یہ دنیا انسانوں کی دنیا ہے،اس دنیا کو اﷲ تعالی نے انسان
کے لئے آزمائش بنایا۔ کہتے ہیں جو جیسا کرتا ہے اس کے ساتھ ویسا ہی ہوتا
ہے۔اگر انسان کسی کے ساتھ زیادتی کرتا ہے تو اس کا بدلہ اس کو دنیا میں ہی
مل جاتا ہے ۔اسی طرح ایک جرم معاشرے میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے جو کہ زنا
بالجبر یا زیادتی ہے اس کا شکار بنے والی معصوم اور مظلوم خواتین اور یہاں
تک کہ بچیاں بھی ہوتی ہیں۔ان سب کی وجہ معاشرے میں بہت زیادہ بے راہوری
ہے،آج انسانوں کی اس بھیڑ میں ایسے درندہ بھی پایا جاتا ہے جو ہوس کے
ہاتھوں اس جرم کے مرتکب ہوتے ہیں۔
یورپی معاشرے میں یہ جرم بہت عام تھا اور وہاں اس جرم کی شرح مشرقی ممالک
سے بہت زیادہ ہیں۔ اور ان کی دیکھا دیکھی اب مشرقی ممالک میں بھی یہ جرم
بہت عام ہوگیا ہے اور حد یہ کہ اب اس میں کوئی عمر بھی نہیں دیکھی جاتی
معصوم کلیوں کو بھی اس جرم کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔لیکن جو لوگ یہ جرم
کرتے ہیں وہ یہ بات بھول جاتا ہیں کہ خدا کی ذات بھی موجود ہے جو دنیا میں
اس جرم کی سزا ان کو دے گا۔یہ جرم ایک طرح سے اس انسان کے لئے قرض بن جاتا
ہے جو اس کے خاندان کے لوگوں سے لیا جاتا ہے ۔
قرآن پاک میں زنابالجبر یا زیادتی کو بہت بڑا صغیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے
اور اس کے لئے سخت سے سخت سزا کا حکم دیا گیا ہے ۔سورۃ نور میں بہت سختی سے
اس کی مذمت کی ہے زنا معاشرے میں فساد کا موجب ہے اسلام پاکیزگی،عفت اور
پاکدامنی کا دین ہے لیکن زناپاکیز گی کر ختم کرکے معاشرے کوجنسی انتشار کی
راہ پر ڈال دیتی ہے ۔جس کا نتجہ بالاآخر یہ ہوتا ہے کہ پورا معاشرہ صالح
تمدن کی بنیاد کو ختم کر دیتا ہے اور اب موجود ہ زمانے میں تو یہ جرم مستقل
فلسفہ بن گیا کیونکہ آج کل کا دور بہت ہی خراب دور جارہا ہے اور ملک کی
صورتحال یہ ہے کہ بلامبالغہ سال میں ہزاروں جانیں اور آبروئیں نہایت بے
دردی سے ان درندوں کے ہاتھوں اپنی عزت گنوابٹھتی ہیں
یہ دنیا مکافات عمل ہے اور اگر کوئی انسان سمجھتا ہے کہ وہ گناہ کرے اس کی
جکڑ نہیں ہو گی تو اس کی یہ سوچ بہت ہی غلط ہے ۔کھبی نہ کھبی اسے یہ قرض
اتارنا ہی پڑتا ہے،ان لوگوں کو یہ جرم کرتے وقت اس بات کا احساس نہیں ہوتا
کہ وہ کسی کی معصوم کلی کو اس طرح مسل رہے ہیں کیونکہ عزت سب کی سانجھی
ہوتی ہے اور ان مظلوم عورتیں کی عزت وناموس پر حرف آنے پر بھی ان لوگوں کا
دل پسج نہیں ہوتا َ۔
قرآن پاک میں اس جرم کی سزا ہاتھ کاٹنے اور کوڑے ما رنے کا حکم ہے لیکن
افسوس ہمارے ملک میں اس قسم کی سزا نہیں دی جاتی اگر اس سزا کو نافذکیا
جائے تو آج جو ہمارے ملک میں یہ جرم عام ہے تو پھر اس کی شرح بہت کم ہو
جائے اور پھرکوئی بھی کسی کی معصوم کلی یا کسی کی بیٹی کی عزت پامال نہ کرے
۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس جرم کی جو سزا اسلام میں مقرر کی ہے اس پر
سختی سے عمل کیا جائے اور جو لوگ اس جرم میں ملوث ہیں ان کو سخت سے سخت سے
سزا دی جائے اسلامی سزاوں کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے تاکہ لوگوں کو اس سے
عبرت حاصل ہو -
سائرہ غفور کیانی |