آزادی کے چراغ تیل نہیں لہو سے
روشن ہوتے ہیں ……جب سے یہ گریٹ لائن پڑھی ہے سر سے لیکر پاؤں تک روح حب
الوطنی میں ملنگنی ہو کر دھمالیں ڈالتی پھرتی ہے۔کِسی دانشور کا قول ہے
’’انسانی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ جب کو ئی قوم موت کی پروا کیے بغیر آزادی
اور خود مختاری کی جدو جہد پر کمر بستہ ہو جاتی ہے تو وہ ہمیشہ کامیاب و
کامران ہوتی ہے‘‘۔بلاشبہ آزادی کا اصل مقصد بہتر صورتِ حال حاصل کرنے کا
جذبہ ہے۔
حضرت سعد بن وقاص ؓ قادسیہ فتح کر کے لوٹ رہے تھے ۔راستے میں دریا ئے دجلہ
کے دوسرے کنارے ایرانی بادشاہ یزد گرد کی حکومت تھی جو آتش پرست تھا ۔یعنی
وہ لوگ آگ کو پوجتے تھے۔حضرت سعدؓ نے دِل میں سوچا کیوں نہ اِس بدبخت کو
بھی اﷲ کے حکم سے خدا پرستی پر لگا دیا جائے۔لہذا حضرت سعد بن وقاصؓ نے
اپنا پیغام بھیجا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے غلام آرہے ہیں ۔تیاری کر
لو پھر نہ کہنا کہ ہمیں خبر نہیں ہوئی۔
جب یزد گرد کے پاس حضرت سعد بن وقاص ؓکا پیغام پہنچتا ہے تو وہ حکم دیتا ہے
کہ دریائے دجلہ کا پل توڑ دو ۔اِس مغرور بادشاہ کا خیال تھا کہ پُل توڑدیا
گیا تو مسلمان دریا پار نہیں کر پائیں گے۔حضرت سعد بن وقاصؓنے دیکھا کہ پُل
تو توڑ دیا گیا ہے اور کشتی کوئی نظر نہیں آتی تو اپنے مجاہدوں سے دو
لائینوں میں خطاب فرمایا کہ ہم سب مرحلوں میں آزمائے گئے ہیں اور یہ بھی
ایک مرحلہ ہے۔آج ہمارے امتحان کا دِن ہے ۔اور پھر رسول اﷲ ﷺ کا غلام گھوڑے
کا رُخ موڑ کر دریائے دجلہ سے مخاطب ہوتا ہے ۔’’اے دجلہ جِس کے حکم سے تو
بہتا ہے ـاِسی کے حکم سے ہم بھی سر بہ کف ہیں ہمیں تیری موجوں سے کوئی خطرہ
نہیں۔یہ کہا اور گھوڑا دریا میں ڈال دیا ۔ہزاروں مجاہدین نے جب اپنے قائد
کا گھوڑا دریا میں جاتا دیکھا تو اپنے گھوڑے بھی دریا میں ڈال دیے ۔تاریخ
بتاتی ہے کہ رسول اﷲ ﷺکے غلام دریا میں اِس طرح جارہے تھے جیسے تخت پہ
بادشاہ بیٹھا ہواور سب کی زبانیں ذکرِ الٰہی سے معمور تھیں ۔ڈاکٹر علامہ
محمد اقبال ؒ نے فرما یا تھا کہ
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
آزادی تب ہی قدم چومتی ہے جب آزادی کے گن گانے والوں کا نہ صرف عقیدہ و
ایمان پختہ ہو بلکہ اپنے لیڈر و رہنماؤں کی قدرو منزلت بھی دِل میں موجود
ہو۔ہمارا ملک پاکستان آج آزاد ریاست ہے ۔ ہم آج آزاد ہونے کے با وجود بھی
اگر لاچار اور مجبور ہیں تو اِس کی اہم وجہ یہی ہے کہ ہم اپنے آبا ؤ اجداد
،اپنے بانیوں ،آزادی کے لیڈروں اور سب سے بڑھ کر اپنے ایسے عظیم محسنوں جِن
کی مرہونِ منت 14اگست1947ء ماہِ رمضان کے پاکیزہ مہینے کے 27ویں روزے کو یہ
پاک وطن دنیا کے نقشہ پر پاکستان کے نام سے ظاہر ہوا ……قائد اعظم محمد علی
جناح ؒ اور ڈاکٹرمحمد علامہ اقبال ؒ جو سرِ فہرست ہیں کے فرمودات کو تو
نایاب دستاویزات کی طرح لپیٹ سمیٹ کر کے سات تہوں میں سنبھال کر رکھ دیا
ہے۔ظاہر ہے ہم نئے دور کے انسان ہیں ،نئی سوچ ،نئے افکار،نیا نظریہ، ہمارا
نہ ہی تو خون بہا ہے اور نہ ہی ہماری بہن بیٹیوں کی عزتیں پامال کی گئی ہیں
…… تو ہم بھلا کیسے اور کیونکر 14اگست1947ء یعنی انیس سو ڈیڑھ کی یادیں
،باتیں تازہ کریں ۔
ظاہر ہے عقل مند بزنس مین انویسمنٹ وہیں کرتا ہے جہاں اُسے 100%منافع نظر
آتا ہے ۔یہ رازِ نہاں پیدا ہوتے بچے پر بھی عیاں ہے کہ حق اور سچ کے پاسبان
عزت کی دو وقت کی روٹی تو کما سکتے ہیں مگر بم پروف عظیم و عالیشان محلات
تعمیر ہر گز نہیں کروا سکتے ۔اب یہ انویسمنٹ کِسی بزنس میں ہو یا الیکشن
میں ہے تو سرمایہ کاری ہی اور ویسے بھی سیاست سے بڑھ کر منافع بخش بزنس اور
کوئی ہو ہی نہیں سکتا ۔سیاست کی سیاست، ریاست کی ریاست اور منافع سو
ٹَکا……واشنگٹن نے کہا تھا’’بہت کم لوگوں میں حسنِ سیرت کا اتنا جو ہر ہوتا
ہے کہ وہ بڑی سے بڑی بو لی پر بھی نہ بکیں‘‘۔آج بھی ایسے بہت کم لوگ موجود
ہیں مگر افسوس کہ وہ کم ترین سب کے سب سیاست کی الف اور ب سے بھی انجان ہیں
۔میں پوری ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے آزادی کے قائدین نے سیاست
نہیں خدمت کی…… یا یوں کہیں کے آج کے دور کی سی سیاست توہر گزنہیں کی ورنہ
آج ہم نہ صرف دہرے غلام ہوتے بلکہ دِن رات محنت مزدوری کرتے اور مرتے دم تک
ہماری آنے والی نسلیں بھی اپنے آباؤ اجداد کا قرض ہی اُتارتی اُتارتی اِس
جہانِ فانی سے رخصت ہو جاتیں مگر قرض بمعہ سود زندہ و سلامت رہتا۔اگر ہمیں
اپنی آزادی کو بر قرار رکھنا ہے تو اِس آزاد ایٹمی طاقت کی قوت سے لبریز
وطنِ عزیز پاکستان کو مضبوط اور مستحکم بنانا ہوگا ،خود اپنے ہاتھ کو
پھیلانے کی بجائے پھیلے ہوئے ہاتھ پر اپنا ہاتھ اُوپر سے جھکانا ہوگا۔اور
یہ سب تب ہی ہوگا جب ہر پاکستانی کو حرام اور حلال کا اندازہ ہو جائے گا کہ
وہ ملک و قوم کو کِس قدر لوٹ رہا ہے اور جو وہ ملک و قوم سے حاصل کر رہا ہے
وہ حرام ہے یا حلال ……ملک و قوم کو چلانے والے صاحبو ، لمحہِ فکریہ ہے ذرا
سوچو……! |