انسان بھی کس قدر عاجز اور درماندہ ہے ، ترقی کی سینکڑوں
چوٹیاں سر کرنے، جدید معلومات اور نت نئی تحقیقات کے ذریعے کائنات ارضی و
سماوی کی بیسیوں گر ہیں کھولنے، ماضی میں ناقابل تصور حقائق تک رسائی حاصل
کرنے کے باوجود اپنے مَن کی دنیاسے غافل، اور اپنی زندگی کے مقاصد سے بے
خبر ہے۔ کہنے، سننے، دیکھنے اور سمجھنے کی حد تک وہ شاہراہ حیات کو سائنس
اور جدید ٹیکنالوجی کی محیر العقول اور حیرت انگیز ایجادات کی بدولت روشن
تر کرتے ہوئے انتہائی برق رفتاری سے زیادہ سے زیادہ سفر حیات کی منزلیں طے
کر رہا ہے مگر اس حقیقت سے بالکل نابلد کہ میرے اپنے وجود کا کیا مقصد ہے
……؟ میری پیدائش کی کیا غرض، کیا میں اپنی مرضی سے آیا ہوں، کیا مجھے بیکار
وجود بخشا گیا ہے، اگر کائنات کی ہر شے میں کچھ راز پوشیدہ ہیں تو کیا میرے
وجود سے بھی کوئی مخفی راز وابستہ ہیں، پھر کیا اپنے وجود کے ان سربستہ
رازوں کی گرہ کشائی ضروری ہے یا نہیں……؟
پہاڑوں کی تنگ و تاریک غاروں میں کھوج لگاتے ہوئے اپنی زندگی ہارنے والے
انسان بتلا تو سہی بھلا تو نے اپنے دل و دماغ کی گہرائیوں میں چھپے راز کو
جاننے کی بھی کوئی کوشش کی،سمندر کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہو کر شوق تحقیق
اور ذوق جستجو کی تسکین خاطر کا سامان کرنے والے کمزور انسان کیا تو نے
اپنے قلب کی تہہ میں دبی چنگاری کی حرارت محسوس کرنے کی کوئی کوشش کی،
ہواؤں اور خلاؤں میں اڑنے کے شوقین کبھی تو روحانی معراج اور سیر آفاقی و
انفسی کی لذت سرمدی سے سرشار ہوا……؟
یہاں ہر چیز مائل بہ فناء ہے۔ ہر چیز حالت سفر میں ہے، ہر چیز کی اپنی ایک
منزل ہے اور وہ ایک مضبوط اور منظم و مرتب اصول کے تحت غیر محسوس طریقے سے
اپنی منزل کی جانب محو سفر ہے۔ ہر چیز کسی ایسی غیبی طاقت سے جڑی ہوئی ہے
جو اسے کشاں کشاں ایک خاص ترتیب سے جانب منزل لئے جا رہی ہے، حوادث کائنات
اس پر ایک خاص رنگ سے اثر انداز ضرور ہوتے ہیں مگر اس کے سفر میں رکاوٹ
نہیں بنتے اور وہ چیز تمام حالات و حوادث کا سامنا کرتے ہوئے اپنا قدم
مسلسل منزل کی طرف بڑھاتی رہتی ہے۔ یہ ایک تکوینی معاملہ ہے۔ کائنات کی ہر
چیز اس اصول کے تحت ہے کوئی شے اس سے مستثنیٰ نہیں انسان اور غیر انسان
یہاں سب برابر ہیں۔ جس طرح انسان ہر گزرتے دن اپنی منزل سے قریب تر ہوتا
چلا جا رہا ہے اسی طرح کائنات کی دوسری چیزیں لمحہ بہ لمحہ اپنے انجام کی
طرف بڑھ رہی ہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسی منزل ہے جس
کی طرف ہر چیز محو سفر ہے اور وہ کونسا انجام ہے جو انسان کی منزل ہے مگر
انسان اس سے غافل ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ اے انسان تو اپنے رب سے ملاقات کیلئے
کوشش کر رہا ہے، سو تو اس سے ملاقات کر لے گا‘‘ اس آیت نے بتلایا کہ انسان
کی ساری تگ و دو معدوم نہیں ہوتی چلی جا رہی بلکہ وہ تگ ودو اور چلت پھرت
اپنی منزل کیلئے تیار کیا جانے والا سامان ہے جو اپنے لئے جمع کرتا ہوا لئے
جا رہا ہے پھر منزل پر پہنچ کر اسے بتایا جائیگا کہ یہ سامان کامیابی کا ہے
یا ناکامی کا……؟ جی یہ انسان یہاں تیاری کر رہا ہے اپنے رب سے ملاقات کی ا
ور تیاری کا یہ سفر انتہائی تیزی اور غیر محسوس طریقے سے جاری ہے اور
انسان’’سامان منزل‘‘ کی تیاری میں اس قدر منہمک اور اس کام میں اس قدر مگن
ہے کہ اسے خبر ہی نہیں کہ کونسا سامان تیار کرنا ہے اور کونسا سامان نہ صرف
یہ کہ میرے لئے نفع مند نہیں بلکہ قوی خدشہ ہے کہ وہ سامان نقصان دہ ثابت
ہو۔ وہ اس بات سے بے خبر ہے کہ میرے مالک نے مجھے کس نوع کا توشہ ساتھ لینے
کی ہدایت کی ہے اور کس قسم کے زادراہ سے منع فرمایا ہے، وہ اس بات سے بھی
بے خبر ہے کہ میں نے اپنا رہنما کس کو بنایا ہے اور بنانا کس کو تھا۔ دنیا
کی چکاچوند، مادیات کی پرفریب رنگینیوں نے دل و دماغ کو ایسا متاثر کیا ہے
کہ انسان نفسانی خواہشات کی آگ اور غفلت و بے فکری کے گرداب میں قلبی سکون،
روحانی اطمینان اور پر وقار و پرکیف، ٹھنڈی میٹھی، جاں فزا نورانی طبیعت سے
نہ صرف یہ کہ دور ہوچلا ہے بلکہ اس پر بہار اور لطیف ماحول کی نعمت عظمیٰ
کے چھن جانے کے احساس سے بھی محروم ہوتا جا رہا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے اطمینان قلبی اور روحانی کیف و سکون کی دنیا اپنے ’’ذکر‘‘ میں
آباد کی ہے، جہاں پہنچ کر انسان ایک ایسے معطر و منور اور روحانی مسرتوں سے
آباد ماحول سے آشنا ہوتا ہے جس کے سامنے دنیا کی ہر چیز پست معلوم ہوتی ہے۔
اسی لئے تو ایک ’’اﷲ والے‘‘ نے ’’ذکر‘‘ سے آباد اور بغیر ذکر کے ویران دنیا
کا موازنہ کرتے ہوئے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے جس سے اکثر لوگ ناواقف
ہوتے ہیں۔
زانگہ کہ خبر یافتم ازملک نیم شب
من ملک نیمروز را بدانگے نمے خرم
ترجمہ : جب سے مجھے’’ ملک نیم شب‘‘ یعنی رات کی تنہائیوں میں اپنے رب کی
یاد کی دولت نصیب ہوئی ہے اور اس کی قیمت کا پتہ چلا ہے اب ملک نیمروز (
کسی زمانے کا ایران کا مشہور و ترقی یافتہ شہر) کی سلطنت ایک ٹکے کے بدلے
لینے پر بھی تیار نہیں ہوں۔
اﷲ اکبر! صحابہ کرا م نے اسی دولت اور طاقت و قوت کو مضبوطی سے تھام لیا
تھا وہ جہاں بھی جاتے یہی نصب العین دنیا کو بتلاتے’’ لنخرج العباد من
عبادۃ العباد الی رب العباد‘‘ ہم تو انسانوں کو انسانوں کی عبادت، ذلت و
اطاعت سے نکال کر’’رب العباد‘‘ کے دربار میں جھکانا چاہتے ہیں۔ یہ نصب
العین لے کر صحابہ کرام نے سب سے پہلے اپنے تن، من کو’’رب‘‘ کے دربار میں
ایسا پیش کر دیا گویا اب یہ ہمارا نہیں اب اس پر ہمارا حکم نہیں چلے گا، اب
یہ تن، من ہماری خواہشات کے زیر اثر حرکت نہیں کرے گا، اے ہمارے رب! اب ہم
تیرے، ہمارا بدن تیرا، ہماری روح تیری، ہماری دوستی تیرے لئے، ہماری دشمنی
تیری خاطر، جو تیرا وہ ہمارا بھی، جو تیرا نہیں وہ ہمارا بھی نہیں، پھر یہ
محض دعویٰ ہی نہیں تھا بلکہ اسلام کے پہلے عظیم الشان ’’معرکۂ بدر‘‘ ہی میں
چشم فلک نے دیکھ لیا، رب کے ماننے والوں کی صف میں بیٹا تلوار لئے مقابلے
میں رب کے باغی گروہ میں موجود باپ سے نبرد آزما ہونے کو بے چین ہے،
’’اسلام‘‘ کی حقیقت جن کے دل و دماغ میں اچھی طرح بیٹھ چکی تھی انہیں میں
کہیں بھتیجا، چچا کے مقابل، بھانجا، ماموں کے مقابل، غلام ، آقا کے مقابل ،
حتیٰ کہ بھائی ، بھای کے مقابل سینہ سپر ہے۔ کیوں……؟ اس لئے کہ فیصلہ ہو
چکا ہے گردن’’رب‘‘ کے سامنے جھکانی ہے، طاقت رب کی تسلیم ہے، شان و شوکت
اور غلبہ’’رب‘‘ کے نظام کا مطلوب ہے، اسلام یہ جبر اور زبردستی تو نہیں
کرتا کہ مجھے تسلیم کرو، میرا اقرار کرو،نہیں بلکہ مذہب جو چاہواختیار کرو،
لیکن اس بات پر جبر اور زبردستی ضرور کرتا ہے کہ بالادستی، غلبہ اور آرڈر
میرا تسلیم کرو، اور یہ کوئی ظلم نہیں کیونکہ انسان کا بنایا ہوا قانون اور
نظام عدل و انصاف کتنا ہی مقبول اور ترقی یافتہ کیوں نہ ہو، عالمگیر اور
دائمی نہیں ہو سکتا، ہر قوم و طبقے اور ہر زمان و ہر مکان میں قابل عمل
نہیں ہو سکتا، اس میں ضرور نقص و عیب اور جانبداری و حق تلفی کا پہلو باقی
رہتا ہے مگر جو قانون اور نظام عدل و انصاف، خالق ارض و سما، رب العباد اور
عالمِ غیب و شہادت کا عطا کردہ ہو وہی ان دو بنیادی اوصاف سے متصف ہو سکتا
ہے وہ عالمگیر بھی ہوگا تاکہ ہر قوم و ہر طبقے کو عدل و انصاف فراہم ہو سکے
اور دائمی بھی ہو گاتاکہ ہرزمانے اور لمحہبہ لمحہ بدلتے تمام حالات میں
منصفانہ طور پر قابل عمل بن سکے۔ اس لئے ’’اسلام‘‘ اپنے ماننے والوں سے یہ
مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بطور مذہب کے تو لوگوں کو آزادی دیں مگر غلبہ اور
آرڈر کے لحاظ سے کسی اور مذہب یا کسی اور قانون و ضابطے کو دنیا میں قائم
نہ ہونے دیں۔ صحابہ کرام نے اس نکتے کو سمجھا پھر خود بھی آستانۂ رب پر جھک
گئے اور دنیا بھر کو اس پرلانے کیلئے نکل کھڑے ہوئے۔
کافر تو اس عظیم دولت اور نعمت سے محروم ہیں ہی مگر مسلمان قوم کا بڑا طبقہ
بھی اس نعمت کی قدر دانی سے محروم ہے، جس کی وجہ سے دونوں ایک ہی رخ پر
اپنی زندگی کے گھوڑے کو سرپٹ دوڑائے چلے جا رہے ہیں۔ مگر کوئی نہیں جو ان
کی باگ کو موڑ کر صحیح رخ پر لائے، او ر حیرت تو یہ ہے کہ مسلمان قوم کے
رہنما اسلامی سوچ ، اسلامی طرز حیات اور اسلامی نظام معیشت و نظام عدل کو
قبول کرنے پر تیار نہیں۔ وہ کفر ہی کا غلبہ دیکھنے کے خواہش مند اور اسی پر
خوش نظر آتے ہیں۔ کتنے ہی مفکرین، دانشور اور کالم نگار ہیں جو ہر اہم
تبدیلی اور انقلابی عمل جو اہل اسلام ہی کی قربانیوں کا نتیجہ ہو اس کے
پیچھے اصل محرک اور کار فرما قوت کو کفرو طاغوت کے علمبرداروں کی تدبیرات
کا نتیجہ بتلاتے ہیں۔ گویا پوری مسلم قوم فکر و عمل کے دھارے اور صلاحیت سے
یکسر عاری ہے۔ ایسا یا تو وہ نادانی میں کرتے ہیں یا یا دانستہ کرتے ہیں
تاکہ مسلمان قوم کے اس طبقے جس کے وجود اور قوت کی نشاندہی سرکار دو عالم ﷺ
نے متعدد احادیث میں فرمائی ہے اس کی صلاحیت اور قوت کا اندازہ دوسرے
مسلمان نہ لگا سکیں تاکہ انہیں حمایتی نہ مل سکیں اور یوں مسلمان قوم
بدستور کفر و طاغوت کے علمبرداروں کی فکریصلاحیت و تدبیرات ہی سے مرعوب اور
ان کی خوشہ چین رہے ۔مگر کوئی کتنی ہی سازشیں کیوں نہ کرے ایک نہ ایک دن یہ
دنیا اپنے من کی دنیا سے آگاہی اور اسے روشنی بخشنے کیلئے بے چین ہو گی اور
اسے یہ دولت سوائے دامن اسلام کے اور کہیں نہیں ملے گی۔ مسلمانو! کب تک ان
پرفریب دنیاوی بھول بھلیوں میں بھٹکتے پھرو گے، یہ ایمان،عمل صالح اور
جہادفی سبیل اﷲ کی لافانی دولت تمہارے پاس ہے اس کی قدر کرو،
چھوڑدوہرآستانے کو، در در کی ٹھوکریں مت کھاؤ، بس اک ’’آستان یار‘‘ رب
العباد کی بارگاہ میں سرجھکاؤ، اس کے حکم کے آگے گردن خم کر دو پھر دیکھو
منزل ملتی ہے یا نہیں……؟ قلبی کیف اور روحانی سکون و لذت اور کامیابی و
کامرانی کا احساس دلنواز نصیب ہوتا ہے یا نہیں……؟
بقول حضرت زکی کیفی:
رفعتوں کی جستجو میں ٹھوکریں تو کھا چکے
آستانِ یار پر اب سر جھکا کر دیکھئے
تنگ آ جائے گی خود اپنے چلن سے دنیا
تجھ سے سیکھے گا زمانہ تِرے انداز کبھی |