کابل کے بادشاہ دوست محمد خان کا زمانہ تھا۔ کسی پڑوسی
ملک نے کابل پر حملہ کردیا۔ بادشاہ کو ملک کے دفاع کی بڑی فکر ہوئی اور اسی
فکر میں اس نے اپنے شہزادے کو فوج کاایک دستہ دے کر مقابلے کے لئے بھیج دیا۔
اس پریشانی کے عالم میں گھر پہنچا تو بیگم نے چہرے پر پریشانی کے آثار
نمایاں پر دیکھ کر پوچھا کہ خیریت تو ہے؟ بادشاہ نے جواب دیا کہ ملک پر
دشمن نے حملہ کردیا ہے اور میں نے اس حملے کو پسپا کرنے کے لئے شہزادے کو
روانہ کردیا ہے۔ بس یہ پریشانی ہے۔
بیگم نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ کسی پریشانی کی ضرورت نہیں ہے ، اﷲ
بہترکریگا۔ بیگم کی تسلی پر کچھ اطمینان تو ہوا اور وہ دن قدرے سکون سے گزر
گیا۔ لیکن دوسرے دن جب بادشاہ گھر آیا تو پہلے سے زیادہ پریشانی اس کے چہرے
سے ظاہر ہورہی تھی۔ بیگم سے کہا کہ آج تو بہت بہت بری خبر ہے ۔ اطلاعات یہ
آرہی ہیں کہ شہزادے کو شکست ہوگئی ہے اور دشمن کی فوجیں ملک میں داخل
ہوگئیں ہیں۔
بیگم نے پھر تسلی دی کہ یہ خبر جو آپ تک پہنچی ہے، غلط ہے ۔ بادشاہ نے کہا
کہ سرکاری اداروں کی ہی رپورٹ ہے اور تم کہتی ہے کہ خبر غلط ہے ، تمہارے
پاس کونسی انٹیلی جنس ہے؟ اس نے کہا کہ آپ کے سرکاری اداروں نے آپ کو غلط
رپورٹ دی ہے ، اس لئے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ اب بادشاہ پریشان ہونے کے
ساتھ حیران بھی ہوا کہ میرے خفیہ ادارے مجھے شکست کی اطلاعات دے رہے ہیں
اور بیگم صاحبہ ، جو گھر کی چار دیواری سے باہر نہیں نکلتیں، کہتی ہیں کہ
رپورٹ غلط ہے۔ بادشاہ اسی کشمکش میں باہر چلا گیا کہ یہ وہی عورتوں والی
بات کرے گی ، اس کی بات پر کیا توجہ دی جائے۔ میں اس کے سامنے سرکاری رپورٹ
پیش کررہا ہوں اور یہ بیٹھی اپنے راگ الاپ رہی ہے، اب اس سے کون بحث کرے؟
اگلے دن بادشاہ سلامت جب گھر آئے تو چہرہ خوشی سے چمک رہاتھا اور بیگم کو
مبارکباد دیتے ہوئے کہنے لگے کہ واقعی میرے اداروں کی بات غلط تھی،آپ کی
بات بالکل درست ثابت ہوئی ، شہزادہ دشمن کو شکست دیکر کامیاب و کامران واپس
آرہا ہے۔ بیگم نے اﷲ کا شکر ادا کیا کہ اس نے میری بات کو سچ کردیا۔
بادشاہ نے بیگم کو خوشخبری تو سنادی لیکن اُس کی رپورٹ پر حیرت بھی ہورہی
تھی، کہنے لگا کہ بیگم! آپ کو اطلاعات کہاں سے آرہی تھیں ، جب کہ ساری
انٹیلی جنس میرے پاس تھی ، ادارے میرے پاس ہیں، خفیہ رپورٹیں میرے پاس آتی
ہیں لیکن ان سب کی اطلاعات غلط ثابت ہوئیں اور آپ کی اطلاع بالکل صحیح ثابت
ہوئی ؟ کیا آپ کو الہام ہوا تھا؟ اس نے کہا کہ مجھ گناہگار کا الہام سے کیا
تعلق۔ الہام تو اﷲ کے نیک اور مقرب بندوں کو ہوتا ہے جبکہ میں تو ایک
معمولی سی عورت ہوں۔
بادشاہ کہنے لگا کہ آخر آپ کے پاس وہ کونسا ذریعہ ہے کہ آپ کی رپورٹ ٹھیک
ثابت ہوئی اور جو کچھ آپ نے کہا تھا وہ حرف بہ حرف صحیح نکلا، اس نے کہا کہ
یہ ایک راز ہے جسے میں نے اب تک کسی کے سامنے نہیں کھولا اور آئندہ بھی
کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اب تو بادشاہ کو اور زیادہ تجسس ہو ا،اور کہنے لگا کہ
ایسا کونسا راز ہے جسے شوہر سے بھی چھپایا جارہا ہے۔ ؟بیگم نے کہا کہ بس آپ
رہنے دیں اور نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔
مثل مشہور ہے کہ جس چیز سے روکا جائے اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ چنانچہ
بادشاہ تو بیگم کے پیچھے ہی پڑگیا کہ اب تو بتانا ہی پڑے گا۔ بادشاہ کے بہت
زیادہ مجبور کرنے پر اُس نے راز کھولااور کہنے لگی کہ کہ وہ راز یہ ہے کہ
یہ شہزادہ جب میرے پیٹ میں تھا تو میں نے اﷲ سے عہد کیا تھا کہ جب تک یہ
میرے پیٹ میں ہے میں حرام کا نوالہ تو درکنار، کوئی مشتبہ چیز بھی اپنے پیٹ
میں جانے نہ دوں گی۔ اس لئے کہ حرام لقمے سے جو خون بنتا ہے وہ ناپاک ہوتا
ہے۔ اور پھراس ناپاک خون کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، جس سے انسان کے جسم میں
ناپاک خون گردش کرتا ہو اس کے اخلاق بھی ناپاک بنتے ہیں۔ ایک تو میں نے اس
عہد کو نبھایا اور دوسری راز کی بات یہ ہے کہ جب یہ پیدا ہو ا تو میں اسے
دودھ پلانے کے لئے اس کسی عورت کے حوالے نہیں کیا ، بلکہ اپنا دودھ پلایا
اور اس میں بھی یہ احتیاط برتی کہ جب بھی اسے دودھ کی طلب ہوتی میں پہلے
وضو کرتی ، دو رکعت نفل پڑھتی پھر اسے دودھ پلاتی اور اﷲ سے اس کے لئے
خصوصی دعائیں بھی کرتی تھی۔
جب اس قدر اہتمام کے ساتھ میں اس کو پالا ہے اور کوئی مشتبہ چیز اس کے پیٹ
میں نہیں جانے دی تو پاک خون اور پاک غذا کے ہوتے ہوئے اس کے اخلاق برے
کیسے بن سکتے تھے۔ دشمن کو پیٹھ دکھا کر راہ ِفرار اختیار کرنا چونکہ بد
اخلاقی ہے اس لئے مجھے یقین تھا کہ میرا بیٹا شہید تو ہو سکتا ہے لیکن دشمن
سے مقابلے میں بزدلی نہیں دکھا سکتا۔
آپ نے دیکھا کہ ایک نیک عورت نے اپنے بچے کی پرورش کس انداز میں کی کہ حرام
لقمہ تو درکنار ایک مشتبہ لقمہ بھی اس کے پیٹ میں نہ جانے دیا ۔ اگر امت کی
تمام مائیں اسی طرح اپنے بچوں کی تربیت کریں ، خود بھی حرام سے بچیں اور
اپنی اولاد کو بھی بچائیں تو یقینا ہمارا معاشرہ جنت نظیر بن سکتا ہے ۔ ایک
عورت معاشرے کی بہتری کے لئے مثالی کردار ادا کرسکتی ہے۔ یہ ماؤں کی تربیت
ہی تھی کہ امت میں ایسے ایسے اولیاء، صلحاء اور سپہ سالار پیدا ہوئے کہ جن
کی کوششوں سے لاکھوں کی تعداد میں غیر مسلموں کے قلوب اسلام و ایمان کی
روشنی سے منور ہو گئے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ آج معاشرے میں ایسی مائیں نہیں
ملتیں؟
حقیقت یہ ہے کہ حرام اور مشتبہ غذاؤں نے ہمارے اخلاق کو تباہ کردیا ہے جس
کی وجہ سے ہمارا معاشرہ ایسی مثالی مائیں پیدا کرنے سے عاری ہے، بلکہ اگر
ہم اپنے گرد و پیش پر نظر دوڑائیں تو عورتوں کی بود و باش دیکھ کر یہ یقین
نہیں آتا کہ یہ کسی مسلمان گھرانے کہ بہو بیٹیاں ہیں۔ ایسی ہی خواتین کے
بارے میں مرحوم اکبر الہٰ بادی نے کہا ہے۔
بے پردہ نظر آئیں، جو کل بیبیاں
اکبرؔ ، زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو آپ کے وہ پردے کا کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل کی مردوں پہ پردہ پڑگیا
(ماخوذ:خطبات ِحکیم الاسلام ۔خزینۂ معرفت ) |