مردہ کون ہے؟

کلام پاک میں خدا فرماتا ہے کہ آیا وہ لوگ جو عالم اور شعور رکھتے ہیں اور وہ جو بے شعور ہیں کیا وہ ایک ہوسکتے ہیں یا ان کا مقام برابر ہوسکتا ہے ۔نہیں کبھی اہل علم اور اور ناخواندہ افراد کا مقام برابر نہیں ہوسکتا ہے۔اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جو پڑھے لکھے ہیں بس وہی افضل ہیں۔بات شعور اور دانش کی ہے بہت سے اہل علم ایسے ہیں جن کی بدولت معاشرے میں خرابی اور فساد برپا ہورہا ہے،اور بہت سے ناخواندہ ایسے ہیں جن کی مثبت سوچ اور لافانی کردار نے انہیں تاریخ میں امرکردیا ہے۔زندہ اور شریف وہ انسان ہے جو کمزوروں کے ساتھ انصاف کرے اور جو اپنے انفرادی و اجتماعی حقوق کے لئے ڈٹا رہے، زنداہ وہی ہے جس میں غیرت ہے اوروہ جو اپنے زندہ ہونے کا ثبوت اپنے مثبت کردار سے دے،زندگی کی رمق اُس انسان میں ہے جو سب کی بھلائی کا خیر خواہ ہو اور دوسروں کے اندر بھی زندگی کی لہر پیدا کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرے۔جو اپنی چادر اور چار دیواری کی حفاظت کا اہل ہو وہ بھی زندہ ہے اور جو اپنی سرزمین میں دوسروں کو مداخلت سے روکے اور وہی زندہ ہے جو اپنے گھر کے معاملات کا فیصلہ خود کرے۔مثال کے طور پر ایک غریب ناخواندہ انسان کسی مریض کی جان بچانے ہسپتال کی جانب پیدل چل رہا ہے کیونکہ اس کا عزم اس کی نیت اُس انسان کو اپنا خون دینا جو مریض کو ضرورت ہے۔اس کے مقابلے میں ایک پڑھا لکھا ریئس زادہ پیراڈو میں اُس پر پانی کے چھینٹے اُڑاتے ہوئے گزر جائے تو دنیا تو اس رئیس زادے کا احترام کرے گی اس کو برتر تصوور کرے کریگی،مگر حقیقت میں زندہ وہی ہے جو اپنا خون دے کر اوروں کی جان بچانے کی کوشش کر رہاہے۔کیا وہ لوگ جو وقت سے قبل آنے والے حالات کا ادراک کرتے ہوئے اپنے لوگوں کو آگاہ کرے اپنی قوم کو اکھٹا کرنے کی جدوجہد کریں۔ جو بربادی سے نہ صرف آگاہ کرے بلکہ آباد ہونے کا راستہ بھی دکھائے۔جب کہ جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں اس میں وہ لوگ جن کے پاس ناجائز دولت ہو، جو اپنے حقوق کے حصول کے لئے دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے، جو حقائق کو مسخ کر کے عوامکے سامنے پیش کریں، جو معمولی مراعات کے لئے قوم کو اندھرے میں رکھیں ، جو قوم کو اس طرح فروخت کریں کہ انہیں اس بات کا علم ہی نہ ہو۔ایسےء لوگوں کی آج کل پوچا ہورہی ہے۔حالانکہ پوجا کرنے والے بھی مخلص نہیں ہوتے ہیں مگر اپنے معمولی مفادات ی بجا آوری کی غرض سے ان لوگوں کے آگے پیچھے گھومتے ہیں پھرتے ہیں۔جس کے پاس ؂قومی غیرت نام کی چیز نہ ہو اور جو قوم کی بات کرے انہیں بے تکے القابات سے نوازا جاتاہے۔ یہ طبقہ انتائی بے حس اور معاشرے کے لئے ناسور ہے۔ ہماری مثال اُس مسلمان احمق مولوی کی طرح ہے جس کو بادشاہ نے اپنے دربار میں بھلایا اور ایک چرواہے کو بھی بھلایا ایک میز پر دو برتن رکھے ایک برتن سے گرم گرم کھانے کی خوشبو آرہی تھی جبکہ دوسرے برتن میں ایسا کچھ محسوس نہیں ہورہا تھا۔ اب مولوی صاحب سے سے پوچھا گیا کہ آپ کو کونسا طبق چاہئے مگر میرے کان میں آ کر بتاؤ مولوی صاحب نے بادشاہ سلامت کے کان میں جا کر کہا مجھے وہ طبق چاہئے جس سے طعام کی کی خوشبو آرہی ہے۔ پھر یہی سوال اُس چرواہا سے بھی کیا تو چرواہا نے بادشاہ کے کان میں کہا میں کھانا کھا کر آیا ہوں مجھے وہ طبق چاہئے جس سے کوئی خوشبو نہیں آرہی ہے۔ اس کے بعد بادشاہ نے دربار میں دونوں کو کھڑا کیا اور وزیر سے کہا کہ ان کی خواہش کے مطابق ان کے طبق ان کو حوالے کیا جائے۔ جب وزیر نے دونوں کو طبق دے دیا۔ جب مولوی نے اپنا طبق کھولا تو گرم گرم بہترین طعام تھا یہ دیکھ کر مولوی اتراتے ہوئے چراواہے کی جانب نتھے چڑھاتے ہوئے دیکھنے لگا۔ جب چرواہے نے اپنا برتن کھولا تو اس میں اتنی اشرفیاں تھیں کو چرواہے کی زندگی ہی بدل گئی۔تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جن کی سوچ کا ہدف مولوی جیسی ہو تو ان کا مستقبل کیسا ہوگا؟ جیسی سوچ ویسی ترقی، جیسا چناؤ ویسا لیڈر،اور جیسا لیڈر ہوگا ویسے ہی اجتماعی معاملات چلیں گے۔اب ذرا ہم اپنے نمائندوں کی سیاسی بیداری اور یہاں کی اسمبلی کی حیثیت کے حوالے سے بھی گفتگو کرنا چا ہیں گے۔گلگت بلتستان کی سر زمین پر سے گزرنے والی’’پاک چین اقتصادی راہدری‘‘کی مجوزہ تعمیر کے معاہدے پر دستخط کرنے کے دوران گلگت بلتستان کا کوئی بھی نمائندہ موجود نہیں تھا،جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہمارے اپنے علاقے کی مستقبل کا تعین کرنے کے لئے ہماری را ئے اور ہمارے نمائندوں کی موجودگی کو ضروری نہیں سمجھا گیا ۔اس عمل کے ذریعے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کی حیثیت واضح کی گئی؟ کیا ہمارے نمائندے صرف اُچھل کود کرنے اور بے عمل قراردادیں پاس کرنے کے لئے ہیں؟اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ گلگت بلتستان کا کوئی ولی وارث نہیں، جو جس طرح چاہئے ہماری سرزمین کو استعمال اور ہمارے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کھیل سکتا ہے؟ چاہئے ریلوے ٹریک ہو یا کسی بھی قسم کا کوئی بھی معاہدہ کیوں نہ ہو کیا ہم سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں، کیا ہم اس قابل ہی نہیں،کیا ہمارا اپنے علاقے پر بھی کوئی حق نہیں،سوال یہ ہے کہ ریلوے ٹریک سے دنیا کی سب سے بڑی آبادی کو دنیا بھر کے لئے راہداریاں کھلیں گے ان کی معشیت میں اضافہ ہوگا۔ ؛لیکن گلگت بلتستان کی سر زمین جو استعمال ہورہی ہے انہیں کیا معاوضہ ملے گا؟کسی کا دل چاہئے تو کوئی یہ کہے کہ فلاں جگہ پر تو گھاس بھی نہیں اُگتی ہے ہمارے جسم کا حصہ کاٹ کر کسی کو عنایت کیا جائے ۔سوال یہ ہے کہ اس خطے کی آزادی میں گلگت بلتستان کے لوگوں کے علاوہ کسی اور کا ناخن بھی نہیں کٹا ہے، یہ کوئی خیراتی علاقہ تو نہیں کہ ہمارے ذریعے کھربوں کی تجارت کی جائے اور ہمیں پھوٹی کوڑی بھی نہ ملے؟اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی صحرا میں کسی کو بہت بڑا خزانہ ملے اور وہ آدمی سارے خزانے پر قابض ہوجائے اور اس سے پوچھنے والا کوئی موجود نہ ہو۔آخر ہم شتر مرغ کی مانند کیوں اپنی آنکھیں میچ لیتے ہیں۔زمین کی غیرت بھی ایمان کا ایک حصہ ہے ہم اپنا سب کچھ لٹتے دیکھتے ہوئے بھی خاموش کیوں ہیں۔ حال ہی میں NLIمارکیٹ میں قسم حال کی جگہ پر بھی تعمیرات شروع ہوچکے ہیں ہمارے جنگ آزادی کی آخری نشانی بھی دیگر یادگاروں کی طرح مٹائی جارہی ہے۔ کیا ہمارا ایک بھی نمائندہ وہیں سے گزرا نہیں یا دیکھا نہیں یا انہیں علم نہیں یا اس بابت کچھ کہنے کی ہمت نہیں۔ ایک جانب ہم اتنے بزدل اور بے حس ہیں کہ ہماری مثال نہیں ملتی، اگر دوسرے پہلو سے دیکھا جائے تو ہم سے جنگجو بھی کوئی نہی جب بازار یا کہیں پر کسی شخص کو گولی لگتی ہے تو ہم تحقیق کرنے کی بجائے میدان میں نکلتے ہیں اور بازار کو میدان جنگ بنا لیتے ہیں، جب قومی اور علاقائی معاملہ درپیش ہو تو وہاں ہمارے لبوں پر کیوں مہریں لگتی ہیں۔ادھر سے شندور ہاتھ سے جارہا ہے ہمیں کچھ احساس ہی نہیں۔ اس کے علاوہ جب بھی انڈیا اور پاکستان کی کشتی ہوئی اس کشتی میں ہمارا ہی جغرافیہ سمٹتا گیا ہے۔آخر کس جرم کی سزا ہمیں مل رہی ہے۔میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ دنیا میں ایک بھی ملک ایسا دکھائیں جو قوم پرست نہ ہو جہاں کے باسی قومی سوچ نہیں رکھتے ہوں۔ اگرشیعہ بن کر سوچا جائے تو ایران سے بڑھ کر قوم پرست کوئی قوم نہیں اور ایران نے اتنی طویل جنگ کے بعد بھی اب سپر طاقت بنتا جارہا ہے۔ سنی بن کر سوچا جائے تو عرب سے بڑا قوم پرست کوئی نہیں جو غیر عربی کو اہمیت ہی نہیں دیتے ہیں۔ چین کا ہر فرد قوم پرست اور چین تو اب پوری دنیا پر چھا چکا ہے۔جبکہ برطانیہ ،وہ دنیا کا سب سے بڑا قوم پرست ہے۔ قوم پرست ہونا اپنی دھرتی اور اپنی قوم سے محبت کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ کسی اور سے نفرت کیا جائے۔کلام پاک میں ارشاد بار تعالیٰ ہے کہ ہم نے تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم پہچانے جاؤ گے۔ہم بھی تو آخر اپنی پہچان ہی کی بات کرتے ہیں یعنی قرآن کی بات کرتے ہیں۔آپ اسلامی کتب کا مطاکریں تو جا بجا آپؐ کو رسول عربی ﷺ لکھا گیا۔ سوال یہ ہے کہ آپؐ کو رسولؐ عجمی کیوں نہیں لکھا گیا وہ اس لئے کہ آپؐ عربی تھے عجمی نہیں تھے اپنی قوم اپنی پہچان آپؐ نے بھی کروائی ہے یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے جو کوئی بھی اس سے نہیں چھین سکتا ہے۔اگر پاکستان میں بھی پنجابی،پٹھان،بلوچی،سندھی کے بجائے ایک نیوکلس بن کر ایک قوم بن کر فقط پاکستانی اور پاکستانیت کی سوچ کو پروان چڑھاتے تو آج یہ دن دیکھنے نہیں پڑتے۔جبکہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو صرف اور صرف ایک قوم بن کر سوچنا ہوگا۔نام کوئی بھی ہو، گلگت بلتستان ہو، سارگن ہو، بالاورستان ہو، قراقرم ہو، دردستان ہو یا گلستان۔ سب سے پہلے اپنی پہچان اور اس کے بعد برابری کی بنیاد پر روابط اور دوستی زیب دیتی ہے۔مگر افسوس اس بات پر ہے کہ ہم مسلکی بیماری کا شکار ہورے ہیں حالانکہ یہ بیماری ہماری اپنی نہیں بلکہ باہر سے ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ہم اپنے اداروں کی درستگی کے بارے میں نہیں سوچتے ہیں،ہمارا ہر شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔جب کہ ہمارے بہت سے سیاستان عوام کو صوبے کا لولی پاپ دینے میں ہی اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔اگر صوبہ بنانا اتنا آسان ہوتا تو کب کا یہ علاقہ صوبہ بن چکا ہوتا۔ یہ ایک الگ گفتگو ہے پھر کبھی اس پر بات ہوگی۔مگر کم از کم ہمیں آواز اُٹھانی چاہئے اپنے وسائل کے حوالے سے۔کہ اب تک ہمیں ہمارے دریا کی رائلٹی، شاہراہ قراقرم کی رئیلٹی،جنگلات کی،ہوائی راستے کی، سست بارڈر و دیگر ودیگر وسائل کی رائلٹی نہیں ملی ہے۔ہم اس بابت بات کرنے کو شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں۔حیرت اس بات پر ہے کہ ہمارے ذمہ دار قسم کے لوگ ابھی بھی گلگت بلتستان کو صوبے کا نام دیتے ہیں۔ میں ان سے با ادب یہ پوچھنا چاہوں گا کہ گلگت بلتستان کی آبادی جتنی بھی ہے یعنی کہ28ہزار مربع میل پر بسنے والے تمام لوگوں کا ووٹ ایک پلٹرے میں ڈال دیا جائے اور نالہ لئی کے کسی جھگی والے والے کا ووٹ کو ایک پلٹرے میں ڈال دیاجائے تو حکمرانوں کی نظر میں کونسا پلٹرا بھاری ہوا یقینا نالہ لئی والے کا ۔چونکہ اس کا ووٹ ایوان سے جا ملتا ہے بس ہماری حیثیت اس سے زیادہ نہیں۔اب تک مجوعی طور پر ہم نے شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری نباتے آئیں ہیں اس مین بھی مخلصی نہیں محض اپنے مفادات کی خاطر ۔ مزکورہ حقائق پر غیر جانب دار نظر دوڑائی جائے تو کیا ہم زندہ قوم ہیں اگر زندہ قوم اس طرح کی ہوتی ہے تو مردہ کون ہے۔؟
Yousuf Ali Nashad
About the Author: Yousuf Ali Nashad Read More Articles by Yousuf Ali Nashad: 3 Articles with 2999 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.