میں تھکا ہارا بس میں داخل ہوا تو یہ دیکھ کہ دل کو
اطمینان ہوا کہ دو سیٹیں خالی ہیں میں لپک کر ایک سیٹ پر جا بیٹھا۔
بیجنگ کی اس مصروف شاھراہ پر بس میں بیٹھنے کےلیے جگہ مل جانا کسی غنیمت سے
کم نہ تھا اور وہ بھی اس وقت جب میں کام کی تلاش میں چار گھنٹے سے مارا
مارا پھر رھا تھا۔ خیر اللہ کا شکر ادا کیا اور سستانے لگا۔
چند منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک معمر جوڑا بس میں داخل ہوا خاتون ذرا تندرست
معلوم ہوتی تھیں لپک کر میرے سامنے موجود خالی سیٹ پر براجمان ہو گئی لیکن
بس میں اور کوئی سیٹ خالی نہ پا کر اس کا شوہر حسرت بھری نگاہوں سے ادھر ُادھر
دیکھنے لگا۔ سب اپنی اپنی مستی میں مگن رہے اور پوری بس میں سے کسی کو بھی
اس بات کا خیال نہ آیا کہ ایک بوڑھا شخص کھڑا ہے-
یوں تو میں کافی تھکا ھوا تھا اور میری منزل بھی ابھی خاصی دور تھی لیکن
پھر بھی نہ جانے کیوں میں نے اس بوڑھے کےلیے جگہ خالی کر دی خود اٹھ کھڑا
ہوا اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اس وقت بوڑھے کی اۤنکھوں میں خوشی کی چمک
دکھائی دی اور اس نے بس میں لگا ہینڈل جس کو ایک ہاتھ سے تھا مے وہ سہارا
لیے کھڑا تھا چھوڑ کر مجھے سلیوٹ کیا اس عمل کے دوران وہ گرتے گرتے بچا میں
نے اسے سہارہ دیکر سیٹ پر بٹھا دیا-
بیٹھنے کے بعد بوڑھے نے مجھ سے پوچھا تم مقامی نہیں لگتے کس ملک سے سے تعلق
رکھتے ہو میں نے کہا کہ پاکستان سے-
اس نے کہا کہ پاکستان میں تو شاید مسلمان رہتے ہیں نا میں نے کہا جی
پاکستان ایک مسلمان ملک ہے
اس نے کہا کہ اسی لیے تم نے میرے لیے سیٹ چھوڑ دی کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ
تمہیں تمہارا دین اور تمہارے ملک کی روایات یہی سکھاتی ہیں ۔ یہ کہہ کر وہ
اپنی بیوی کو میرے بارے میں بتانے لگ گیا کہ اسکا تعلق ایک مسلم ملک
پاکستان سے ہے اور وہ بوڑھی عورت عقیدت اور محبت کی نظروں سے مجھے دیکھنے
لگ گئی-
اس کی بوڑھے کی بات سن کر اور اسکی بیوی کی وہ محبت بھری نظر دیکھ کر میرا
سینہ تن سا گیا اور مجھے اپنے دین کی تعلیمات اور اپنے بزرگوں کی تربیت پر
رشک اآنے لگا-
اس دن مجھے کھڑے ہوکر سفر کرنے سے جو دلی سکون ملا وہ شاید لفظوں میں بیان
نہ ہو سکے اور مجھے پہلی بار اپنے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس ہونے لگا-
یہ واقعہ تحریر میں لانے کا مقصد یہ ھے کہ ہمارا چھوٹا سے چھوٹا کام خواہ
وہ اچھا ھو یا بڑا وہ ھمارے ملک اور ھمارے پیارے دین اسلام کی تعلیمات کو
ظاہر کرتا ہے اسلیے ہم سب کو کوئی بھی کام کرتے ہوئے یہ ذہن میں رکھنا
چاہیے کہ ہمارا یہ کام یا تو ہمارے دین اور ملک کی نیک نامی کا سبب بن رہا
ہے یا پھر بدنامی کا- |