’’آپریشن نہیں ڈائیلاگ‘‘ والے ہمارے مضمون پرسوشل میڈیا میں کچھ سخت گیر
دوستوں نے تنقید بھی کی ،کچھ نے اس کے منہج اورطریقۂ کار کا مطالبہ کیا، یہ
معروضات ان تمام کے پیش خدمت ہیں۔
جب خوارج نے مرکزخلافت کے خلاف بغاوت شروع کی ، تو حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے
ان کی طرف زمانے کے سب سے بڑے عالم حبرالأمہ حضرت ابن عباس ؓ کو سمجھا نے
بجھانے کے لیے بھیجا،جنہوں نے متعدد بار ان کی محفوظ پناہ گاہوں میں جا کر
ان کے اعتراضات کے ایسے حکیمانہ جوابات دئے، کہ ان میں سے ہر ایک دفعہ دس
دس بیس بیس ہزار افراد بغاوت اور قتل وقتال سے برگشتہ ہو کر مرکز سے
آملے،اب بھی امن کمیٹی ہویا طالبان،ایم کیو ایم ہویا اے این پی،بلوچ لبریشن
آرمی ہو یا پنجابی طالبان،سب کے پاس شیخ الحدیث مولانا سلیم اﷲ خان ،مولانا
فضل الرحمان،مولانا سمیع الحق،مفتی منیب الرحمان،مفتی تقی عثمانی،مولانا
طارق جمیل،جنرل حمید گل ،میجر عامر،مولانا تنویر الحق تھانوی،ڈاکٹر شیر علی
شاہ،مفتی نعیم،اور ڈاکٹر راغب نعیمی جیسے حضرات کے وفود بنا کران لوگوں
کوسمجھانے کی کوشش کی جائے، ان کو عذابِ الہی سے ڈرایاجائے،ان کی محرومیوں
کے ازالے کے حل نکالے جائیں،انہیں اپنانے کی کاوشیں کی جائیں،اور اپنابھی
بنظرغائر محاسبہ کیاجائے،امید ہے کہ نتائج اچھے نکلیں گے،ورنہ اتمام حجت
توہو گا۔ اﷲ تعالی کا فرمان ہے:ــ’’کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ لوگوں کے دل
ڈر جائیں اﷲ تعالی کی یاد سے‘‘ ۔(حدید آیت ۱۶)،ہماری مصیبت یہ ہے کہ ہم
اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ چاروں طرف لاشوں پے لا شے ہیں اور کوئی عبرت لینے
کو تیار نہیں۔’’اور بچتے رہو اس فتنے(فساد) سے کہ نہیں پڑے گا، تم میں سے
صرف ظالموں ہی پر، اور جان لو کہ اﷲ کا عذاب سخت ہے ‘‘۔ (انفال : ۲۵)، اس
آیت میں اﷲ تعالی نے ایک ایسے عذاب سے بچنے کا حکم کیاہے ،جو صر ف مجرموں
کو نہیں پہنچے گا بلکہ مجرم اور غیر مجرم یعنی رطب ویابس سب کو بھسم کردے
گا ۔
قوم نے اصلاح معاشرہ کی دعوت ترک کردی ہے، برائی دیکھ کر کسی کو نا گواری
نہیں ہوتی، حضور ﷺنے فرمایا : ’’ جو بھی تم میں سے کوئی برائی دیکھے ،وہ
اسے ہاتھ سے روک دے ( ارباب اختیار کی ذمہ داری )، اگر یہ طاقت نہ ہو ،تو
زبان سے روک دے ( داعی اور مصلح کی ذمہ داری )،اگر یہ بھی طاقت نہ ہوتو کم
ازکم دل سے براجانے اور اس کا دل برائی محسوس کرے ،یہ ایمان کا ادنی ترین
درجہ ہے‘‘،( مشکوۃ / ۴۳۶ )،حدیث پاک میں یہ بھی ہے : ’’اﷲ تعالی نے جبرئیل
علیہ السلام کو حکم فرمایا :فلاں بستی کوالٹ دو ، انہوں نے عرض کیا ، اے اﷲ
اس میں ایک نیک آدمی بھی رہتاہے، اﷲ تعالی نے فرمایا، اس کو بھی الٹ دو ،میراحکم
توڑاجاتا تھا اور اس کے ماتھے پر بل بھی نہیں آتاتھا‘‘، (مشکوۃ / ۴۳۹ )،ایسے
ہی ایک جماعت بیت اﷲ پر حملہ کرنے کے لئے اٹھی گی ، اس جماعت کو شہر سمیت
دھنسا دیا جائے گا، حضرت عائشہ نے عرض کیا کہ اس شہر میں ایسے کچھ لوگ بھی
ہوں گے، جو اس جرم میں شریک نہ ہوں گے؟فرمایا :’’ یُبعثون علی نیاتھم ‘‘۔کہ
آخرت میں اپنی اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے ،گویا دنیا میں وہ بھی عذابِ
الہی سے نہیں بچ سکیں گے۔باری تعالی فرماتے ہیں، اﷲ تعالی کے شعائر کی
توہین نہ کرو، یعنی جو اﷲ تعالی کے دین کے علامتیں جانی جاتی ہیں،ان کی
اہانت نہ کرو ، اس میں توہین خدا ،توہین رسالت ،توہین کعبۃ اﷲ ،توہین مساجد
، توہین قرآن کریم ،توہین دینی مدارس ،توہین اولیائے کرام وعلمائے عظام سب
شامل ہیں، جب ان شعائر کی توہین ہوگی تو اﷲ تعالی کی طرف سے اندھے فتنوں کی
شکل میں عذاب ہوگا۔ پھرجو قوم سود دینے اور لینے میں مشغول ہوجائے اور باز
نہ آئے ،’’ اﷲ تعالی کی طرف سے ان کے لئے اعلان ِجنگ ہے ‘‘(بقرۃ /۲۷۹)۔ظلم
خواہ کسی بھی نوعیت کاہو اس کی وجہ سے اﷲ تعالی کا غضب نازل ہوتاہے ، مظلوم
کی بددعا سے بچو ،حضور ﷺ نے مظلوم کی بد دعا سے بچنے کا فرمایا ہے، کیونکہ
اس کی بد دعا اﷲ تعالی تک ڈائرکٹ پہنچتی ہے، ظلم کی اقسام یہ ہیں : نظام
اسلام کا مطالبہ کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دے کر مارنا، سامراج کو ڈرون
وغیرہ حملوں کی اجازت دے کر بے گناہ لوگوں کو ہلاک کرنا، اقتدار سے ناجائز
فائدہ حاصل کرکے اپنے مخالف بے گناہوں کو مارنا ،قوم کے افراد جیسے عافیہ
صدیقی وغیرہ کو اغیار کے حوالے کرنا۔ برائے تاوان اغوا کرکے تکلیف پہنچا نا
یا ماردینا۔جھوٹے مقدمات بناکر بے گناہوں کو پابند سلاسل کرنا۔رشوت لے کر
عدالتوں سے بے گناہوں کو سزا دینا اور مجرموں کو چھوڑ دینا۔قاتلوں کو
اسلامی سزا یعنی قصاص میں قتل نہ کرنا۔ قومی ذمہ داری بغیر رشوت پوری نہ
کرنا یعنی جو قومی خدمت پر مامور تنخواہ دار ملازم ہیں، وہ عوام کا کام
رشوت لئے بغیر نہیں کرتے ۔ جرائم عامہ زنا ، چوری ،ڈاکہ ، فحش کاری ، فحش
گانے، شراب خوری ،بھتہ خوری عام ہوجانا۔نیز نااہلوں کو حکومتی مناصب دینا ۔
طاقت کے زور پر دوسرے کی آزادئی رائے کچلنا۔زمیندار ،کارخانہ دار ، سرمایہ
دار کا غریبوں کا خون پینا اور ان کی غربت سے ناجائز فائدہ اٹھانا اور پوری
مزدوری نہ دینا ۔ تنخواہ پوری لینا اور کام ادھوراکرنا ۔ سرمایہ داروں کا
ذخیرہ اندورزی کرنا ، اور مخلوق کو قحط میں مبتلا کرکے گراں فروشی کرنا۔
امانت میں خیانت کرنا او رحق والے کو حق نہ دینا ۔بم دھماکوں خود کش حملوں
کے ذریعے معصوم عوام کو مارنا۔قومی محسنوں کو پابند سلاسل کرنا۔قومی خزانہ
کو بنیادی ضروریات کے بجائے خرمستیوں پے لگانا۔
اﷲ معاف فرمائے ان جمہوری جرائم کا ارتکاب متقاضی ہے کہ ساری قوم کو عذاب
دے کر ختم کردیاجائے، جیسا کہ قوم عاد، ثمود ،قوم نوح اور آل فرعون ۔لیکن
اس میں رکاوٹ صرف وہ دعائے رحمۃ للعالمین ﷺہے ،کہ اے اﷲ میری ساری امت
کوتباہ نہ کردینا، جیساکہ پہلی امتیں تباہ کردی گئیں تھیں، اس بناء پر عذاب
عامہ کی دواقسام ہیں:ایک استیصالی کہ جس سے تمام قوم کو جڑسے اکھیڑ
دیاجاتاہے ،جوپہلی قوموں پر آیا، عذاب غیر استیصالی جوتنبیہہ کرنے کے لئے
کبھی کہیں ،کبھی کہیں آئے گا ،کبھی خیبر میں آئے گا، کبھی بلوچستان میں ،کبھی
کراچی یعنی سندھ میں آئے گا، تو کبھی پنجاپ میں آئے گا ،چونکہ یہ امت آخری
امت ہے، اس کو اﷲ تعالی نے قیامت تک رکھناہے، اس لئے اس پر عذاب عامہ
استیصالی نہیں آئے گا ،بلکہ جھنجھوڑنے کے لئے جزوی طور پر آتارہے گا، تاکہ
قوم عبرت حاصل کرکے ،توبہ و استغفار کی طرف متوجہ ہو ، اب یہ وقت کسی کو
گالیاں دینے یا کوسنے کا نہیں، بلکہ ہرشخص خود احتسابی کرکے ،جوظلم کرتاہے
اس کوترک کرے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : ’’کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ‘‘ ،تم
میں سے ہر ایک حکمراں ہے اور ہرایک سے اپنی رعایا کا سوال کیاجائے گا ،کہ
تم اپنی رعایا پر ظلم تو نہیں کرتے تھے ، اﷲ تعالی ظلم کو معاف نہ فرمائیں
گے،شہید کو سب گناہ معاف ہوں گے ،لیکن ظلم اسے بھی معاف نہیں، اگرچہ کسی
جانور پر ہی کیوں نہ کیاہو،چہ جائیکہ انسان ،انسان پر ظلم کرے ،اب واحد
راستہ یہی ہے ، ان جرائم سے من حیث القوم توبہ کی جائے ۔فرما نِ الہی ہے:’’
پس سب کو پکڑا ہم نے اپنے اپنے گناہ پر ، پھر کوئی تھا کہ ہم نے اس پر
بھیجا پتھراؤ ہواسے اور کوئی تھا کہ اس کو پکڑا چنگھاڑنے پھر کوئی تھا کہ
اس کو دھنسادیا ہم نے زمین میں اور کوئی تھا کہ اس کو ڈبودیا ہم نے اور
ایسا نہ تھا کہ اﷲ ان پر ظلم کرنے والا تھا، پرتھے وہ ہی اپنے آپ پر ظلم
کرنے والے‘‘ ،( عنکبوت /۴۰ )۔دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے :’’ عذاب کبھی
اوپر سے آتاہے اور کبھی نیچے سے آتاہے اور کبھی تمہاری آپس میں لڑائیاں
ہوتی ہیں ‘‘۔ نیزفرمایا:’’ اب کیا بے خو ف ہوگئے ہیں بستیوں والے اس سے ،کہ
آن پہنچے ان پرآفت ہماری راتوں رات جب وہ سوئے ہوں ،یا بے خوف ہوگئے ہیں
بستیوں والے اس سے کہ آپہنچے ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے، جب کھیلتے ہوں ،کیا
بے ڈر ہوگئے اﷲ کی تدبیر سے ،پس نہیں بے ڈر ہوئے اﷲ کی تدبیر سے مگر خرابی
میں پڑنے والے ‘‘۔ (اعراف /۹۔۸۔۹۷)۔ ملک کے بہی خواہوں کے بچنے کا واحد
راستہ یہ ہے کہ اﷲ تعالی سے گڑگڑ اکر معافی مانگی جائے ۔ جن جرائم کو عذاب
عامہ کا سبب بتایا گیاہے ،ان سے توبہ کی جائے ، ذرائع ابلاغ ، فحش گانے ،بیہودہ
ڈرامے ختم کرکے انسانی ہمدردی کا سبق عام کیاجائے، تاکہ دنیا پر واضح ہوکہ
اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ قوم کا مزاج مغرب کی بجائے
اسلام کی طرف موڑاجائے اور اسلامی اخلاق ،اخبار ، ریڈیو ، ٹیلی ویژن کے
ذریعے نشر کئے جائیں ، جرائم کبیرہ ،چوری ، ڈاکہ،دہشت گردی ، زنا، بھتہ
خوری ،بددیانتی ، آبروریزی جیسے جرائم کی برائیاں نشرکی جائیں،اسلحہ کی
بھرمار کا روک تھام کیاجائے،مزید خون خرابہ اور خلفشار کے بجائے اصلاح
احوال کے معقول طریقے اپنائے جائیں،آخر خود کُش بھی تو کسی کی ترغیب وتلقین
اور برین واشنگ سے اپنے ساتھ بم باندھ کر اس طرح کے حملوں کے لئے تیار ہوتے
ہیں،تو پھر ہم کیوں یہ آسان اور دیر پا طریقے نہ اپنائیں؟۔
کیااب بھی خوف کھانے کا وقت نہیں آیا؟ کیا اور کسی بڑی آفت کا انتظار ہے ؟
|