بس کا سفر

بسیں پورے پاکستان میں پائی جاتی ہیں اور سب کی حالت زار تقریباً ایک ہی جیسی ہوتی ہے اس لیے ہم بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم کسی ایک شہر کی بسوں کی حالت بیان کریں تو یقیناً سب شہروں کی ترجمانی ہوجائے گی۔ ویسے تو ہم نے لاہور، پشاور، وغیرہ کی بھی پبلک بسوں میں سفر کیا ہے ( اور حالات بتاتے ہیں کہ آئندہ بھی بسوں ہی میں سفر کریں گے جہاز میں نہیں ) لیکن چونکہ ہم کراچی کے رہائشی ہیں اس لیے ہم تفصیل سے کراچی کی بسوں پر ہی بات کریں گے۔

سنا ہے کسی زمانے میں بس میں اردو کا سفر کیا جاتا تھا آج کل انگریزی کا سفر کرتے ہیں۔ کسی زمانے میں مسافروں کو منزل تک پہنچانے کے لیے بس میں بٹھایا جاتا تھا،آج کل بٹھانے کا رواج بہت کم ہوگیا ہے بلکہ مسافروں کو بس میں ڈھویا اور ڈھونسا جاتا ہے، صرف وہ خوش نصیب بس میں بیٹھنےکی سعادت حاصل کرتا ہے جو بس اڈے کے قریب سے بس میں سوار ہوتا ہے یا پھر وہ جو کسی بس میں کھڑا ہوکر اونگھ رہا ہو اور اس کے ساتھ والی سیٹ کے مسافر کی منزل آجائے، ایسے مسافر کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا ہے اور وہ سیٹ پر یوں بیٹھتا ہے جیسے کسی غریب کی اچانک ایک لاکھ کی لاٹری نکل آئے اور حیرت انگیز خوشی کی کیفیت میں آجاتا ہے یعنی اسے کافی دیر تک یہ یقین نہیں آتا کہ اس کی لاٹری نکل آئی ہے یہی کیفیت مذکورہ مسافر کی ہوتی ہے اسے بھی کافی دیر تک یقین نہیں آتا کہ وہ بس میں “ بیٹھ “ چکا ہے۔

اب بس میں بیٹھنے کی بات چل نکلی ہے اس حوالے سے ہم نے کئی سال کے مشاہدے کے بعد کچھ نتائج اخذ کئے ہیں وہ ہم آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں۔ بس میں سیٹ خالی ہونے پر ہماری مختلف قوم کے بھائیوں کا مختلف رد عمل مختلف ہوتا ہے۔ ( براہ مہربانی اس کو تعصب یا قوم پرستی نہ سمجھا جائے بلکہ صرف انجوائے کیا جائے ) ہمارا مشاہدہ ہے کہ اگر بس مکمل بھری ہوئی ہو اور اس میں کوئی سیٹ خالی ہوجائے تو اگر قریب میں کوئی بلوچ یا اردو بولنے والا فرد ہوگا تو وہ کوشش کرے گا کہ اگر نزدیک جو دوسرا فرد کھڑا ہے اس کو موقع دیا جائے اگر وہ نہ بیٹھے تو پھر یہ سکون اور وقار کے ساتھ اپنی سیٹ پر بیٹھ جائے گا، اگر کسی پٹھان یا سندھی کو سیٹ ملے گی تو یہ فوراً سے پیشتر سیٹ پر اپنے قبضےکو یقینی بنائیں گے اور اس کے بعد پوری بس کو ایسے فخریہ انداز، اور فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ دیکھیں گے جیسے کوئی میراتھن میں میراتھن ریس جیت کر بیٹھا ہو اور رہے ہمارے پنجاب کے بھائی تو ان اس بات کا انتظار نہیں کرتے کہ کب سیٹ خالی ہوگی یا کسی ایک جانب کھڑے ہوجائیں بلکہ یہ بھائی بس میں درمیان میں کھڑے ہوجائیں گے اور مسلسل بس میں نظر رکھیں گے کہ کونسے مسافر کی منزل آنے والی ہے، یہ فوراً اس کی جانب لپک پڑیں گے اور بعض اوقات تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ادھر سیٹ خالی ہوئی سیٹ کے ساتھ موجود فرد ابھی اپنی تشریف رکھنے کی تیاری کررہا ہے کہ ہمارے پنجاب کے بھائی نے دور سے اپنا ہاتھ بڑھا کر سیٹ پکڑ لی اور دوسرے مسافر کا راستہ روک لیا، دوسرا فرد ابھی سوچ ہی رہا ہوتا ہے کہ یہ کیا ہوا ہے اور وہ بھائی سیٹ پر بیٹھ چکے ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے مشاہدات ہیں کسی خاص قوم پر طنز نہیں ہیں اس لیے کسی کو برا ماننے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر بس میں بیٹھا کوئی مسافر اخبار پڑھ رہا ہے تو اس کے ساتھ بیٹھا مسافر بھی اس کے ساتھ اخبار پڑھے گا۔ خیر اب جو ساتھ بیٹھا ہے اس کا تو اتنا حق ہے لیکن جو پیچھے بیٹھے مسافر ہیں اب وہ بھی اپنی گردن لمبی کر کے آگے موجود اخبار پڑھتے رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قریب کھڑے مسافر بھی اس “بہتی گنگا“ میں ہاتھ دھونا ضروری سمجھتے ہیں اور وہ بھی اس اخبار سے مستفید ہوتے ہیں۔ اگر اس دوران مالک اخبار، اخبار تہہ کر کے رکھ لے تو کئی مسافروں کے چہروں پر ناگواری کے تاثرات ابھر آتے ہیں۔ البتہ کچھ بے تکلف افراد اخبار مانگ کر پڑھ لیتے ہیں۔ اس طرح ایک اخبار سے کئی لوگ استفادہ کرتے ہیں۔

عام طور سے لوگ بسوں میں خاموشی کے ساتھ سفر کرتے ہیں لیکن اگر آپ سکون پسند طبعیت کے مالک نہیں ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ بس میں زرا شور شرابا ہو تو آپ دو آزمودہ نسخے استعمال کرسکتے ہیں جس سے بس میں ایک موجود ہر فرد بولنے کی کوشش کرے گا اور بس میں ایک رونق سی محسوس ہوگی۔ پہلا نسخہ تو یہ ہے کہ آپ اپنے ساتھ بیٹھے مسافر سے حالات حاضرہ یا عوام کے مسائل مثلاً بد امنی، مہنگائی، اور حکومت کی بے حسی پر با آواز بلند تبصرہ کرنا شروع کردیں اور اس کے بعد آپ دیکھیں کہ ایسے ایسے تبصرے سامنے آئیں گے کہ الامان الحفیظ، ہر فرد اس میں بولنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن یہ نسخہ کم کامیاب ہے اس لیے کہ بس میں برسر اقتدار پارٹی کے افراد بھی موجود ہوتے ہیں اور وہ نہ صرف خود کچھ نہیں بولتے بلکہ دوسرے مسافروں کو بھی خاموش رہنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ دوسرا نسخہ زیادہ آزمودہ کار ہے وہ یہ کہ آپ بس کے ڈرائیور پر تنقید کرنا شروع کردیں۔ اگر ڈرائیور بس آہستہ چلا رہا ہے تو اس کو کہیں کہ “کیا مر مر کے گاڑی چلا رہا ہے بے“ یا اس طرح کہیں “ ابے بھائی جلدی چلا یار سو رہا ہے کیا ؟“ اور اگر وہ گاڑی تیز چلا رہا ہے تو اس پر ٹوک دیں کہ “ ابے کیا نشے میں ہے؟ یا “ او بھائی کس بات کی جلدی ہے انسانوں کی طرح گاڑی چلا بھائی کیا مارے گا ہم لوگوں کو؟ مذکورہ بالا جملے بس کے مسافروں میں مہمیز کا کام کریں گے، دفتر میں افسر اور گھر میں بیوی کی جھاڑ کھانے والے عوام اس بے چارے ڈرائیور کی کھنچائی کر کے اپنے غصے کو یہاں نکال دیں گے۔( یہ بھی نہ کریں تو بےچاروں کی زندگی عذاب نہ ہوجائے )

جس طرح بس میں ہر مزاج کے مسافر ہوتے ہیں اسی طرح ہر روٹ کی بس، اور اس کے ڈرائیور کا بھی الگ مزاج ہوتا ہے جیسے کہ روشن خیال بس! یہ وہ بس ہوتی ہے جس میں خواتین کے حصے میں مردوں کو بٹھانے کا رواج ہوتا ہے،اس قسم کی بسوں میں روٹ نمبر ڈبلیو گیارہ، خان کوچ، نیاز کوچ وغیرہ سر فہرست ہیں۔ یہ عمومی طور پر مرد و خواتین کی برابری کے قائل ہوتے ہیں اور لیڈیز کے حصے میں بھی مردوں کو بٹھاتے ہیں تاکہ ملک کا “ سافٹ امیج “ نمایاں ہوسکے۔ اس میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دیگر بسوں اور کوچز میں تو جگہ کی تنگی کے باعث ایسا کیا جاتا ہے لیکن ڈبلیو گیارہ میں اس کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ لوگ لیڈیز کے حصے میں تشریف رکھیں یعنی جیسے ہی بس اساٹپ پر رکتی ہے ( عموماَ ایسا کم ہی ہوتا ہے ) تو یہ فوراً مسافروں کو ترغیب دیں گے کہ جلدی بیٹھو ارے آگے بیٹھ جاؤ یار، اور اسطرح یہ لیڈیز کے حصے میں مردوں کو بٹھا کر روشن خیالی کا ثبوت دیتے ہیں۔البتہ اس معاملے میں خواتین کی رائے لینے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ آیا ان کو بھی یہ روشن خیالی پسند ہے یا نہیں، دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن ہم نے ایسے مواقع پر خواتین کے چہروں پر ناگواری کے اثرات ہی دیکھے ہیں۔

روشن خیالوں کی طرح قدامت پرست بسیں بھی ہوتی ہیں اور ان کے ڈرائیورز بھی اسی مزاج کے حامل ہوتے ہیں یہ وہ بسیں ہوتی ہیں جو ہر حال میں لیڈیز اور جینٹس حصوں کو الگ رکھتی ہیں۔ چاہے مردانہ حصہ کھچا کھچ بھرا ہوا ہو اور بس میں ایک بھی لیڈیز نہ ہو لیکن یہ اپنا اصول نہیں توڑتے اور زنانہ حصے میں مردانہ سواریاں نہیں بٹھاتے ہیں۔ ایسی بسیں اب خال خال ہی ہیں لیکن ہیں ضرور۔

اب آپ کو ایک الگ ہی قسم کی بس اور اس کے ڈرائیورز سے ملاتے ہیں اور یہ بس ہے روٹ نمبر “ سیون سی “ اس کے مسافر کٹر انتہا پسند ہوتے ہیں وہ ایسے کہ یہ زنانہ حصے میں کسی مرد کا وجود برداشت نہیں کرتے ہیں اور اس قدر شدت برتتے ہیں کہ اگر ان کے اختیار میں ہو تو مرد ڈرائیور کی جگہ خاتون بٹھا دیں لیکن ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔ یہ اس قدر شدت پسند ہیں کہ اگر ان کی گاڑی میں کوئی مرد مسافر زنانہ حصے میں بیٹھ جائے تو یہ ہر ممکن طریقے سے اس کو اس دراندازی سے باز رکھنے کو کوشش کریں گے، کنڈیکٹر اس مسافر کو بار بار پیچھے آنے کا کہے گا ( اور یہ کام کسی شریفانہ طریقے سے نہیں کرے گا) اگر مسافر زیادہ “ اڑی “ کرے گا تو بس ڈرائیور بھی مسافر کو ٹوکنا شروع کردے گا بلکہ اس کو بس سے تارنے سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔ اگر آپ روٹ نمبر سیون سی کے مستقل مسافر ہیں تو آپ کو اچھی طرح معلوم ہوگا کہ اس میں کس طرح سوار ہوا جاتا ہے اور اگر آپ اس بس کے مستقل مسافر نہیں ہیں تو ہم آپ کو متنبہ کرتے ہیں کہ اگر آپ جسمانی طور پر مکمل فٹ اور چاق و چوبند نہیں ہیں، تو اس بس میں سفر آپ کے لیے ناخوشگوار بھی ہوسکتا ہے، کیوں کہ یہ عموماً مسافروں کو گاڑی میں سوار کرتے اور اتارتے وقت گاڑی روکنے کی زحمت نہیں کرتے بلکہ اس کی رفتار معمولی سی کم کر دیتے ہیں اور اس میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ آپ سڑک کے بیچ میں ہیں، آپ کے آس پاس گاڑیاں ہیں، نہیں بلکہ یہ آپ کا درد سر ہے کہ آپ اس گاڑی سے کس طرح اترتے ہیں۔

لیکن قارئین بسیں اور اس کے ڈرائیورز چاہے روشن خیال ہوں یا قدامت پسند، مہذب ہوں یا اجڈ، دو باتیں ان سب میں مشترک ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ تمام لوگ خواتین کی وہ عزت نہیں کرتے اور نہ ان کو وہ احترام دیتے ہیں جس کی وہ مستحق ہیں۔ عموماً انکو بسوں میں نہیں بٹھایا جاتا، ان کو دیکھ کر گاڑی نہیں روکی جاتی ہے، ان کے کمپارٹمنٹ میں مردوں کو بٹھایا جاتا ہے، ان کے ساتھ بد تمیزی کی جاتی ہے۔ تمام خواتین عموماً اور ملازمت پیشہ خواتین خصوصاً اس صورتحال کا شکار ہوتی ہیں۔

دوسری بات جو سب میں مشترک ہے وہ یہ کہ مسافروں سے ان کا رویہ توہین آمیز ہوتا ہے، ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کوئی بزرگ ہے، پروفیسر ہے، تعلیم یافتہ نوجوان ہے، یا کوئی طالبعلم، کوئی مزدور پیشہ ہے یا کلرک، یہ تمام لوگوں کے ساتھ انتہائی بدتمیزی اور توہین آمیز سلوک کرتے ہیں ( سارے کنڈیکٹر ایسا نہیں کرتے لیکن اکثریت کا یہی حال ہے ) اگر غور کیا جائے تو اس کی وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ ایک بس میں پچیس سے پچاس تک مسافر ہوتے ہیں لیکن وہ سب انفرادی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ایک بس کا ڈرائیور اور کنڈیکٹر محض دو افراد نہیں ہوتے بلکہ وہ ایک یونین ہوتے ہیں انکے درمیان مکمل اتحاد اور ذہنی ہم آہنگی ہوتی ہے، تمام ٹرانسپورٹرز ایک دوسرے کا ہر جائز و ناجئز معاملے میں ساتھ دیتے ہیں۔ جبکہ مسافروں میں اس چیز کا فقدان ہوتا ہے، اگر کنڈیکٹر یا ڈرائیور کسی مسافر کی بے عزتی کرتا ہے تو دوسرے مسافر یہ سوچتے ہیں کہ ہم تو محفوظ ہیں اور کچھ ہی دیر کے بعد کنڈیکٹر دوسرے مسافروں کی بھی عزت افزائی کر رہا ہوتا ہے۔ اقوام عالم میں یہ بحثیت مسلم ہمارا یہی حال ہوتا ہے، دشمن ایک ایک ک رکے ہمیں لتاڑ رہا ہے اور ہم سوچتے ہیں کہ ہم تو محفوظ ہیں اور ملک میں بحیثیت قوم ہم یہ سوچتے ہیں کہ اگر کوئی مصیبت آئی ہے تو وہ دوسروں پر آئی ہے میں تو محفوظ ہوں لیکن کچھ دنوں کے بعد ہم بھی اسی مصیبت شکار ہوتے ہیں پتہ نہیں ہم کب متحد ہونگے اور کب اپنے ملک کو درپیش مسائل کے لیے ہم آواز ہوجائیں گے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520338 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More