کلکس ،1242،ڈوبتا سرمایہ ،ڈوبتے لوگ۔۔۔

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت سائب بن مہجان ؒ اہل شام میں سے ہیں اور انہوں نے صحابہ کرام ؓ کا زمانہ بھی پایا ہے ۔وہ کہتے ہیں جب حضرت عمر ؓ ملک شام تشریف لائے تو انہوں نے (کھڑے ہو کر بیان فرمایا اور پہلے )اﷲ کی حمد و ثناء بیان کی اور خوب و عظ و نصیحت فرمائی اور امر بالمعروف ونہی غن المنکر فرمایا پھر فرمایا حضورؐ نے ہم لوگوں میں کھڑے ہو کر بیان فرمایا جیسے میں آپ لوگوں میں کھڑے ہو کر بیان کر رہا ہوں ۔آپؐ نے ہمیں اس بیان میں اﷲ سے ڈرنے کا ،صلہ رحمی کرنے کا اور آپس میں صلح صفائی سے رہنے کا حکم دیا اور فرمایا تم لوگ جماعت سے چمٹے رہو اور امیر کی سننے اور ماننے کو لازم پکڑے رکھو کیونکہ اﷲ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اکیلے آدمی کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور دو آدمیوں سے شیطان بہت دور ہوتا ہے کسی مرد کو کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں ہر گز نہیں ہونا چاہیے ورنہ ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوگا جسے اپنی برائی سے رنج ہوا اور اپنی نیکی سے خوشی ہو ۔یہ اس کے مسلمان اور مومن ہونے کی نشانی ہے اور منافق کی نشانی یہ ہے کہ اسے اپنی برائی سے کوئی رنج نہیں ہوتا اور نیکی سے کوئی خوشی نہیں ہوتی ۔اگر وہ کوئی خیر کا عمل کر لے تو اسے اس عمل پر اﷲ سے کسی ثواب کی امید نہیں ہوتی اور اگر کوئی برا کام کرلے تو اسے اس عمل پر اﷲ کی طر ف سے کسی سزا کا ڈر نہیں ہوتا لہذا دنیا کی تلاش میں میانہ روی اختیار کرو کیونکہ اﷲ نے تم سب کی روزی کا ذمہ لے رکھا ہے اور ہر انسان نے جو عمل کرنا ہے اس کا وہ عمل ضرور پورا ہو کر رہے گا اپنے نیک اعمال کے لیے اﷲ سے مدد مانگا کرو کیونکہ اﷲ تعالیٰ جس عمل کو چاہیں مٹادیں اورجس عمل کو چاہیں باقی رکھیں اور اسی کے پاس لوح محفوظ ہے ۔(حضورؐ کا بیان ختم ہو گیا اور پھر حضرت عمر ؓ نے بھی بیان ختم کر دیا اور ختم کرنے کے لیے فرمایا )
ترجمہ :
’’ اور اﷲ تعالیٰ ہمارے نبی حضرت محمد ؐ اور ان کی آل پر درود بھیجے اور ان پر سلام ہو اور اﷲ کی رحمت‘‘
قارئین آج کا کالم ایک ایسے موضوع کی جانب اشارے کر رہا ہے جس کا تعلق انسانی نفسیات کے ساتھ ہے انسان کی یہ نفسیات ہے کہ وہ کم وقت میں بہت کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے اور بہت کچھ حاصل کرنے کے بعد یہ بھوک ختم نہیں ہوتی بلکہ مزید حاصل کرنے کی بھوک اور پیاس بڑھتی چلی جاتی ہے ۔’’ ھل من مزیداً‘‘کا یہ سفر جاری رہتا ہے زندگی کا سورج غروب ہونے کے قریب پہنچ جاتا ہے انسان کی ٹانگیں قبر کے اندر جا پہنچتی ہیں لیکن لالچ کی ایسی پٹی آنکھوں پر بندھی ہوتی ہے کہ جو حقیقتوں کی جانب نگاہ دوڑانے سے انسان کو قاصر او رمفلوج کر دیتی ہے ہماری اس تمہید کا اشارہ آج کے کالم کے موضوع کے پہلے حصے کی جانب ہے ۔پاکستان اور آزادکشمیر میں ڈبل شاہ سے لے کر حکیم صاحب تک اور تاج کمپنی سے لیکر کوآپریٹو سوسائٹیز تک فراڈ ،بے ایمانی اور دھوکہ دہی کی ایسی ایسی داستانیں رقم کی گئیں کہ انسانی عقل دنگ ہو کر رہ جاتی ہے کہ بڑے بڑے محترم اور معتبر ناموں کے سہارے لے کر ان کے پردے میں کس کس طریقے سے سادہ لوح انسانوں کو لالچ کے جال میں پھنسا کر لوٹ لیا جاتا ہے اور ریاست اور ریاستی قوتیں عضو معطل بن کر یا تو یہ تمام تماشے دیکھتی رہتی ہیں اور یا پھر ان ریاستی قوتوں کے نمائندے بھی بے ایمانی کے اس کھیل میں حصہ دار بن کر عوام کو لوٹنے کے اس تمام شیطانی عمل میں شریک ہو جاتے ہیں ۔

قارئین راقم نے ایف ایم 93میرپور ریڈیو آزاد کشمیر کے مقبول ترین پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری ‘‘ میں ایک خصوصی موضوع پر خصوصی مذاکرہ رکھا ۔اس کا عنوان ’’ کلکس کی دولت ۔۔۔کس نے کھویا اور ذمہ دار کون ہے ‘‘تھا ۔اس خصوصی مذاکرے میں ہمارے استاد محترم سینئر صحافی راجہ حبیب اﷲ خان حسب معمول ایکسپرٹ کی حیثیت سے موجود تھے جبکہ دیگر مہمانان گرامی میں آزاد کشمیر نیوز پیپر سوسائٹی کے صدر عامر محبوب ،ڈپٹی کمشنر میرپور چوہدری گفتار حسین، ان اداروں کے خلاف درخواست دہندہ سماجی اور سیاسی شخصیت سردار شفیق،ماہر قانون اور ان اداروں کے خلاف کیس لڑنے والے وکیل راجہ امتیاز ایڈووکیٹ اور ہمارے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں سننے والے لوگ تھے ۔اس مذاکرے کا مقصد اس تمام صورتحال کے متعلق گفتگو کرنا تھی جو گزشتہ چند ماہ کے دوران میرپور ڈویژن میں پیدا ہوئی ۔میرپور ڈویژن میں کچھ ایسی کمپنیز نے کام کرنا شروع کیا جو مختلف آئی ڈیز پر کلک کرنے کے لیے سرمایہ اکٹھا کرتی اور اس سرمائے سے تین گنا رقم تین ماہ میں واپس کر دیتی ۔یہ سرمایہ اقساط میں بھی دیا جاتا اور یک مشت بھی ۔12000روپے کی ایک آئی ڈی فروخت کی جاتی اور ماہانہ یا ہفتہ وار رقوم کی ادائیگی کی جاتی ۔جب ان کمپنیز نے واقعی لوگوں کو ادائیگی کرنا شروع کی تو اعتماد بڑھنے کی وجہ سے انوسیٹمنٹ کا حجم انتہائی تیزی کے ساتھ بڑھنے لگا ۔میرپور میں یہ صورتحال پیداہو گئی کہ لوگوں نے بینکوں سے اپنا سرمایہ نکلوایا ،اپنی گاڑیاں بیچیں ،گھر او رپلازے بیچے،زیورات فروخت کیے اور دیکھتے ہی دیکھتے اربوں روپے کی رقم اس کاروبار میں انویسٹ کر دی گئی اس موقع پر میرپور ہی کے کچھ صاحب دل اور عوام کا درد رکھنے والے لوگوں نے معاملے کی چھان بین شروع کی تو پتا چلا کہ سرمائے کے اس کاروبار میں جو لوگ ماسٹر مائینڈ ہیں ان کا تعلق آزادکشمیر سے نہیں بلکہ پنجاب سے ہے ۔اس حوالے سے ان لوگوں نے مزید تفتیش کی تو یہ ہوشربا انکشاف سامنے آیا کہ رقم کی لین دین کے اس کاروبار کی کسی بھی قسم کی ریاستی گارنٹی موجود نہیں ہے ۔آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ جب بھی سرمائے کے لین دین کے لیے کوئی بینک یا مالیاتی ادارہ کام کرنا چاہتا ہے تو سٹیٹ بنک آف پاکستان مخصوص ذرِ ضمانت لے کر اس ادارے کو اس کام کی اجازت دیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھتا ہے کہ اگر خدا نخواستہ مالیاتی لین دین کرنے والا یہ ادارہ کل اگر اپنے آپ کو دیوالیہ ظاہر کر دیتا ہے تو حکومت پاکستان یعنی ریاست اس کی ذمہ دار ہوتی ہے کہ عوام کو ان کی ایک ایک پائی واپس کرے ۔یہ معاملہ میرپور کی ضلعی انتظامیہ کے نوٹس میں لایا گیا کہ اس طرح کے کچھ ادارے میرپور میں چند ماہ سے کام کر رہے ہیں اور انہوں نے کسی بھی قسم کی ٹھوس مالیاتی گارنٹی بھی فراہم نہیں کی اور نہ ہی ان کے اس کاروبار کو عقلی بنیادوں پر درست یا جائز قرار دیا جا سکتا ہے ۔ڈپٹی کمشنر چوہدری گفتار حسین نے مختلف اداروں کے ساتھ مل کر معاملے کی چھان بین کی اور درخواست کو درست سمجھتے ہوئے ان اداروں کو فوراً بند کرنے کا حکم جاری کر دیا اور اخبارات او ر میڈیا کے ذریعے عوام کو یہ پیغام بھی دے دیا کہ انتظامیہ کے اس قسم کے کسی بھی مالیاتی لین دین کی ذمہ دار نہیں ہے اور لوگ لالچ میں آکر اپنی جمع پونجی خطرے میں نہ ڈالیں ۔آئی ڈیز کا کاروبار کرنے والے ان لوگوں نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر دی ،ہائی کورٹ کے جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر چوہدری منیر نے اس رٹ کا فیصلہ کچھ اس طرح صادر کیا کہ یہ کاروبار جائز نہیں اور ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سرمایہ کاری کرنے والے لوگوں کے سرمائے کی واپسی کو یقینی بنائیں ۔اس فیصلے کے خلاف یہ ادارے سپریم کورٹ میں گئے تو سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ بحال رکھتے ہوئے کیس واپس میرپور ہائی کورٹ بھیج دیا ۔

قارئین ہم نے اپنے مذاکرے میں جب گفتگو کا آغاز کیا تو پتہ چلا کہ سینہ گزٹ سے پھیلنے والی خبروں نے یہ خوفناک انکشاف کیا کہ میرپور ڈویژن میں اس وقت بیس ارب روپے سے زائد کی رقم آئی ڈیز کے اس کاروبار میں کلکس کے نام پر انویسٹ کی جا چکی ہے اور پانچ ارب روپے سے زائد سرمایہ میرپور کے چھوٹے سے شہر کے لوگ انویسٹ کر چکے ہیں ۔پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے آزاد کشمیر نیوز پیپر ز سوسائٹی کے صدر عامر محبوب نے کہا کہ اب اگر اتنی بھاری رقم انویسٹ کی جا چکی ہے تو حکومت آزادکشمیر اور میرپو ر کی ضلعی انتظامیہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان اداروں کو کم از کم تیس دن کام کرنے کا موقع فراہم کرے تا کہ سرمایہ کاری کرنے والے لوگوں کا اصل سرمایہ انہیں واپس مل سکے اور اسی طرح اس معاملے کی چھان بین انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کسی ایکسپرٹ اور مالیاتی آئی ٹی کے کسی ماہر سے کر وائی جائے تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی عوام کے سامنے آسکے۔ڈپٹی کمشنر چوہدری گفتار حسین نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے اپنے موقف کا اعادہ کیا کہ کلکس کا یہ کاروبار ہر لحاظ سے غیر قانونی ہے اور لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ کسی بھی قسم کے لالچ کا شکار ہونے سے پہلے اچھی طرح چھان بین کر لیا کریں ۔چوہدری گفتار حسین کا یہ بھی کہنا تھا کہ باوجود اس کے کہ ہم نے بروقت عوام کو میڈیا کے ذریعے آگاہ کر دیا تھا کہ مالیاتی لین دین کا یہ سلسلہ غیر قانونی ہے لوگوں نے سرمایہ کاری کرنا جاری رکھی جس کی وجہ سے معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ۔ہم نے سردار شفیق سے اس حوالے سے دریافت کیا کہ آپ نے یہ کیس پہلے ضلعی انتظامیہ کے علم میں لایا اور بعد ازاں آپ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک چلے گئے تو آپ کے پاس اس کاروبار کے غیر قانونی ہونے کے متعلق کیا دلائل ہیں ۔اس پر سردا ر شفیق کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس تمام معاملے کی انتہائی سائنسی بنیادوں پر تحقیق کی ہے کہ جس کے مطابق یہ ویب سائٹس غیر قانونی اور کسی بھی قسم کی مالیاتی حیثیت سے عاری ہیں سردار شفیق کا کہناتھا کہ گوگل، فیس بک ،ٹوئٹر سے لے سب سے زیادہ ٹریفک والی ویب سائٹس بھی اشتہارات کو کلک کرنے کی مد میں انتہائی معمولی رقم ادا کرتی ہیں اور جس مالیاتی حجم کا میرپور میں کام کرنے والے یہ ادارے دعوی کر رہے ہیں وہ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ اور فراڈ ہے ۔ان اداروں کے خلاف کیس پیش کرنے والے وکیل راجہ امتیاز ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ہم نے عدالت کے سامنے وہ تمام حقائق رکھے ہیں کہ جو ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ کمپنیز سٹیٹ بنک کی گارنٹی کے بغیر کام کر رہی ہیں ،ان میں سے ایک کمپنی جس میں لوگوں نے کئی ارب روپے انویسٹ کیے ہیں وہ پنجاب میں رجسٹرڈ ہے اور اس کے حصص کی کل قیمت کا تخمینہ ایک لاکھ روپے ہے ۔80فی صد حصص کے مالک والد ہیں اور 20فی صد کے مالک ان کے بر خورد ار ہیں یعنی آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ آج کل یا آج سے دو چار پانچ سال بعد یہ کمپنی اپنے آپ کو دیوالیہ ظاہر کر دیتی ہے تو قانون کی روشنی میں ایک لاکھ روپے سے لوگوں کا نقصان پورا کیا جائیگا ۔

قارئین ہمارے اس پروگرام میں بہت بڑی تعداد میں عوام نے ایس ایم ایس ،فیس بک اور براہ راست ٹیلی فون کالز کے ذریعے شرکت کی اور ان کا یہ کہنا تھا کہ کلکس کے اس کاروبار کی وجہ سے ان کی مالی حالات راتوں رات بدل گئے ہیں اور حکومت اور ضلعی انتظامیہ کو شرم آنی چاہیے کہ وہ لوگوں کو روزگار مہیا کرنے والے اس کام پر پابندی لگا رہے ہیں ۔ان جذباتی دوستوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت انہیں روزگار تو مہیا کرتی نہیں اور اگر کوئی پرائیویٹ ادارہ یہ نیک فریضہ سر انجام دے رہا ہے تو حکومت انہیں بھی کام نہیں کرنے دے رہی ۔راقم اور استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان نے انتہائی نیاز مندی اور انکساری سے ان دوستوں سے گزارش کی کہ ہمارے اس مذاکرے کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ عوامی مفاد کو کسی قسم کی ذک پہنچے بلکہ ہماری تو یہ معصومانہ خواہش ہے کہ اس کاروبار کو قانونی انداز میں سمجھا جائے اور اگر یہ کاروبار درست ہے تو حکومت پاکستان کی گارنٹی کے ساتھ ایسی سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں اور لاکھوں کمپنیاں پاکستان میں کھولی جائیں جو تین ماہ میں سرمایہ کو تین گنا کر دیتی ہیں اس طریقے سے پاکستان کے بھی تمام اندرونی و بیرونی قرضے اتر جائیں گے اور عوام بھی سونے اور چاندی میں کھیلنا شروع کر دے گی ۔کلکس کا یہ کاروبار ابھی تک جاری ہے اور دیکھتے ہیں کہ اس کا ڈراپ سین کیا ہوتا ہے۔

قارئین جہاں پر ہم نے خدانخواستہ عوام کے اربوں روپے کے ڈوبتے ہوئے سرمائے کی بات کی ہے وہیں پر میرپور پر گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے گزرنے والی اور ایک قیامت کا تذکرہ بھی کرتے چلیں ۔منگلا ڈیم کو پاکستان کا پہلا سب سے بڑ اآبی ذخیرہ ہونے کا اعزاز حاصل ہو چکا ہے تربیلا ڈیم اس سے قبل پاکستان کا سب سے بڑا آبی ذخیرہ تھا جہاں 65لاکھ مربع فٹ پانی اکٹھا کیا جاتا تھا اب منگلا ڈیم کی ریزنگ کے بعد اس ڈیم میں 75لاکھ مربع فٹ پانی جمع کرنے کی گنجائش پیدا ہو چکی ہے اور آج پانی کا لیول 1238فٹ ہو چکا ہے جو انتہائی سطح سے صرف چار فٹ کم ہے ڈیم کی ریزنگ کرنے کے بعد پہلی مرتبہ منگلا ڈیم میں سطح آب بلند کی گئی ہے جس کی وجہ سے ایک لاکھ کے قریب انسان یعنی ہزاروں خاندان اپنے اپنے گھروں ،قبرستانوں اور دکانوں کوماضی کی یادوں کے ہمراہ پانی میں دفن کر کے بے یار و مددگار گھوم رہے ہیں ۔حکومت کہتی ہے کہ واپڈا نے ذمہ داریاں بروقت پوری نہیں کیں واپڈا کا موقف ہے کہ ہم نے تمام معاوضے بروقت اد اکر دیئے تھے ضلعی انتظامیہ کا خیال ہے کہ لوگوں کو اطلاع کر دی گئی تھی کہ وہ اپنا اپنا انتظام کر لیں اس سب کے باوجود میرپور میں اس وقت قیامت کا منظر دکھائی دے رہا ہے چکسواری ،ڈڈیال ،اسلام گڑھ اور میرپور کے سینکڑوں دیہات زیر آب آ چکے ہیں جہاں کلکس کے نام پر سینہ گزٹ کے مطابق پھیلنے والی خبریں یہ اندیشے ظاہر کر رہیں ہیں کہ بیس ارب روپے کے قریب کا خطیر سرمایہ ڈوبنے کے قریب ہے وہیں پر کئی سو ارب روپے کی زمینیں اور وہ تمام آباؤ اجداد کی قبریں ،یادیں دفن ہو رہی ہیں جن کا تخمینہ روپے پیسے کے ذریعے نہیں لگایا جا سکتا ۔کلکس اور 1242اہل میرپور کے لیے قیامت بن کر سامنے آئے ہیں ۔
ٓآخر میں حسب روایت ایک ادبی لطیفہ پیش خدمت ہے ۔

مولانا ظفر علی خان اور مولانا مرتضی احمد خان میکش ایک مشاہرے میں شریک تھے میکش نے کچھ دیر بعد کچھ پینے کے لیے مانگا تو ایک سفید ریش بزرگ پانی لے کر آگئے اس پر میکش نے فوراً مصرع کہا

لے کے خود پیر ِ مغاں ساغر و مینا آیا

اس پر مولانا ظفر علی خان نے فوراً گرہ لگائی

میکشو! شرم ،تمہیں پھر بھی نہ پینا آیا

قارئین اہل میرپور اس وقت ’’ آگے کنواں پیچھے کھائی ‘‘کے مصداق دو مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں اﷲ تعالیٰ سب کے حال پر رحم فرمائے ۔آمین
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374134 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More