خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن ہر سال 10
ستمبر کو ساری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغآز 10 ستمبر
2003 سے شروع ہواWHO کے اعداد و شمار کے مطابق ہر روز تین ہزار انسان
خودکشی کے ذریعے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں یعنی ہر ہفتے اکیس ہزار
لوگ، ہر ماہ نوّے ہزار لوگ اور ہر سال دس لاکھ اسّی ہزار انسان خودکشی کے
ذریعے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرلیتے ہیں۔ ان میں بھوک، غربت کی وجہ سے
خودکشی کرنے والے اور بیماریوں اور علاج سے محرومی کی وجہ سے خودکشی کرنے
والے لوگوں کی تعداد نوّے فیصد سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔اس وقت ملک پاکستان
بے شمار مسائل کا شکار ہے ایک طرف بد امنی اور دہشتگردی کا بازار گرم ہے تو
دوسری طرف لوڈشیڈنگ و بھتہ خوری کی وجہ سے کاروبار تباہی کے دہانے پر پہنچ
چکے ہیں بے روزگاری میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے پڑھے لکھے نوجوان نوکری سے
محروم ہیں، مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، آج کا نوجوان اپنے مستقبل
سے مایوس ہوچکا ہے جس سے لوگ اعصابی تناؤ کا شکار ہیں یہی اعصابی تناؤ
بلاآخر خود اپنے ہاتھوں اپنی جان لینے پر انسان کو مجبور کردیتی ہے اور آئے
دن کوئی ماں اپنے ہی ہاتھوں اپنے بچوں کو زہر دے کر خود بھی ابدی نیند سو
جاتی ہے، کوئی باپ اپنی اولاد کا گلا محض اس لیے گھونٹ دیتا ہے کیونکہ وہ
انپے بچوں کی بھوک مٹا نہیں سکتا اور انہیں یوں بھوک سے بلکتے دیکھ بھی
نہیں سکتا۔ اس میں ایک اہم کردار میڈیا کا بھی ہے اس کی چمکتی دمکتی دنیا
انسان کو اپنی کم ماہیگی کا ہر وقت احساس دلاتی ہے اور جب ان چیزوں تک
رسائی نہ ملے تو انسان مایوس ہوجاتا ہے اور مایوسی اسے اپنی جان لینے پر
مجبور کردیتی ہے۔انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں کیلئےانسانی
جانوں کا اس طرح ضیاع ایک لمحہ فکریہ ہے- |