائے۔ شہر کی سطح پر نہیں تو کم ازکم ضلعی
سطح پر کالم نگاروں کا ضلعی ہیڈ آفس بنایا جائے، جہاں پرضلع بھر کے کالم
نگاروں کے اعدادوشمار جمع ہوں ۔ کالونیوں میں کالم نگاروں کے لیے بھی
مکانات مخصوص کئے جانے چاہئیں۔ مختلف ممالک کے دوروں اور مقامی تقریبات میں
کالم نگاروں کو بھی مدعو کیا جائے۔ جن لوگوں کو حکومت ساتھ لیکر جاتی ہیں
وہ کالم نگارنہیں بلکہ وہ ٹی وی اینکر ہوتے ہیں جو ایک ٹکٹ میں دومزے لے
رہے ہوتے ہیں ۔ مقامی انتظامیہ کو پابند کیا جائے کے صحافیوں کے ساتھ ساتھ
کالمسٹ کو بھی برابر عزت و احترام دیں ۔ |