ترقی کو چاہئے نیا نظریہ

اس الکٹرونک دور نے پوری دنیا کو گلوبلائز کردیاہے،ہم ایک منٹ میں دنیا کی ہر بڑی چھوٹی ایجادات ،اطلاعات سے روآشنا ں ہو جاتے ہیں ،یہ اس دور کی برق رفتاری کا نتیجہ ہے۔ساری دنیا تبدیل ہو رہی ہے اور اس تبدیلی سے ہم بھی اچھوتے نہیں ہیں،ہماری بھی زندگی اس نئے دور کی برق رفتاری کے ارد گرد گھومتی نظر آتی ہے،موبائیل ،کمپیوٹر ،اور ٹی وی کے استعمال میں ہم کسی بھی ملک سے پیچھے نہیں ہیں،بلکہ موبائیل کے استعمال میں تو ہم دنیا میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ ہندوستان کی صلاحیت خوبی اور قابلیت کا لوہا آج دنیا کا ہر ملک مان چکاہے،دنیا کے ہر شعبہ میں ہم نے اپنی الگ پہچان بنائی ہے۔اس ملک کی اقتصادی حالت کا اندازہ یہاں موجود بڑے بڑے شاپنگ مالس ،سڑکوں پر دوڑتی مہنگی گاڑیاں اور اونچی عمارتوں سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے ۔خاص کر دلی ،ممبئی ،چنئی ،کولکاتہ ،جیسے میٹرو پالیٹک سیٹی میں تو اس الکٹرونک دور نے کافی تیزی سے اپنی جگہ پکی کر لی ہے ۔اس کا سب سے زیادہ اثرآج کی نوجوان نسل پر ہے،اس الکٹرونک دور کو انہوں نے خود پر حاوی کر لیا ہے۔ان کی زندگی آج صرف اور صرف کمپیوٹر،لیپ ٹاپ اور موبائل تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔اس نئے دور نے ہماری زندگی کو کافی سہل بنادیا ہے ہم چند سکینڈ میں خود سے ہزاروں میل دور لوگوں کے حالات آسانی سے جان لیتے ہیں،بہت سارے مثبت اثرات ہیں ان کے لیکن جب منفی اثرات کی بات کریں تو وہ بھی کچھ کم نہیں ۔

اس ترقی یافتہ دور نے یوں تو بہت کچھ دیا ہے ،لیکن اس کے بدلے جو کچھ لیا اگر اسے سوچنے بیٹھتے ہیں تو صرف اور صرف خسارہ ہمارے حصے میں آتا ہے۔اس الکٹرونک دور نے ہمیں برق رفتاریاں تو بخش دی ہیں،لیکن خلوص ومحبت سے بے بہر ہ کردیاہے،پوری دنیا کی خبر ہوتی ہے لیکن اپنے گھر کے حالات سے بے خبر ہوتے ہیں۔ہر روز نئی تکنیک کے بارے میں جاننے کے لئے بے چین رہتے ہیں آج کے نوجوان لیکن ان کے والدین ان کے سرپرست کس مشکل سے ان کی خوشیوں کا انتظام کرتے ہیں اس سے وہ مکمل طور پر بے خبر ہوتے ہیں۔دوستوں کی ہر حرکت پر ان کی نظر رہتی ہے لیکن والدین کے لئے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا،دوستوں کی باتیں ان کے لئے اتنی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں کہ وہ اس کے لئے اپنی جان تک گنوادیتے ہیں اور انہیں اس بات کا خیال بھی نہیں آتا کہ وقتی غصہ میں وہ اپنی زندگی کے اہم لوگوں کو درکنار کرتے جارہے ہیں۔

اتنی ترقی کرنے کے باوجود آج کے نوجوان میں بڑھتی خودکشی کی واردات نے ہمیں اس کے پیچھے چھپی وجوہات کوجاننے کے لئے مجبورکردیا ہے ،وہ کون سی وجوہات ہیں جو نوجوانوں کو یہ حتمی قدم اٹھانے پر مجبور کردیتی ہیں۔

ماہر نفسیات کا ماننا ہے کہ اپنی ناکام خواہشوں کا بوجھ آج کی نئی نسل برداشت نہیں کرپاتی ہے ،خاص کر نوجوان جویہ چاہتے ہیں کہ وہ جب جس وقت اور جو چاہیں انہیں ہر حال میں دستیاب ہوں اور اگر ان کی خواہشات وقتی طور پر پوری نہیں ہوپاتی ہیں تو وہ خودکشی کو بہ آسانی گلے لگا لیتے ہیں۔

آج کی برق رفتار زندگی جہاں ہر جگہ کمپٹیشن ہے اس میں ممکن ہے کہ آپ کو ہر جگہ کامیابیاں نہ نصیب ہوں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ خودکشی کر لیں۔

ماہرین بتاتے ہیں کہ والدین کا اضافی دباؤ بھی نوجوانوں اور بچوں میں بڑھتی خودکشی کی وجہ بن رہا ہے۔اکثر والدین بچوں سے وہ کچھ چاہتے ہیں جسے پورا کرنا بچوں کے لئے ممکن نہیں ہو پاتا ہے ،اس کے علاوہ اپنے مقصدکی کامیابی میں حد درجہ عجلت بھی اس کا اہم سبب ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر تیز غصہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج کر دیتا ہے۔دوستوں میں لڑائی ،گرل فرینڈ سے ناراضگی اور والدین کی ڈانٹ بھی خود کشی کے لئے اکساتے ہیں۔

آج کے نوجوان زندگی کی تلخیوں سے تنگ آ کر فوراً ہی خود کشی کی جانب قدم بڑھا دیتے ہیں۔لگزری لائف جینے کی اتنی بری عادت پڑ جاتی ہے کہ زرا سی تکلیف ہونے پر وہ موت کو گلے لگا کر خود تو آزاد ہو جاتے ہیں،لیکن اپنے پیچھے چھوڑ دیتے ہیں دکھ درد اور کرب،روتے بلکتے والدین اور آنسوں میں گھرے بھائی بہن۔میں یہ نہیں کہتی کہ اس ٹیکنالوجیکل دور سے اپنا ربط ختم کرلیا جائے ، آج یہ کمپیوٹر موبائل ہماری ضرورت بن چکے ہیں،ہم چاہ کر بھی ان سے کنارا نہیں کرسکتے ۔ہم دوستوں سے بھی الگ نہیں رہ سکتے کیونکہ دوست ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ ہوتے ہیں۔لیکن ہمیں یہ سوچنا چاہئے ،اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کہیں ہم اپنی خوشیوں میں اپنوں کو فراموش تو نہیں کررہے ہیں؟

حالیہ دنوں میں کچھ ایسے واقعات نگاہوں سے گزرے جنہوں نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں اس موضوع پر قلم اٹھاؤ ں جو آج کے ایک سلگتے ہوئے مسئلے میں شامل ہے۔

فلم اداکارہ جیہ خان کی خودکشی،آل انڈیا میڈکل انسٹیوٹ( AIMS ) کے ایک طالب علم کی خودکشی اور دہلی میں ایک خاتون کی اپنے بچوں کے ساتھ خودکشی۔یوں تو ہندوستان میں ہر روز خودکشی کی واردات ہوتی رہتی ہے۔لیکن میں نے اوپر جن وارداتوں کا تذکرہ کیا ہے وہ شائد اب بھی آپ کے ذہن کے دریچوں میں محفوظ ہونگی،اگر ہم ان واقعات پر سرسری نظر ڈالیں تو ان کے پیچھے وہی ساری وجوہات پوشیدہ ہیں جن کا میں نے اوپر تذکرہ کیا ہے ، جیہ خان کی خودکشی کے پیچھے چھپی سب سے بڑی وجہ اس کے دوست سے اس کی لڑائی کو بتایا جارہا ہے،اور اس گتھی کو سلجھانے میں ابھی تک ممبئی پولس لگی ہوئی ہے۔وہیں AIMS کے اس طالب علم کی خودکشی کا سبب اس کی بیماری کو بتایا گیا،جبکہ دہلی میں اس خاتون کی اپنے بچوں کے ساتھ خودکشی کو معاشی مجبوری سے جوڑا گیا،اور یہ کہا گیا کہ اس کے شوہر کی آمدنی کم اور اسے زیادہ پیسے کی طلب تھی ۔ اگر ہم ان وجوہات اور ان کے اٹھائے گئے قدم کو دیکھیں تو ترقی پزیر ہندوستان کی چھپی تنزلی ہمارے سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ہمارا ہندوستان ہمارے خوابوں کا ملک اور اس کی یہ ذہنیت ،کہاں جارہے ہیں ہم؟کن خیالات کو اپنی زندگی میں جگہ دے رہے ہیں ۔کس معاشرے کی تشکیل کی جارہی ہے ہمارے ذریعے؟کیا ہمارا یہ قدم ہمارا یہ رویہ ہمارا یہ نظریہ ہمارے ملک کو ایک ترقی یافتہ ملک بننے دے سکتا ہے؟ ہمارے ترقی پزیر ملک کو ایک ترقی یافتہ ملک کا درجہ اس کمزور ذہنیت کے ذریعے مل سکتا ہے؟وہ نوجوان جو اس ہندوستان کی ترقی کے ضامن ہیں ،اگر ان کی ذہنیت یہ رہی اگر اس ترقی پزیر ملک کی باگ ڈور اتنے کمزور ہاتھوں میں رہی تو کیااس ملک کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کا ہمارا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتاہے؟

اگر ہم یہ سارے سوالات خود سے کریں تو ہمارا جواب یقینا نہیں میں ہوگا۔ہم اس ملک کو اس وقت تک کامیابی کی جانب گامزن نہیں کرسکتے جس وقت تک ہم اپنی ان کمزوریوں پر قابو نہیں پاتے ۔ ہمیں اس حوصلے کی ضرورت ہے جس سے ہر مشکل حالات کا مقابلہ بہادری سے کرسکیں،نہ کہ ذرا سی بات ،ذرا سی پریشانی سے خود کی زندگی کو ہی تباہ کرلیں ۔ہمیں وہ نظریہ چاہئے جو ہر حال میں ہمیں مثبت سوچ اعلیٰ خیالات اور اونچی ذہنیت کی تعمیر میں مددکرے۔ہماری اس ترقی کو ایک نیا نظریہ چاہئے ،ایک ایسا نظریہ جو اس بذدلی سے ہمیں نجات دلا سکے۔ اور اس نئے نظریہ کو اپنے ہندوستا ن میں رائج کرنے کا بیڑا بھی ہمیں ہی اٹھانا ہوگا،کوئی اور نہیں آئے گا ہمیں بہادری کا سبق سکھانے ۔ہماری ان کمزوری پر ہمیں خود قابو پانا ہوگا۔اگر ہم یہ چاہتے ہیں کے ہمارا ملک ایک ترقی یافتہ ملک کی قطار میں کھڑا ہو تو سب سے پہلے ہمیں اپنی بنیادی کمزوریوں پر قابو کرنا ہوگا۔اور اس کمزوری پر قابو پانے کے لئے اس مشکل سے پار پانے کے لئے ہمیں کسی سرکاری مدد کی ضرورت نہیں ،کسی سائیکولوجیسٹ کی ضرورت نہیں ،کسی بڑے اسپتال کا رخ بھی نہیں کرنا اگر ہم چاہیں تو اپنی اس کمزور ذہنیت پر خود بہ خود قابو پاسکتے ہیں۔

اس کمزوری سے نجات کے لئے ہمیں صرف تھوڑی سی کوشش کرنی ہوگی،اگر ہم اپنی زندگی کو اپنوں سے جوڑ کر رکھیں ،ہر قدم پر یہ سوچ لیں کہ ہمارا ایک غلط قدم ہمارے اپنوں کے عمر بھر کا درد بن سکتا ہے،اگر چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو جیا جائے ،اگر ہر حال میں خوش رہنا سیکھ لیا جائے،اپنی خواہشوں پر تھوڑی لگام لگا لی جائے ،اور حالات کا مقابلہ بہادری ،سچائی اور پختہ عزم کے ساتھ کیا جائے تو ممکن ہے ہم اپنی زندگی کے ساتھ اپنوں کی خوشی اور اپنے ملک کی ترقی میں بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں ۔ہمارے اس ترقی پزیر ملک کو اس طرح کا نیا نظریہ چاہئے ،تاکہ ہماراملک ایک ترقی یافتہ ملک بنے ،لیکن اس کے ساتھ ایک اعلیٰ ذہنیت،مثبت سوچ اور پختہ عزائم ،ہمدردی ،ایمانداری ،اور سچائی کا گہوارابن سکے ۔یہ کام مشکل تو ہے لیکن ناممکن بالکل بھی نہیں ۔اگر ہم کوشش کریں تو ہمارے خوابوں کا ہندوستان ،ہمارا ملک ایک ایسی مثال قائم کر سکتا ہے جس سے تمام ممالک سبق لینا چاہیں گے۔
Misbah Fatima
About the Author: Misbah Fatima Read More Articles by Misbah Fatima: 14 Articles with 11309 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.