حکومت پاکستان نے موبائل فون آپریٹرز کو حکم دیا ہے کہ وہ
نوجوانوں میں مقبول رات کے وقت مفت ٹیلی فون پیکجز ختم کر دیں کیونکہ ایسی
سہولیات پاکستان کی ’سماجی اقدار سے تصادم‘ کے مترادف ہیں۔
ڈوئچے ویلے کی رپورٹ کے مطابق جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے پاکستانی
حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ مفت ٹیلی فون کرنے کی سہولت سے نوجوانوں کی
’اخلاقی حالت بگڑ‘ رہی ہے، اس لیے یہ قدم اس صورت حال کے تدارک کے لیے
اٹھایا گیا ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے جاری کردہ
حکم نامے کے مطابق ملک میں تمام موبائل فون آپریٹرز دو ستمبر سے رات کے وقت
مفت فون یا فری ٹیکسٹ پیغامات کے تمام پیکجز ختم کر دیں گے۔
|
|
پی ٹی اے کے ترجمان طالب ڈوگر نے ڈی پی اے کو بتایا کہ حکومت کی طرف سے یہ
قدم اس سلسلے میں شکایات موصول ہونے کے بعد اٹھایا گیا ہے۔ انہوں نے
تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ انہیں ایسی متعدد شکایات موصول ہوئیں کہ اس طرح
کے پیکجز ’نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے کردار میں گراوٹ‘ کا سبب بن رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی نوجوانوں میں انتہائی مقبول اس طرح کے مفت
پیکجز لڑکوں اور لڑکیوں کے مابین ٹیلی فونک رابطوں کو تقویت دیتے ہیں۔
طالب ڈوگر کے بقول، ’’لوگوں نے ہمیں بتایا کہ یہ سلسلہ ختم کر دیا جانا
چاہیے کیونکہ اس سے بے حیائی پھیلتی ہے۔‘‘ پی ٹی اے کے ترجمان کا اس حوالے
سے مزید کہنا تھا، ’’ہم جوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح
فلرٹ کرنے کی چھوٹ نہیں دے سکتے۔‘‘
پاکستان کے قدامت پسند مسلم معاشرے میں مخالف جنس کے افراد کے اس طرح ایک
دوسرے سے رابطے ناقابل قبول خیال کیے جاتے ہیں۔ تاہم شہری آبادی کے مالدار
متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد میں جنس مخالف کے ساتھ اس طرح کے
رابطے عام بات ہیں۔
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے نواح میں رواں ماہ ہی ایک بھائی نے اپنے
سے چھوٹی اپنی ایک ٹین ایجر بہن کو اس لیے ہلاک کر دیا تھا کہ وہ اپنے کنبے
سے باہر کسی لڑکے کے ساتھ موبائل ٹیلی فون پر گفتگو کرتی تھی۔
|
|
پاکستان میں ساٹھ فیصد یا اس سے بھی زیادہ آبادی کے پاس موبائل فون کی
سہولت موجود ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والی پانچ سیلولر کمپنیوں نے
زیادہ سے زیادہ صارفین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایسے متعدد پیکجز متعارف
کرا رکھے ہیں، جن کے تحت لوگ بالخصوص رات کے وقت مفت ٹیلی فون کر سکتے ہیں۔
ایک پاکستانی موبائل فون آپریٹنگ کمپنی کے ایک اعلیٰ اہلکار نے نام مخفی
رکھے جانے کی شرط پر ڈی پی اے کو بتایا کہ ان نئے ریگولیشنز پر عملدرآمد کے
نتیجے میں موبائل فون آپریٹرز کو مالی طور پر نقصان ہو سکتا ہے۔ انہوں نے
کہا، ’’زیادہ تر صارفین کی عمر انیس سے 35 برس کے درمیان ہے۔ وہ ہمارے ایسے
پیکجز کے ذریعے سماجی رابطوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘‘
یہ امر اہم ہے کہ پاکستان میں 2004ء میں ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے میں ترقی
کے بعد سے وہاں نہ صرف روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اس سے ملکی
معیشت کی کارکردگی بھی بہتر ہوئی ہے۔
آپ کے خیال میں کیا حکومتِ پاکستان ان پیکچز پر
پابندی عائد کرنے میں کامیاب ہوجائے گی؟ یا پھر حکومتِ پاکستان اور ان
کمپنیوں کے درمیان کسی قسم کے معاملات طے پا جائیں گے؟ اور سب سے بڑھ کر
کیا حکومتِ پاکستان کا یہ فیصلہ درست ہے؟ |