دینی مدارس کے احسانات

متحدہ ہندوستان پر جب استعماری قوتوں نے مکروفریب کے ذریعے سے نا جائز قبضہ کرکے جہاں اسلامی حکومت ختم کرنے کی مذموم کوشش کی وہا ں پر اسلامی تعلیمات کے خلاف بھی پرپیگنڈہ شروع کر دیا،اکابرین علماء کرام کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا،یہا ں تک کہ ان علماء کی شہادتوں کا سلسہ شروع ہو گیا ، مسلمانوں نے جن یہ ظلم عظیم دیکھا تو مزاحمت کا سلسہ شروع ہو ا، علم وعرفان کے چراغوں کو جب بجھایا جانے لگا تو مسلمانوں کے اندر مستقبل میں اسلامی تعلیمات کی بقا کے لیے تشویش پیدا ہوئی،اور آپس میں اس سلسے میں مشاوت شروع ہو گی کہ ان اسلامی علوم کی کی حفاظت کیسے کی جائے،حجۃ الاسلام مولانا قاسم نانوتوی کی سربراہی میں یہ مشاورت چلتی رہی،بہت سوچ وبچار کے بعد یہ طے پایا کہ ایک دینی مدرسہ قائم کیا جائے جو آنے والی نسل کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرائے اور ان کی فکر ی ونظری پرورش کی جائے،چنانچہ 1868ء میں دیوبند نامی علاقے میں اس مدرسے کی بنیاد رکھی گی۔

اخلاص سے رکھی گی اس بنیاد میں اﷲ تعالیٰ نے ایسی برکت ڈالی کہ ایک استاد اور ایک شاگرد سے شروع ہونے والے اس مدرسے نے ایک ایسے درخت کی شکل اختیار کر لی جس کی شاخیں آسمان کو چھونے لگی، اس کا فیض پورے عالم میں پھیلنے لگا ، اور اس مدرسے نے ایسے ایسے رجال امت کو دیے کہ ایک ایک جان نے پوری پوری جماعت کا کردار ادیا کیا، کئی شیوخ الحدیث،حجۃ الاسلام،سلاطین علماء،مفکرین،مناظر اسلام اس جامعہ کی مرہون منت ہیں ،جنکا انکار نہیں کیا جا سکتا،اس جامعہ کا کردار تیزی کے ساتھ پورے بر صغیر میں پھیلتا چلا گیا، گمراہ کن فتنوں کا قلع قمع کیا جانے لگا،عسائیوں اور ہندوں سے مناظرے میں دشمنوں کو ناکوں چنے چبوائے گے،امت مسلمہ کا اکثر حصہ ان دینی و معاشرتی علوم سے فیض یاب ہونے لگا، علماء کرام نے جب مدرسے کی اتنی افادیت دیکھی تو اسلامی مدرسوں کا انعقاد شروع کر دیا،اور دیکھتے ہی دیکھتے امت کا ایک کثیر حصہ ان چشموں سے سیراب ہوتا چلا گیا،اور پوری دنیا میں اس کا فیض پھیلتا گیا ،ان سب کا کریڈٹ دارالعلوم دیوبند کو جاتا ہے۔

ان دینی مدارس کے خلاف سازشیں تو اسوقت سے ہی شروع ہو گی تھیں جب دارالعلوم دیوبند نے کامیابی کے جھنڈے گاڑھنا شروع کیے تھے،رفتہ رفتہ مخالفت کا سلسلہ بھی زورو شور سے جاری رہا،جیسے جیسے ان مدرسوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا رہا اسلام دشمن طاقتوں کی نظر میں یہ مدرسے کھٹکنے لگے،بدقسمتی سے کچھ اپنے حضرات بھی شعوری اور غیر شعوری طور پر ان قوتوں کے آلہ کا ر بنتے گے،اور مدارس کے خلاف پروپیگنڈہ ہوتا چلا گیا، آپ حضرات اگر دینی مدارس کے ماضی وحال کی طرف غوروفکر کریں تو ایک منصف مزاج آدمی اس کی افادیت کا انکار نہیں کر سکے گا،وہ اس بات کی گواہی دینے پر مجبور ہو گا کہ ان لوگوں نے ہی علوم نبوت کی حفاظت کی ہے، یہی لوگ وارثین نبوت ہیں، سیاسی ،شخصی،ذاتی مفادات سے ہٹ کر ان حضرات نے یہ علوم امت تک پہنچا کر احسان عظیم کیا ہے،بنیاد پرست،متعصب،تنگ نظر ،دہشت گرد جیسے القابات بھی انکے قدم نہ ڈگمگا سکے، دھمکیوں،لالچوں حتیٰ کہ شہادتوں سے ان حضرات کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گی،مگر یہ پوری آب و تاب کے ساتھ امت مسلمہ کو فیض نبوی ﷺپہنچا رہے ہیں، اور انشاء اﷲ مستقبل میں بھی یہ مدارس قائم ودائم رہیں گے ،کیونکہ ایک دانشور کا قول ہے کہ جس تحریک کی بنیادوں میں خون شامل ہو جائے وہ تحریک کبھی ناکام نہیں ہوا کرتی، اور ان دینی مدارس کی تحریک میں اکابر ین کا خون شامل ہے۔
zubair
About the Author: zubair Read More Articles by zubair: 40 Articles with 70493 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.