از : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
صدر شعبہ اردو گراج گورنمنٹ کالج نظام آباد اے پی انڈیا
حضرت لقمان علیہ السلام کا نام اسلامی تاریخ میں علم و دانش و حکمت کی
باتیں بتانے والے حکیم کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔حضرت لقمان علیہ السلام نے
اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کو جو نصیحتیں کی تھیں وہ فی زمانہ مسلمانوں اور
عام انسانوں کے لئے کافی توجہ طلب اور اہمیت کی حامل ہیں۔ قرآن شریف کے
پارہ 21کے سورہ لقمان کی آیات12تا19میں حضرت لقمان علیہ السلام کو حکمت عطا
کئے جانے اور بیٹے کے نام ان کی نصیحتیں دی گئی ہیں۔ وہب من منبہ کی روایت
کے مطابق حضرت لقمان علیہ السلام حضرت ایوب علیہ السلام کے بھانجے
تھے۔تفسیر بیضاوی کے بموجب ان کی عمر دراز ہوئی تھی ۔اور حضرت داﺅد علیہ
السلام کے زمانے میں تھے۔ تفسیر در منثور میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے
کہ حضرت لقمان علیہ السلام ایک حبشی غلام تھے۔ نجاری کا کام کرتے تھے۔ اور
حضرت جابر بن عبداللہ ؓکے بموجب پست قد اور پست ناک کے حبشی تھے۔ مجاہد
رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ و ہ حبشی غلام موٹے ہونٹ والے پھٹے ہوئے
قدموں والے تھے۔حضرت سید بن صحیب ؓنے ایک مرتبہ ایک سیاہ رنگ کے حبشی کو
تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ تم اپنے کالے ہونے پر غم نہ کرو کیونکہ کالے
لوگوں میں تین بزرک ایسے ہیں جو لوگوں میں سب سے بہتر ہیں۔ان میں حضرت بلال
حبشیؓ ‘ حضرت عمر بن خطاب ؓ کے آزاد کردہ غلام فحج اور حضرت لقمان علیہ
السلام ۔ شامل ہیں۔جمہور کے نزدیک حضرت لقمان علیہ السلام ولی اورحکیم تھے
نبی نہیں۔ ان کے بارے میں حضرت قتادہ ؓ کی ایک عجیب روایت مشہور ہے کہ حق
تعالیٰ نے حضرت لقمان علیہ السلام کو اختیار دیا تھا کہ وہ چاہیں تو نبوت
لے لیں یا حکمت۔ انہوں نے حکمت کو اختیار کیا۔اور بعض روایات میں ہے کہ ان
کو نبوت کا اختیار دیا گیا تھا انہوں نے عرض کیا کہ اگر اس کے قبول کرنے کا
حکم ہے تو سر آنکھو ں پر ورنہ مجھے معاف کردیا جائے۔ اور حضرت قتادہ ؓ سے
ہی مروی ہے کہ کسی نے حضرت لقمان علیہ السلام سے پوچھا کہ آپ نے حکمت کو
نبوت پر کیوں ترجیح دی جبکہ آ پ کو دنوں کا اختیار دیا گیا تھا تو انہوں نے
فرمایا کہ نبوت بڑی ذمہ داری کا منصب ہے۔ اگر وہ مجھے میرے اختیار کے بجائے
راست حق تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا تو حق تعالیٰ خود اس کی کفالت فرماتے کہ
میں اس کے منصب کو بخوبی نبھا سکوں۔اور اگر میں اس کو اپنے اختیار سے طلب
کرتا تو ذمہ داری مجھ پر ہوتی۔حق تعالیٰ کی جانب سے حکمت اور دانش مندی کی
نعمت عطا ہونے کی تفصیل کا ذکر کرتے ہوئے انہو ںنے ایک شخص سے کہا کہ اس کا
سبب میرے دو کام ہیں۔ ایک ہمیشہ سچ بولنا دوسرے فضول باتوں سے اجتناب کرنا۔
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت لقمان علیہ السلام نے کہا کہ چند کام ایسے
ہیں جنہوں نے مجھے اس درجے پر پہونچا دیا اگر تم اختیا ر کرلو تو تم تمہیں
بھی یہی درجہ اور مقام حاصل ہوجائے۔وہ کام یہ ہیں۔ اپنی نگا ہ کو پست
رکھنا‘زبان کو بند رکھنا‘حلال روزی پر قناعت کرنا‘اپنی شرم گاہ کی حفاظت
کرنا‘بات میں سچائی پر قائم رہنا:عہد کو پورا کرنا‘مہمان کا اکرام
کرنا‘پڑوسی کی حفاظت کرنا اور فضول کام اور کلام کو چھوڑنا(ابن کثیر)
حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو پہلی نصیحت کی وہ یہ ہے کہ بیٹا
خدا کے ساتھ کسی کو شریک مت کرنا بے شک شرک کرنا بڑا بھاری ظلم ہے۔ عقیدے
کی درستگی پر ہی دیگر اعمال کی درستگی کا انحصار ہوتا ہے۔ لہٰذا حضرت لقمان
علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو تلقین کی کہ خدا تعالیٰ کو سارے عالم کا خالق
و مالک بلا شرکت غیرے یقین کرے۔ اس کے ساتھ کسی غیر اللہ کو شریک عبادت نہ
کرے کہ یہ ظلم عظیم ہے۔ اپنی دوسری نصیحت میں حضرت لقمان علیہ السلام نے
اپنے بیٹے کو حق تعالیٰ کے علم اور اس کی عظیم صفات کاملہ کا اعتقاد دلایا
کہ آسمان اور زمین اور اس کے درمیان جو کچھ ہے اس کے ایک ایک ذرے پر اللہ
کا علم محیط ہے۔اور سب پر اس کی قدرت کامل ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز اور دور
سے دور چیز اللہ تعالیٰ کے علم و نظر سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اور وہ جس کو جب
اورجہاں چاہے حاضر کر سکتے ہیں۔ عقائد کی درستگی کے بعد بیٹے کو صحیح عمل
کی تلقین کرتے ہوئے حضرت لقمان علیہ السلام کہتے ہیں کہ بیٹا نماز کو قائم
کرو۔اقامت صلوٰة کا یہی مطلب ہے کہ صرف نماز پڑھنا مقصود نہیں بلکہ اس کے
تمام ارکان اور آداب کو پوری طرح بجا لانا اوقات کی پابند ی کرنا اور اس پر
مداومت کرنا شامل ہے۔انہوں نے پھر کہا کہ انہوں نے پھر کہا کہ بیٹا لوگوں
کو اچھا بات کا حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا اور کہا کہ اس کام میں
تمہیں جو تکلیف پیش آئے اس پر صبر کرنا اور ثابت قدم رہنا۔ امر بالمعروف
اور نہی عن المنکر سے اپنی اصلاح اور عام مخلوق کی اصلاح ممکن ہے۔ لیکن اس
کام میں ثابت قدم رہنے کے لئے خاصی محنت م مشقت اور مخالفتوں کا سامنا کرنا
پڑتا ہے ۔ معاشرتی پہلو سے متعلق نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ بیٹا لوگوں سے
اپنا رُخ مت پھیرو اور زمین پر اترا کر مت چلو بیشک اللہ تعالیٰ تکبر اور
فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتے۔ اپنی رفتار میں اعتدال اخیار کرونہ بہت
دوڑ کر چلو کہ گر جاﺅ اور نہ قدم گن گن کر چلو کہ یہ وضع متکبرین کی ہے۔
بلکہ متوسط رفتار‘تواضع و سادگی کی چال اختیار کرو۔پھر فرمایا کہ اپنی آواز
کو پست کرو بے شک بری آوازوں میں سب سے بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے۔
قرآن شریف کے علاوہ دیگر روایات میں بھر کثرت سے حضرت لقمان علیہ السلام کی
اپنے بیٹے کے نام نصیحیتں اور حکمت کی باتیں نقل کی گئی ہیں۔ ان کے منجملہ
چند حکمت کی باتیں اس طرح ہیں۔بیٹا علما کی مجالس میں کثر ت سے بیٹھا کرو
اور حکما کی بات اہتمام سے سنا کرو اللہ تعالیٰ حکمت کے نور سے مردہ دل کو
ایسازندہ فرماتے ہیں جیسا مردہ زمین بارش سے زندہ ہوجاتی ہے۔ فرمایا کہ
بیٹا اللہ تعالیٰ شانہ سے ایسی امید رکھو کہ اس کے عذاب سے بے خوف نہ ہوجاﺅ
اور اسی طرح اس کے عذاب سے خوف کرو کہ اس کی رحمت سے نا امید نہ ہوجاﺅ۔بیٹے
نے کہا کہ دل تو ایک ہی ہے اس میں خوف اورامید دونوں کیسے جمع ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مومن ایسا ہی ہوتا ہے کہ اس کے لئے گویا دو دل ہوتے ہیں
ایک میں پوری امید دوسرے میں پورا خوف۔حضرت لقمان علیہ السلام نے کہا کہ
بیٹا رب اغفرلی پڑھا کرو ۔اللہ کے الطاف میں بعض اوقات ایسی ہوتے ہیں کہ ان
میں آدمی جو کچھ مانگتا ہے وہ مل جاتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ نیک عمل یقین کے
بغیر نہیں ہو سکتا۔ جس کا اللہ پر اور اس کے انعامات پر یقین ضعیف ہوگا اس
کا عمل بھی سست ہوگا۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے کہا کہ بیٹا جب شیطان تجھے
کسی شک میں مبتلا کرے تو اس کو یقین کے ساتھ مغلوب کر اور جب وہ تجھے عمل
میں سستی کرنے کی طرف لے جائے قبراور قیامت کی یاد سے اس پر غلبہ حاصل
کر۔اور جب دنیا رغبت یا خوف کے راستے سے وہ تیرے پاس آئے تو اس سے کہدے کہ
دنیا ہر حال میں چھوٹنے والی چیزہے۔ انہوں نے کہا کہ بیٹا جو شخص جھوٹ
بولتا ہے اس کہ منہ کی رونق جاتی رہتی ہے۔ اور جس شخص کی عادتیں خراب ہوتی
ہیں اس پر غم سوار ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بیٹا جنازہ میں اہتمام سے شرکت
کیا کرو اور تقاریب میں شرکت سے گریز کیا کرو اس لئے کہ جنازہ آخرت کی یاد
دلاتا ہے اور دنیا کی تقاریب لوگوں کو دنیا کی طرف راغب کرتی ہیں۔ حضرت
لقمان علیہ السلام نے کہا کہ بیٹا جب پیٹ بھرا ہوا ہو تو اس وقت نہ کھاﺅ
پیٹ بھرے کھانے سے کتے کوکھانا ڈال دینا بہتر ہے۔انہوں نے کہا کہ بیٹا توبہ
میں دیر نہ کرو کہ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں۔وہ دفعتاً آجاتی ہے۔ انہو ں
نے کہا کہ بیٹا جہلا سے دوستی نہ کیا کرو کہ ان کی جہالت کی باتیں تمہیں
اچھی معلوم ہونے لگیں اور یہ کہ حکیم سے دشمنی نہ کرنا کہ وہ تم سے دور
ہوجائے اور پھر اس کی حکمتوں سے تم محروم ہوجاﺅ۔ بیٹا اپنے کاموں میں علما
سے مشورہ کیا کرو ۔نیک لوگوں کے پاس کثر ت سے بیٹھا کرو تاکہ نیکی حاصل کر
سکو۔اور اگر کسی وقت ان پر اللہ کی رحمت خاصہ نازل ہو تواس میں سے تم کو
بھی کچھ نہ کچھ ضرور ملے گا۔ برے لوگوں کی صحبت سے بچو کہا ان کے پا س
بیٹھنے سے کسی خیر کی تو امید نہیں البتہ ان پر کسی وقت عذاب نازل ہو جائے
تو اس کا اثر تم پر بھی پڑے گا۔حضرت لقمان علیہ السلام نے کہا کہ بیٹا قرض
سے اپنے آپ وک محفوظ رکھو کہ یہ دن کی ذلت اور رات کا غم ہے۔ انہو ںنے کہا
کہ بیٹا تم جس دن سے دنیا میں آئے ہو اس دن سے ہر دن آخر ت کے قریب ہو رہے
ہو۔ جس گھر میں تم ہو اس گھر سے ہر دن دور ہوتے جارہے ہو اور جس گھر میں
تمہیں ہمیشہ کے لئے جانا ہے اس سے تم قریب ہوتے جارہے ہو۔ فقیہ ابو اللیث
نے کہا کہ جب حضرت لقمان علیہ السلام کا انتقال ہونے لگا تو انہوں نے اپنے
بیٹے کو بلا کر کہا کہ میں نے تمہیں زندگی میں کئی نصیحتیں کی ہیں اب میرا
وقت قریب ہے تمہیں چھ نصیحتیں کرتا ہوں تاکہ تم ان پر عمل کرکے کامیاب
ہوجاﺅ۔۱)دنیا میں اپنے آ پ کو فقط اتنا ہی مشغول رکھنا جتنی زندگی باقی ہے۔
اور وہ آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔۲) حق تعالیٰ شانہ کی طرف تمہیں
جتنی ضرورت ہے اتنی ہی اس کی عباد ت کرنا اور ظاہر ہے کہ آدمی ہر بات اور
ہرضرورت کی پوری کرنے میں اللہ کی مدد کا محتاج ہے۔ ۳) آخرت کے لئے اسی
مقدار کے موافق تیاری کرنا جتنی وہاں قیام کا ارادہ ہو اور ظاہر ہے کہ مرنے
کے بعد وہا ں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے۔ ۴) جب تک تمہیں جہنم سے خلاصی کا یقین
نہ ہوجائے اس وقت تک اس کوشش میں لگے جیسے کسی سنگین مقدمے میں پھنسا ہوا
شخص اپنی برات کی کوشش کرتا ہے۔ ۵) گناہوں کی اتنی جرائت کرنا جتنا تمہیں
دوزخ میں جلنے کا حوصلہ ہو۔اور جب کوئی گناہ کرنا چاہو تو ایسی جگہ تلاش کر
لینا جہاں حق تعالیٰ اور اس کے فرشتے نہ دیکھ سکیں۔اس طرح حضرت لقمان علیہ
السلام نے اپنے بیٹے کو بے شمار نصیحتیں کی ہیں۔ ان نصیحتوں کی آج بھی ہر
مسلمان کو ضرورت ہے۔ یہ ایسی بیش قیمت اور انمول باتیں ہیں جن پر عمل کرتے
ہوئے ہم اپنی دنیا اور آخرت کو سنوار سکتے ہیں۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں
ان باتوں کو سمجھنے ان پر عمل کرنے اور انہیں دوسروں تک پہونچانے کی توفیق
عطا فرمائے (آمین) |