وجود زن سے ہے ۔۔۔۔

امریکہ ایک ملٹی نیشن سوسائتی ہے۔ یہاں دنیا بھر سے لگو ہجرت کر کے آئے ہیں اور رہ رہے ہیں۔ یہاں آپ کو ہر قوم ، ہر نسل ، ہر رنگ اور ہر عقیدے کے لوگ ملیں گے۔ لوگ جب یہاں آتے ہیں تو اپنا ایک خاص کلچر ساتھ لے کر آتے ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھول جاتے ہیں کہ اُن کا اصل کلچر کیا تھا۔ وہ جلد امریکہ کے نئے کلچر میں ڈھل جاتے ہیں۔ لیکن اس عرصے کے دوران جب تک کہ وہ نئے کلچر میں نہیں ڈھلتے امریکہ کے باسیوں کو ان کی عادت اور اطوار کچھ عجیب عجیب سی لگتی ہیں۔ یوکرائین کا ایک خاندان کچھ عرصہ پہلے امریکہ آیا۔ اس خاندان میں میاں بیوی کے علاوہ سترہ (17)بچے تھے جن میں کچھ جوان بھی تھے اور سب مل جل کر ہنسی خوشی وقت گزار رہے تھے۔ یہ امریکی معاشرے میں نہیں ہوتا۔ بچہ جب اٹھارہ سال سے زیادہ عمر کا ہو جاتا ہے تو امریکی اُسے خود پر بوجھ سمجھتے ہیں اور بچہ بھی ماں باپ کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتا۔ بچے کی کوشش ہوتی کہ اٹھارہ سال کا ہو گا ہوں تو ایک نئی اور آزاد زندگی کی شروعات کروں۔ امریکہ حکومت بھی اُسے کسی حد تک سپورٹ کرتی ہے۔ ماں باپ بھی اُسے گھر پر رکھنے پر مائل نہین ہوتے۔ اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ بچہ چونکہ جوان ہو گیا ہے اس لیے اپنے معاملات خود دیکھے۔ اپنا علیحدہ گھر لے یا ہوسٹل میں رہے۔ اُن سے ملنے ک بھی کبھار جب فرصت ہو تو آئے چنانچہ یوکرائین کے اس نو آمد خاندان کا اس طرح خوشی خوشی مل جل کر رہنا امریکی لوگوں کو بڑا عجیب لگا۔

مہنگائی اور کساد بازاری کی لہر نے جہاں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے وہاں امریکی معاشرہ بھی اس سے متاثر ہوا ہے۔ بے روز گاری عام ہے اور نوجوان کم تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ بہت بڑی تعداد میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جن کی عمریں 18اور 30سال کے درمیان ہیں اور جنہیں امریکی روایات کے مطابق والدین سے علیحدہ رہنا چاہیے کم آمدن کی وجہ سے والدین کے ساتھ رہنے پر مجبور ہین۔ ماں باپ پر بھی اُؒن کا ساتھ رہنا عملی طور پر ایک بوجھ ہے مگر کیا کریں۔ بچوں کے پاس نوکری نہیں اوراگر ہے تو ان کی آمدن اس قدر قلیل ہے کہ وہ علیحدہ رہ ہی نہیں سکتے۔ اخراجات کو بوجھ اکیلے اٹھا ہی نہیں سکتے۔

17بچوں کی بات چلی تو اس حوالے سے یاد آیا کہ دنیا میں اس وقت تقریبا 12کروڑ افراد ایسے ہیں جو دنیامیں اکیلے نہیں آیا۔ وہ جب پیدا ہوئے تو اُن کے ہمراہ پیدائش میں اُن کا ایک آدھ بہن یا بھائی بھی ساتھ تھا۔ بہت سے جڑواں پیدا ہوئے۔ بہت سے تین کی تعداد میں ۔ کچھ چار بھی پیدا ہوئے۔ کچھ پانچ بھی اور حد یہ ہے یہ تعداد بعض اوقات دس تک بھی پہنچ گئی۔ اس سلسلے میں بہت سی دلچسپ چیزیں سامنے آتی ہیں۔

دنیا میں ہر سال تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ بچے جڑواں پیدا ہوتے ہیں۔ تین کی تعداد میں پیدا ہونے والے بچوں کی سالانہ اوسط تعداد تقریباً چھ ہزار ہے۔ چار کی تعداد میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد اوسطاً 400سالانہ ہے ۔ تقریباً 100بچے وہ ہیں جو سالانہ پانچ کی تعداد میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اکا دُکا زیدہ تعداد میں بھی بچے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔

1725سے 1765ء کے درمیانی عرصے میں روس کے ایک مزدور نیوڈر ویسی ژف (Feodor Vassilyev)کی بیوی نے 69بچوں کو جنم دیا جو ایک ماں سے زیادہ سے زیادہ بچوں کا عالمی ریکارڈ ہے۔ وہ عورت کل 27دفعہ حاملہ ہوئی۔ 16دفعہ جڑواں بچے پیدا ہوئے۔ ساتھ دفعہ تین تین اور چار دفعہ چار چار بچے پیدا ہوئے۔ ان 69بچوں میں67زندہ رہے۔ 16دفعہ جڑواں اور چار دفعہ چار بچے ہونے کا عالمی ریکارڈ بھی اسی عورت کا ہے ۔ مزے کی بات کہ اس مزدور کی ایک اور بیوی بھی تھی جس سے اپس کے مزید اٹھارہ بچے تھے۔

روس ہی کے ایک اور مزدور (Yakov)کی بیوی نے 21دفعہ میں 57بچوں کو جنم دیا۔ 10دفعہ جڑواں ، سات دفعہ تین تین اور چار دفعہ چار چار بچوں کو جنم دیا۔ یہ سب بچے زندہ رہے۔ 1755میں (Yakov)کی عمر 60سال تھی اور وہ اپنے تمام بچوں سمیت ایک عدالت میں پیش ہوا۔

امریکہ میں 1997میں ایک امریکی جوڑے کسنی اور بوبی کے ہاں آٹھ بچے پیدا ہوئے۔ اگلے سال 1998کے اوائل میں امریکہ ہی میں حسنہ اور حمیر کے ہاں بھی آٹھ بچے پیدا ہوئے اور کچھ دنوں بعد اسی سال ایک مصری عورت غزالہ کے ہاں بھی آٹھ بچے پیدا ہوئے۔ صرف حسنہ اور حمیر کے بچوں میں سے سات زندہ ہیں اور آج پندرہ سال کے ہو چکے ہیں۔

مردوں کی زیادہ سے زیادہک اولاد میں مختلف ملکوں کے حکمران ہی نظر آتے ہیں۔ جنہوں نے کئی کئی بیویاں کیں اور اُن بیویوں سے اُن کی اولاد سینکڑوں میں پہنچ گئی۔ مراکو کے مسلمان بادشاہ اسماعیل ابن شریف جو 1672سے 1727تک مراکو کا حکمران رہا زیادہ سے زیادہ بچوں کے باپ ہونے کا عالمی ریکارڈ ہولڈر ہے۔ مراکو کی تاریخ کے اس زبردست حکمران کے 525بیٹے اور 342بیٹیاں تھیں۔

اسماعیل ابن شریف کا 800سے زیادہ بچوں کا ریکارڈ اتنا زبردست ہے کہ کوئی دوسرا حکمران اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ عموماً ریکارڈ رکھنے والے دیگر حکمرانوں کے بچے 100سے 200کے درمیان ہیں جن میں سعودی حکمران شاہ سعود بھی شامل ہیں جن کے تقریباً115بچے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے والد شاہ عبدالعزیز جن کی 22بیویاں اور بچوں کی تعداد 75تھی کی اولاد میں اُس وقت تعداد کے لحاظ سے تین ہزار کے لگ بھگ شہزادے اور شہزادیاں موجود ہیں۔ بہرحال عورت تو ہر مرد کی کمزوری ہے کیونکہ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔ اصل بات تو یہ ہے کہ حکمران عوام کو کیا دیتے ہیں۔ بیویاں او ربچے اُن کی ذاتی زندگی کے افعال ہیں۔ قوم کو تو صرف یہ عرض ہوتی ہے کہ حکمران عوام کی مشکلات کے ازالے کے لیے کچھ اقدامات کریں۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500809 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More