سعودی عرب کی مملکت جزیرہ نمائے عرب پر مشتمل ہے‘ اس کے مغرب میں بحریہ
قلزم اور مشرق میں خلیج واقع ہیں‘ اردن‘ عراق‘ کویت‘ قطر‘ متحدہ عرب امارت‘
عمان اور بحرین اس کے پڑوسی ممالک ہیں‘ ریاض سعودی عرب کا سب سے بڑا شہر
اور اس کا دارلحکومت ہے‘ سعودی عرب کا کل رقبہ2,194,690 مربع کلومیٹر ہے
اور اس کی آبادی تقریباََ 3 کروڑ کے لگ بھگ ہے‘ سعودی عرب وہ مملکت ہے جو
عالم اسلام کے لئے انتہائی معزز اور مقتدر ہے‘ سعودی عرب مسلمانان عالم کے
لئے مقدس ترین سرزمین کی حیثیت رکھتا ہے ‘ اسی میں مسلمانوں کے دو عظیم شہر
مکہ اور مدینہ واقع ہیں‘ کل عالم اسلام سعودی سرزمین کا کو انتہائی عقیدت و
احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس مقدس سرزمین پر ایسے
لوگ حاکم بن کر بیٹھ گئے جن سے ماضی میں انتہائی تلخ حقائق وابستہ ہیں اور
عصر حاضر میں بھی ان کی منافقت سر چڑھ کر بول رہی ہے‘ 1932 میں ایک نام
نہاد لیڈر ابن سعود نے سعودی عرب پر قبضہ کر لیا اور تب سے ہی اس کا نام
عرب سے تبدیل کرکے ’’سعودی عرب‘‘ رکھ دیا گیا اور یہی خاندان سعودی عرب کا
مستقل حکمران بن کر رہ گیا‘ شاہ عبدالعزیز 1950 ء تک اس کا فرمانروا رہا
اور اس کے انتقال کے بعد سعود بن عبد العزیز تخت نشیں ہوا‘ عبد العزیز کے
تخت نشیں ہوتے ہی برادر اسلامی ملک یمن سے سعودی عرب کے تعلقات انتہائی
کشیدہ ہو گئے اور بغاوت کی ایک لہر نے جنم لیا جس کے نتیجے میں 1964 ء میں
شاہ عبدالعزیز کو معزول کر دیا گیا اور اس کی جگہ شاہ فیصل نے سنبھال لی‘
شاہ فیصل شاہ سعود کا بھائی تھا۔
قارئین کرام! حقیقتاََ سعودی عرب کی حکومت کا بنیادی ادارہ آل سعود کی
بادشاہت ہے سعودی عرب پر آل سعود کی حکومت کا یہ سلسلہ اس وقت سے چلتا آ
رہا ہے اور اس وقت بھی قائم ہے‘ 1992 ء میں سعودی عرب میں اختیار کئے گئے
قوانین کی رو سے سعودی عرب پر پہلے بادشاہ عبدالعزیز ابن سعود کی اولاد
حکومت کرے گی اور کرتی رہے گی‘ آل سعود کے یہ نامی گرامی بادشاہ اپنے اپنے
ادوار بادشاہی میں تاریخ دانوں کو انتہائی تلخ حقائق سونپ کر گئے ہیں‘
سرزمین عرب جو کہ عالم اسلام کی انتہائی مقدس اور پسندیدہ ترین سرزمین ہے
اصولاََ تو ایسے ملک کے بادشاہ کو عالم اسلام کی یکجہتی اور کفار کے کیخلاف
جہاد میں دیگر اسلامی ممالک کی کمان سنبھالنی چاہئے لیکن آل سعود کا کردار
اس کے بالکل بر عکس رہا اور ان کا کردار عالم اسلام کو یکجا کرنا تو کجا
بلکہ دیگر اسلامی ممالک کیخلاف سازشیں کرنے میں زیادہ نظر آتا ہے‘ فرقہ
واریت دین اسلام میں جتنی سختی کے ساتھ ممنوع ہے مسلمان اتنی ہی دلجمعی
کیساتھ اس پر عمل پیرا ہیں جس کا عملی نمونہ آل سعود اور ان کے کارنامے
ہیں‘ ترایخ شاہد ہے کہ ’’سریا‘‘ میں ہونے والے مظالم اور ایران عراق جنگ‘
مصر میں محمد مُرسی کی حکومت کا تکتہ الٹے جانا اور شام پر امریکی حملے کی
کھلی حمایت کرنا اور امریکہ کو مالی و سفارتی امداد فراہم کرنے کا کھلا
اعلان کرنا آل سعود کی منافقت کا سب سے بڑا ثبوت ہے‘ آل سعود مقدس ترین
اسلامی ملک کی بادشاہی کی آڑ میں دیگر اسلامی ممالک کو غیر مستحکم کرنے میں
پیش پیش رہی ہے‘ ملک کے ایک موقر روزنامے کے مطابق سعودی شاہ نے اپنے اہم
اعلان میں کھلے عام کہا کہ ’’امریکہ شام پر حملہ کرے‘ ہم امریکہ کو مالی و
سفارتی امداد فراہم کریں گے‘‘ سعودی شاہ نے دیگر ساتھی عرب ممالک پر بھی
زور دیا کہ وہ شام پر امریکی حملے کی حتیٰ الامکان معاونت کریں اور مالی
امداد فراہم کریں‘ آل سعود کا یہ گھناؤنا چہرہ جس سے دیگر اسلامی ممالک
کیخلاف کی جانے والی سازشیں واضح ہو گئی ہیں اس کے پیچھے اس کے کونسے
مفادات پنہاں ہیں؟ اسی طرح جب مصر میں فرعون وقت جنرل عبدل افتح السیسی نے
محمد مُرسی کی حکومت کا تختہ الٹا تو آل سعود کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے اور
سعودی شاہ کی طرف سے ایک تعریفی خط جس میں جنرل عبدالفتح السیسی کے اقدام
کو نہ صرف سراہا گیا بلکہ اس کی مزید حمایت جاری رکھنے کا یقین بھی دلایا
گیا‘ جنرل عبدالفتح السیسی اور مصری فوج کو محمد مرسی کی حکومت کا تختہ
الٹنے کیلئے بھاری مالی امداد بھی آل سعود کی طرف سے خفیہ طور پر فراہم کی
جاتی رہی ہے اور محمد مرسی کی حکومت کا تکتہ الٹنے کے بعد سعودی شاہ عبداﷲ
نے مصری فوجی حکومت کیلئے 5 ارب ڈالر امداد کا اعلان بھی کیا۔
اسی طرح سعودی اسلامی ٹی وی چینل کے معروف ترین مبلغ طارق السویدان کو
اخوان المسلمون کیساتھ ہمدردی رکھنے پر پرنس الولید بن طلال کے حکم پر
ملازمت سے برخاست کر دیا گیا کیونکہ انہوں نے مصری عوام پر مصری فوج کے
مظالم کی شدید مخالفت کی تھی‘ قارئین کرام آل سعود جو زبردستی پاک عرب زمین
پر قابض ہو گئی ہے اس کا سعودی عرب پر حکومت کرنا عالم اسلام کیلئے انتہائی
تباہ کن ہے‘ امریکی آشیر باد کی حامل آل سعود کی ڈاکو حکومت کے ماضی کی طرح
ایک مرتبہ پھر اسلامی ممالک کیخلاف کفار کی چڑھائی کو نہ صرف سفارتی بلکہ
بھاری مالی امداد فراہم کرنے کے فیصلے نے عالم اسلام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا
ہے‘ سعودی حکومت کو تو اسلامی ممالک کا ایک ایسا لیڈر بن کر ابھرنا چاہئے
تھا جس کے سامنے کفار کھڑے ہونے کی جرأت نہ کرسکتے مگر افسوس آل سعود
عیاشیوں اور اقتدار کے نشے میں یہ بھول چکی ہے کہ وہ ایک ایسی مقدس سرزمین
پر حکومت کر رہے ہیں جو مسلمانوں کی نظر میں سب سے زیادہ محبوب ہے‘ فرعون
کی طرح وہ یہ بھی بھول چکے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ان کو دیکھ رہا ہے اور اﷲ کی
لاٹھی بے آواز ہے‘ قارئین کرام! یہی وہ آل سعود ہے جس کے دور حکومت میں
قیامت کی آخری پیشین گوئیوں میں سے ایک پیشین گوئی پوری ہونی ہے‘ اسی آل
سعود کی حکومت میں کفار کو خوش کرنے کیلئے ایک سال ایسا آئے گا جب عالم
اسلام کو حج ادا کرنے سے روک دیا جائے گا۔۔۔۔۔۔ |