انسانوں کے بارے خالقِ کائنات کا
رشاد ہے کہ وہ جلدباز مخلوق ہے ۔ اس کی جلدبازی کا اظہار اس طرح سے بھی
ہوتا ہے کہ وہ حالات و واقعات سے نتائج کو اخذ کرنے میں جلدی کرتا ہے اور
اپنی کوتاہ نظری کے سبب مایوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے ۔مصر کے اندر اخوان پر
ابتلاء و آزمائش کوئی نئی چیز نہیں لیکن اس میں شک نہیں کہ کامیابی کے بعد
ہاتھ آنے والی ناکامی بہت زیادہ کھلتی ہے اور کبھی کبھار انسان اس سے
بوکھلا بھی جاتا ہے۔ اہلِ ایمان مکہ مکرمہ میں یکے بعد دیگرے شدید سے شدید
تر آزمائشوں سے گزرتے رہے لیکن ہجرت کے بعد کامیابیوں کا باب کھلا اور
غزوۂ بدر کی فیصلہ کن کامیابی تک جاری رہا ۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس عظیم
کامیابی کےمحض ایک سال بعد اللہ رب العزت نے اہلِ ایمان کو میدان احد میں
ناکامی سے دوچار کردیا گویا یہ بات واضح فرمادی گئی کہ شکست و ناکامی کا
باب ہمیشہ کیلئے بند نہیں ہوا ہے بلکہ تا قیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔
سیرت نبوی ؐ کی روشنی میں حالات حاضرہ کا مشاہدہ حزن و یاس سے محفوظ رکھتا
ہے۔ بقول امجد اسلام امجد ؎
محمد مصطفی صل علیٰ کے نام کی خوشبو
دلِ وحشت زدہ کے ہاتھ پر یوں ہاتھ رکھتی ہے
تھکن کا کوہِ غم ہٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے
سفر کا راستہ کٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے
اس میں شک نہیں کہ احد میں ہاتھ آنے والی شکست سے اہل ایمان دل برداشتہ
ہوگئے تھے ۔ اسی اللہ تبارک و تعالیٰ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے
ہیں ’’دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘ اور
محض اس یقین دہانی پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے بعد والی آیت میں
مزید ڈھارس بندھائی جاتی ہے ’’ا ِس وقت اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے
ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے یہ تو زمانہ کے نشیب و
فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں تم پر یہ وقت ا س
لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں، اور ان
لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے) گواہ ہوں کیونکہ ظالم
لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں‘‘ مندرجہ بالا آیت کی مصداق سر زمین مصر پر ایک
سال کی پے درپے کامیابیوں کے بعد جب اسلام پسندوں پر ابتلا و آزمائش کادور
آیا تو ساری دنیا نے سچے اہل ایمان اور کچےّ اہل اسلام کا فرق دیکھ
لیا۔ظلمات اور نور کا فرق واضح ہو گیا۔
اس دنیا میں دین اسلام کو غالب کرنے کی سعادت ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتی
بلکہ غلبۂ دین سے قبل آزمائش سے گزار کر سمندری جھاگ کو الگ کردیا جاتاہے۔
غزوۂ احد کے حوالے جو اتفاق سے ماہِ شوال کی انہیں تاریخوں میں برپا ہوا
تھا جن میں اخوان کے سیکڑوں مجاہدین کو شب خون مار کر شہید کردیا گیا ارشادِ
ربانی ہے ’’اور وہ اس آزمائش کے ذریعہ سے مومنوں کو الگ چھانٹ کر کافروں کی
سرکوبی کر دینا چاہتا تھا‘‘ ۔ اس سال شوال کے اوئل میں جانبازاہل ایمان
شدید ترین بربریت کے باوجود میدانِ ربیعہ میں ڈٹے رہے ان کے پائے استقلال
میں قتل عام بھی کوئی لغزش پیدا نہ کرسکا ۔اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اس
سنت سے واقف تھے جس جا اظہار یوں ہوا کہ ’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ
یونہی جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم
میں کون وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اس کی خاطر صبر
کرنے والے ہیں‘‘ اہل ایمان نے یوم غضب اور رعمیس چوک پر ہیلی کاپٹر سے حملے
کے بعد بھی جمعہ ۲۳ اگست کو مصر بھر میں مظاہرے کرکے یہ دکھلا دیا کہ نہ تو
انہیں زبانی دھمکیوں سے ڈرایا جاسکتا اور نہ ہی بندوق کی گولیاں انہیں
خوفزدہ کرسکتی ہیں ۔ فوج کشی کے ذریعہ ان کے کیمپ کو تاراج تو کیا جاسکتا
ہے لیکن اس کے ان کے احتجاج کی روح کو پامال کرنا ممکن نہیں ہے ۔
امتِ مسلمہ کے اندر ایک ایسا طبقہ ہمیشہ سے موجود رہا ہے جو غلبۂ دین کی
باتیں تو بہت کرتاہے لیکن چونکہ کوئی عملی کوئی اقدام نہیں کرتا اس لئے
کوئی قربانی بھی دیتا ہے۔ ایسے عافیت پسند لوگ نہ صرف ابتلا و آزمائش سے
محفوظ و مامون رہےہ ہیں بلکہ کبھی کبھار انعام و اکرام سے بھی نوازے جاتے
ہیں۔ جب اہل عزیمت پر آزمائش آتی ہے تو رخصت کا خوگر یہ گروہ مصالحت کا
راگ الاپنے لگتاہے ۔ انہیں فوراً صلح حدیبیہ یاد آجاتی ہے حالانکہ یہ
بیچارے صلح اور جنگ کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ یہ نہیں جانتے کہ صلح
کن حالات میں اور کن شرائط پر ہوتی ہے؟ ان کو یہ بھی نہیں معلوم کہ مافہدہ
کرنے کے بعد اسےپامال کردینے والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جاتا ہے؟
غزوۂ احد کے فوراً بعد اہل ایمان نے مصالحت کی جھولی پسار کر اہل باطل کی
خدمت حاضری نہیں دی بلکہ حضوراکرم ؐ نے توفوراً اپنے منتشر دستے کو مجتمع
کرکے کفار قریش کا پیچھا کیا ۔ واپس ہونے والے دشمن کوجب اپنی غلطی کا
احساس ہوا تو اس نے فتح کے مزید فائدہ سمیٹنے کی غرض سے دوبارہ مدینہ منورہ
پر چڑھائی کرنے کا رادہ کیا۔اس موقع پر اہل ایمان کا یہی تعاقب تھا جو ان
کے قدموں کی زنجیر بن گیا اور وہ ایک سال بعد مقامِ بدر پر ملاقات کا وعدہ
کرکے مکہ لوٹ گئے ۔ اس کے بعد غزوۂ احزاب تک کے درمیان دوسال تک مسلمان
ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہے بلکہ غزوات اور سرایہ کا سلسلہ جاری رہا
۔ایک سال کی تکمیل کے بعدحسبِ وعدہ حضوراکرمؐ تو اپنی فوج کے ساتھ مقامِ
بدر پر پہنچے مگر کفارانِ مکہ کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ یہی وہ مزاحمت تھی جس
نے شکست کے اثرات کو زائل کیا اور اسلام کو پھر ایک بار روبہ عروج قوت بنا
کر کھڑا کردیا ۔
غزوۂ احد اور غزوۂ احزاب کے درمیان اسلام کے دشمن بہت جری ہوگئے تھے جیسا
کہ فی الحال مصری فوج اور اس کے حواریوں کا حال ہے ۔ مختلف قبائل کی جانب
سے بغاوت اور حملوں کے تیاری کی صدائیں گونجنے لگی تھیں۔مسلمانوں کے دغا
بازی کے واقعات بھی ہونے لگے تھے مثلاًعزل و قارہ کا اندوہناک حادثہ جس میں
داعیان اسلام و حفاظ کرام کو دھوکے سے شہید کردیا گیا تھا۔ لیکن بڑی پامردی
کے ساتھ ان حالات کامقابلہ کیا گیا ۔ یہود کی سازشوں کو بے نقاب کرکے انہیں
کیفرِ کردار تک پہنچایا گیا ۔ ان اقدامات کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام ایک
ایسی طاقت بن کر ابھرا جس کا مقابلہ کرنے کی ہمت فردا ًفرداً کسی بھی ایک
قبیلے میں نہیں تھی۔ غزوۂ احزاب میں ساری اسلام دشمن قوتوں کا اتحاد اس
بات کا اعتراف تھا کہ اب وہ اکیلے اکیلے اسلام کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں
رکھتے ۔
ایےر میں وہ لوگ جو عقائد کی سطح پر ایک دوسرے کے دشمن تھے مثلاً یہود اور
کفارِ قریش اپنے باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اسلام کے خلاف متحد
ہوگئے تھے ۔ یہ ایسا ہی معاملہ ہے جیسا کہ مصر میں وہ جماعتیں جو نظریاتی
اختلاف کے سبب ایک دوسرے کے خلاف بر سرِ پیکار رہی ہیں ۔ انسانی حقوق
کےتحفظ کی کاطر کام کرنے والے ایسے گروہ جو فوج کے اپنا اولین دشمن گردانتے
رہے ہیں اسلام کے خلاف آپس میں شیر و شکر ہوگئے ۔اس لئے کہ ہر دومواقع پر
دشمنانِ اسلام نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ لیکن نہ
تو ان کا مبینہ اتحاد ماضی میں اسلام کے چرغ کو اپنی پھونکوں سے گل کرنے
میں کامیاب ہو سکا تھا اور نہ مستقبل میں ہوسکے گا۔
غزوۂ احد ۳ ہجری کا واقعہ ہے اور صلح حدیبیہ کا مرحلہ اس کے تین سال بعد
غزوۂ احزاب کے گزرجانے پر آیا ۔ وہ موقع بھی اس لئے آیا کہ حضور اکرم ؐ
کفار قریش کی جانب سے مکہ میں داخلے پر لگائی گئی خودساختہ پابندی کی خلاف
ورزی کا فیصلہ کیا۔ نیز جب قاصدِ رسول حضرت عثمان ؓ کی شہادت کی خبر آئی
تواہل ایمان نے ان کے خون کا بدلہ لینے کی خاطر بیعتِ رضوان کی ۔ رب
ذوالجلال کا اس عظیم بیعت کےبارے میں ارشاد ہے ’’اے نبیؐ، جو لوگ تم سے
بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے ان کے ہاتھ پر اللہ کا
ہاتھ تھا اب جو اس عہد کو توڑے گا اُس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ہی
ذات پر ہو گا، اور جو اُس عہد کو وفا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے، اللہ
عنقریب اس کو بڑا اجر عطا فرمائے گا‘‘۔ اس پرُعزیمت اقدام کے اجر کی پہلی
قسط صلح حدیبیہ تھی اور دوسری قسط فتح مکہ۔ اس مایوس کن صورتحال میں جبکہ
اہل ایمان اپنا عمرہ ایک سال کیلئے ملتوی کرکے واپس ہورہے تھے کوئی نہیں
جانتا تھا کہ غلبۂ اسلام کی راہ ہموار ہورہی ہے لیکن رب کائنات وعدہ فرما
رہا تھا ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ
بھیجا ہے تاکہ اُس کو پوری جنس دین پر غالب کر دے اور اِس حقیقت پر اللہ کی
گواہی کافی ہے‘‘۔
صلح صفائی کے بابت اہل ِ ایمان کو غزوۂ بدر کے بعدسورۂ انفال میں ہدایت
دی جاچکی تھی مگر اس سے پہلے والی آیت میں فرمایا گیا ’’اور تم لوگ، جہاں
تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن
کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں
کو اور ان دُوسرے اعداء کو خوف زدہ کرو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا
ہے اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف
پلٹایا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا۔ اس سیاق وسباق میں حکم
ہوا ’’اور اے نبیؐ، اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے
لیے آمادہ ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسہ کرو، یقیناً وہی سننے اور جاننے والا
ہے‘‘۔اس آیت میں صلح و سلامتی کودشمن کی آمادگی سے مشروط کردیا گیا۔اس
لئے کہ اگر غالب فریق آمادۂ صلح نہ ہو ہتو فریقِ ثانی کا اس کیلئے راضی
ہو جانا بےمعنی ٰ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سورہ محمد میں اہل ایمان کو ہدایت
کی گئی’’پس تم بودے نہ بنو اور صلح کی درخواست نہ کرو تم ہی غالب رہنے والے
ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے اور تمہارے اعمال کو وہ ہرگز ضائع نہ کرے گا‘‘
ملت کے اندر ایسے بھولے بھالے لوگوں کی بھی کمی نہیں جن کا خیال ہے مصر کے
فوجی حکمرانوں نے صلح کی پیشکش کی تھی جسے اخوان نے ٹھکرا دیا ۔ مصر کے
حکمرانوں نے اپنی ایک حکمت عملی بنائی اس کا اعلان کرنے کے بعد دھمکی بلکہ
الٹی میٹم دینے لگے کہ فلاں وقت اسے تسلیم کرلو ورنہ خیر نہیں ۔ صلح صفائی
اس طرح سے نہیں ہوتی کہ اپنی طاقت کے نشے میں دھت ایک فریق بزور قوت اپنی
شرائط منوانے پر تلا ہوا ہواور فریقِ ثانی کی کوئی بات سننے سمجھنے کا
روادار ہی نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں جن لوگوں نے فوجی
حکمرانوں کی حمایت کی ان کی حالت یہ تھی ایک دن اتفاق اور دوسرے دن اختلاف
ہوجاتا تھا ۔ اس کے باوجود فوجی حکومت کوکسی اعتراض کی مطلق پرواہ نہیں تھی
۔ محمد البرداعی نے اپنے استعفیٰ میں اعتراف کیا کہ میں انہیں صبر وضبط کی
تلقین کرتا رہا لیکن وہ جلدبازی میں( مزاحمت کو) کچل دینے پر تلے ہوئے تھے۔
البرداعی پر مقدمے کے قائم ہوجانے سے ان کی حالت نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ
صنم کی سی ہو گئی ہے ۔ بین الاقوامی ثالثوں نے بھی یہ بات تسلیم کی کہ ۶
اگست کوصلح کی شرائط ظے ہو گئی تھیں لیکن فوجی اقتدار نےاڑیل رویہ اختیار
کرتے ہوئے مفاہمت کی کوششوں کی ناکامی کا اعلان کردیا اور ظلم وجور پر اتر
آئے۔
قرآن عظیم میں جہاں صلح صفائی کا حکم ہے وہیں اس کے ساتھ چند شرائط بھی
لگائی گئی ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے ’’اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس
میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے
گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم
کی طرف پلٹ آئے پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو
اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘ لیکن افسوس کہ
مسلم ممالک کی اکثریت نےاول تو فریقین کے درمیان صلح کرانے کوئی سنجیدہ
کوشش نہیں کی اور اس کے بعد زیادتی کرنے والے لڑنے کے بجائے ان کےحامی و
مدد گار بن کر اس ظلمِ عظیم میں برابر کے شریکِ کار بن گئے ۔
مصر کے اندر برپا ہونے والے حالیہ واقعات کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک بین
الاقوامی سازش کے تحت احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا ۔ اس کے بعد بزور قوت ایک
آئینی صدر کو معزول کیا گیا ۔دستور معطل اور پارلیمان و شوریٰ تحلیل ہو
گئی ۔مخالفین کے ذرائع ابلاغ پر پابندی لگا دی گئی۔ عوام کے بنیادی انسانی
حقوق سلب کردئیے گئے۔ ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ۔گرفتاریوں
کالامتناہی سلسلہ جاری کرکے مزاحمت کرنے والے پرامن نہتے احتجاجیوں پر
گولیاں برسائی گئیں۔ بین الاقوامی مصالحت کی کوششوں کو مسترد کرنے کے بعد
اخوانیوں تو کجا محمد البرداعی پر قوم سے غداری کا مقدمہ جڑ دیا گیا اس لئے
کہ انہوں نے اپنے ضمیر کی آواز پرناحق خونریزی کے خلاف صدائے احتجاج بلند
کی۔ اس دوران بدنام زمانہ حسنی مبارک کی رہائی نے موجودہ حکمرانوں کو پوری
طرح بے نقاب کردیا ۔ جو لوگ یہ کہہ کر فوج کی پناہ میں گئے تھے کہ وہ ۲۵
جنوری کے انقلاب کا تحفظ کررہے ہیں ان سب کے ہوش اڑگئے اور انہیں اپنی
خودکشی کا احساس ہوگیا ۔
سرعت کے ساتھ رونما ہونے والےان واقعات کو دیکھ کر ساری دنیا کےمخالفینِ
اسلام م جو اس انقلاب کو اسلام کی بہار کے بجائے عرب بہار کا نام دے رہے
تھے پکار اٹھے کہ اب عرب بہار خزاں رسیدہ ہوگئی ہے ۔ اس لئے کہ وہ مصر کے
موجودہ حکمرانوں کے اندر قرآنِ مجید کی ان آیات کی تفسیر دیکھ رہے تھے جن
میں فرمایا گیا’’انسانوں میں کوئی تو ایسا ہے، جس کی باتیں دنیا کی زندگی
میں تمہیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں، اور اپنی نیک نیتی پر وہ بار بار خد ا
کو گواہ ٹھیرا تا ہے، مگر حقیقت میں وہ بد ترین دشمن حق ہوتا ہے ۔ جب اُسے
اقتدار حاصل ہو جاتا ہے، تو زمین میں اُس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے
کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے حالاں کہ
اللہ (جسے وہ گواہ بنا رہا تھا) فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔اور جب اس سے
کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر، تو اپنے وقار کا خیال اُس کو گناہ پر جما دیتا
ہے ایسے شخص کے لیے تو بس جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے‘‘
بہار اور خزاں کے درمیان کا فرق عالمِ انسانیت کے سامنے اس لئے بھی واضح ہو
گیا کہ گزشتہ ایک سالوں کے دوران وہ اسی سرزمینِ مصر پر تصویر کا دوسرا رخ
ملاحظہ کر چکے تھے جس کی ترجمانی قرآن عظیم متصل آیت میں اس طرح کرتا ہے
کہ ’’دوسری طرف انسانوں ہی میں کوئی ایسا بھی ہے، جو رضائے الٰہی کی طلب
میں اپنی جان کھپا دیتا ہے اور ایسے بندوں پر اللہ بہت مہربان ہے‘‘ حقیقت
تو یہ ہے کہ جس بہار کے خزاں رسیدہ ہونے کا ماتم کیا جارہا ہے وہ عرب بہار
نہیں بلکہ اسلام کی بہارہے ۔ لوگ اس کا برملا اعتراف کرنے سے گریز ضرور
کرتے تھے لیکن انہیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جب تک اسلام پسند اقتدار پر
فائز رہے اس وقت ہر کوئی اس بادِ بہاری کے نغمے گاتا رہا اور جیسے ہی ان کو
اقتدار سے ہٹایا گیا چمن کے خزاں رسیدہ ہونے کا سلسلہ چل نکلا۔
کیایہ اس بات کا بین ثبوت نہیں ہے کہ عالم اسلام کی بہار دینِ اسلام سے
وابستہ ہے۔ جب تک اسلام پسندوں کے ہاتھوں میں قوم کی باگ ڈور ہو گی بہار کا
موسم پھولے پھلے گا اور جب ان کو پابندو سلاسل کردیا جائیگا خزاں کا بگولہ
چمن کو خاکستر کردے گا۔ لیکن اگر گہرائی میں جاکر دیکھا جائے یہ عقدہ بھی
کھلتا ہے کہ مسئلہ صرف عالم اسلام تک محدود نہیں بلکہ عالمِ انسا نیت کا
بھی ہے۔ اقوامِ عالم اس وقت تک حقیقی بہار سے بہرہ ور نہیں ہو سکتیں جب تک
کہ اسلام کے دامنِ رحمت کی پناہ میں نہ آجائے ورنہ ان کے پاس کاغذ کے چند
پھولوں سے بہار کی خوش فہمی پر اکتفا کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوگا ۔ یہ
ایسے کاغذ کے پھول ہیں جن میں مادی ترقی کارنگ تو کسی قدر موجود ہے لیکن وہ
اعلیٰ انسانی اقدار اور روحانی سکون کی دولت سے یکسر عاری ہیں۔ جلد یا بدیر
ساری دنیا کو یہ تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ فلاح انسانیت کا راز بہارِ اسلام
ہی سے وابستہ ہے۔ علامہ اقبال تلقین فرماتے ہیں ’’ملت کے ساتھ رابطۂ استوار
رکھ
پیوستہ رہ شجر سے ، امید بہار رکھ! ‘‘ |