ایک کشتی سمندر میں رواں دواں
تھی اور اس میں مختلف مذاہب و قومیتوں کے لوگ ہندو، سکھ، انگریز، مسلمان،
یہودی سوار تھے- کشتی بیچ سمندر کے پہنچتی ہے تو اچانک دور سے سمندری طوفان
آتا نظر آتا ہے- یہ دیکھ کر کشتی میں موجود لوگ رونے لگتے ہیں اور خوفزدہ
اور پریشان ہو جاتے ہیں اور اپنے اپنے مذاہب کے مطابق اللہ تعالٰی کے حضور
دعا کرتے ہیں اور گڑگڑاتے ہیں کہ ان کی کشتی سمندری طوفان سے محفوظ رہے اور
وہ بخیریت ساحل پر اتر سکیں- لیکن کشتی میں ایک انگریز شخص سمندری طوفان سے
یکسر بےخوف و قطع تعلق سمندر کا نظارہ کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ سگریٹ پی
رہا تھا- یہ دیکھ کر سب افراد نے اس سے کہا کہ کیا تم پاگل ہو، موت قریب آ
رہی ہے اور ایک تم ہو کہ بالکل ہی بےحسی کا مظاہرہ کر رہے ہو اور بڑے شوق
سے سگریٹ پی رہے ہو، تمہیں جان کی کوئی پرواہ نہیں، اپنی پرواہ نہ کرو لیکن
کم از کم اپنے خاندان، بیوی بچوں کو تو خیال کرو اگر تم سمندر میں ڈوب گئے
تو ان کا کیا ہو گا؟ یہ سن کر انگریز ہنسنے لگا اور بولا کہ میں اس لیے خوش
ہوں کہ سمندری طوفان ہماری کشتی تک نہیں آئے گا اور ہم ساحل پر ضرور اتریں
گے- یہ سن کر سب لوگ انگریز کو پاگل سمجھتے ہوئے اپنی اپنی عبادت میں مصروف
ہو گئے اور اللہ کے حضور اپنی خیرو عافیت کی دعائیں اور گناہوں کی معافی
مانگنے لگے- آخر کار طوفان تھم جاتا ہے اور سمندری طوفان سے کشتی بچ جاتی
ہے اور باحفاظت ساحل سے جا لگتی ہے- ساحل پر اترنے کے بعد کشتی کے مسافروں
نے انگریز کو موڈھوں پر اٹھا لیا اور اس سے عقیدت کے ساتھ بغلگیر ہونے لگے
جیسے کوئی ‘مرید‘ اپنے ‘مرشد‘ سے ہوتا ہے- اسی دوران ایک رپورٹر نے انگریز
سے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا تھا کہ کشتی بحفاظت ساحل پر پہنچ جائے گی
اور آپ کو کشتی میں ذرا سا بھی ڈر، خوف اور پریشانی کیوں محسوس نہ ہوئی؟
انگریز نے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا کہ کشتی کے ساحل پر پہنچنے کی
پیشگوئی میں نے اس لیے کی تھی کہ اگر تو کشتی ساحل پر پہنچ گئی تو میری
‘بلے بلے‘ ہو جائے گی اور اگر کشتی سمندری طوفان کی زد میں آ کر غرق ہو
جاتی تو ہم سب کشتی سواروں نے بھی سمندر کی آغوش میں ہمیشہ کی نیند سو جانا
تھا جس کے نتیجہ میں میری پیشگوئی نے ختم ہو جانا تھا کہ کوئی باقی ہی نہیں
بچنا تھا جو میری پیشگوئی کو ساحل تک لے آتا- سمندری طوفان سے خوف اور
پریشانی میں نے اس لیے محسوس نہیں کی کہ زندگی کے جتنے بھی لمحے میرے پاس
موجود ہیں ان کو زندگی ہی میں مار دینا زندہ مر جانے کے مترادف ہوتا ہے،
اگر مرنا ہی ہے تو پھر کیوں نہ ایک اور ‘سگریٹ‘ پی کر مرا جائے؟-
پریشانی و خوف کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم کسی آئندہ کے اندیشے کو خود پر
سوار کر لیں، جس کے نتیجہ میں ہم موجودہ خوشگوار لمحات کو وسوسوں اور وہموں
پر قربان کر دیتے ہیں- اب سوال یہ اٹھا کہ مستقبل کے لیے فکرمندی کرنا
‘منصوبہ بندی‘ میں شامل ہوتا ہے اور ایسا نہ کرنا ‘لاپروائی‘ کہلاتا ہے-
لیکن یہ سوال درست نہیں کیونکہ منصوبہ بندی میں پریشانی و خوف کا کوئی عنصر
شامل نہیں ہوتا، وہ تو بہتر مستقبل کی تیاری ہے- لیکن مستقبل کی خاطر حال
کو فنا کردینا بالکل دوسری بات ہے-
میری صحت دن بدن گرتی جا رہی ہے اگر میں نے صحت کا خیال نہ رکھا تو کسی وقت
بھی دوسرے جہاں اٹھ جاؤں گا- میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں مجھے موٹرسائیکل کی
بجائے بس پر آفس جانا چاہیے کیونکہ موٹرسائیکل بڑی خطرناک سواری ہے،
خداناخواستہ ایکسیڈنٹ ہو گیا تو کہیں میرے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم نہ ہو
جائیں- میرے والد کو ہیپاٹائیٹس سی ہے، وہ گھر میں اکلوتے کمانے والے ہیں،
اگر ان کو کچھ ہو گیا تو پتہ نہیں ہم پر کیا بیتے گی، شاید میں تنہائی اور
صدمے اور فاقوں سے مر جاؤں- عمر بڑھتی جا رہی ہے، جانے کب بیٹی کے ہاتھ
پیلے ہوں گے، کس کے پَلے بندھے گی؟ میں نے اپنی نوکری کی فکر نہ کی تو کسی
وقت بھی جواب مل جائے گا------ ایسے بےشمار سوالات ہیں جن کے باعث معاشرہ
کے اکثر افراد خوف، ڈر اور فکرمندی کی زندگی گذارتے ہیں اور لمحہ حال سے
بھرپور لطف اندوز ہونے سے معذور رہتے ہیں- حالانکہ بغور دیکھا جائے تو
زندگی دراصل ‘حال‘ ہی ہوتی ہے-
مشہور و معروف ماہرِ نفسیات ولیم جیمز کا کہنا ہے کہ کسی مشکل، مہم، مصیبت،
بیماری، یا مسئلہ سے نپٹنے کے لیے پہلا قدم اس مشکل کو تسلیم کرنا ہوتا ہے-
دیگر الفاظ میں جس فرد، بیماری یا حالات سے ہماری وابستگی ہے جس وجہ سے
ہمیں پریشانی کا سامنا ہے، اس وجہ سے، اس بیماری سے، اس فرد سے یا ان حالات
سے سب سے پہلے ہمیں اپنی جذباتی وابستگی ختم کرنی ہوگی اور یہی بات ہماری
ذہنی و روحانی یکسوئی، حواس کی بحالی اور سکون کے لیے ضروری ہے- جب ہمیں
کبھی ایسی مشکل کا سامنا کرنا پڑے تو مایوس ہونے کی بجائے ہمیں خود کو
حوصلہ دینا چاہیے اور اپنی قوتِ ارادی کو استعمال میں لا کر اپنے جذبات اور
ذہن کو قابو میں رکھنا چاہیے-
یہ تو ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ جس مریض کو تمام ڈاکٹر جواب دے جائیں، اس
سے ‘امید‘ معالج بن کر ہاتھ ملاتی ہے اور زندگی دلانے کا وعدہ کرتی ہے- کسی
ڈر، خوف، وسوسے، پریشانی، فکرمندی، وہم یا عدم یقینی کی حالت میں واحد چیز
امید ہوتی ہے جس کے سہارے ہم خوشیوں کے دیپ جلاتے ہیں، سنہرے سپنے آنکھوں
میں سجاتے ہیں، خوابوں کے محل بناتے ہیں- کبھی تو یہ محل، بکھرے ہوئے
خیالات جُڑ کر بناتے ہیں جبکہ بعض دفعہ سرد آہوں سے یہ محل بنتے ہیں- لیکن
ایک بات یقینی اور خوش آئند ہے کہ یہ محل اینٹ اور گارے کا کام ضرور دیتے
ہیں- جن لوگوں کی امید ٹوٹ جائے وہ اندر سے خود بھی ٹوٹ جاتے ہیں-
فرض کر لیا کہ خدانخواستہ خاندان کا سربراہ جو اکلوتا ‘کماؤ پوت‘ ہے اور جس
کے بچے بھی ابھی اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہوئے، وہ کسی ایسی سیریس بیماری
میں مبتلا ہو جاتا ہے جس سے نہ صرف خود اسکو بلکہ اسکے گھر والوں کو بھی
تشویش لاحق ہونا شروع ہو جاتی ہے تو اس صورت میں گھر کی خوشیاں رفوچکر ہو
جاتی ہیں، مختلف قسم کے ایسے عجیب وغریب اور اوٹ پٹانگ خیالات آنے لگتے ہیں
جن کا ابھی کوئی وجود ہی نہیں ہوتا، زندگی جہنم دن بہ دن بنتی جاتی ہے، نہ
دن کو سکھ نہ رات کو چین- ہر وقت ایک ہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ پتہ نہیں کب
کیا ہو جائے، اور اگر سچی مچی ہوگیا تو پھر پتہ نہیں ہم بہن بھائیوں کا کیا
ہوگا وغیرہ وغیرہ- ایسے خیالات، ایسی باتیں، ایسے وسوسے، ایسے وہم دراصل
کمزور و نابالغ و ناتجربہ کار و کم ہمت شخصیت میں ہی دیکھنے کو ملتے ہیں-
یہ سب لایعنی خیالات دراصل کم حوصلگی، ذہنی اور جذباتی صحت میں غیر ہم
آہنگی، بزدلی، کمزوری، اور حقیقت سے فرار کو واضح کرتے ہیں- اس قسم کے منفی
خیالات کا ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ فیملی ممبرز اپنی تمام صلاحیتوں کو
اسی ‘آہ و فغاں‘ میں ضائع کر دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں مریض کے علاج میں
بھی ‘چاق و چوبندی‘ کا مظاہرہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جب بندہ خود نڈھال ہو
وہ کسی دوسرے نڈھال کو کیا سہارا دے سکتا ہے؟ بات بالکل صاف ہے کہ اگر
توانائی کو تفکرات میں برباد کر دیا جائے تو موجودہ کام کے لیے اسکا
استعمال ناممکن ہو جائے گا-
ایک مریض نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ کیا یہ صحیح ہے کہ فکر کرنے سے انسان دمے کا
شکار ہو جاتا ہے؟ ڈاکٹر نے جواب دیا، یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ فکر کرنے
سے کوئی خاص بیماری لگ جاتی ہے، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ وہ کون سی بیماری
ہے جو غم و فکر کی پیداوار نہ ہو؟
پریشانی ایک زہر سے کم نہیں ہوتی، یہ ہماری صحت کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی
ہے، اس کے باعث زندگی اجیرن ہو جاتی ہے- یہ ہمارے لیے ایک مسلسل ناخوشی کا
باعث ہوتی ہے- ہر شخص کو تھوڑا سا خوف و ڈر و پریشانی فطرت کی طرف سے ورثے
میں ملتی ہے اور اس قسم کا خوف ہمارے تحفظ کے لیے ہوتا ہے یعنی زندگی میں
محتاط رہنا- سڑک عبور کرتے وقت حادثے کا خیال رکھنا، کسی وبا کے پھیلنے پر
ٹیکہ لگوانا، زخم پر مرہم لگانا وغیرہ وغیرہ قسم کے خوف کو مثبت خوف کہا
جاتا ہے- اور اگر ہم بالکل ہی بےخوف و خطر ہو جائیں تو زندگی کے حقیقی
خطرات سے خود کو بچا نہیں سکیں گے-
ایسے لوگ جو بہت جلد نروس ہو جاتے ہیں، چھوٹی چھوٹی باتوں سے حوصلہ کا دامن
چھوڑ بیٹھتے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اگر زندگی میں کوئی مصیبت،
کوئی مسئلہ، کوئی نئی مشکل، کوئی نئی مہم، کوئی نیا موڑ، کوئی اچانک بیماری
آ جائے تو اسکی شکایت کرنے کی بجائے، اس پر کفِ افسوس ملنے کی بجائے مردانہ
وار اس کا چیلنج قبول کرنا چاہیے اور اس مشکل کو بھی اسی طرح آسان بنا کر
گزر جانا چاہیے جس طرح اس سے پہلے اپنی زندگی میں مشکلات کو حل کر کے گزرتے
رہے ہوں- بلند سے بلند تر اور عظیم سے عظیم تر بننے کے اصول کو سامنے رکھیں
تو ‘پربت بن جائے رائی‘-
بغور دیکھا جائے تو مشکل کے دن آرام کے دنوں سے اچھے ہوتے ہیں- زندگی میں
اونچ نیچ کی لہریں چلتی رہیں تو زندگی میں حرکت رہتی ہے- خالی آرام تو لوہے
کو بھی زنگ لگا دیتا ہے- بیماری، مسائل، مصیبتیں بیدار کرنے کے لیے آتی ہیں
نہ کہ پریشان کرنے کے لیے- جب رات کے بعد ہی دن آتا ہے، جب کوئی شخص رات کی
ظلمتوں میں سے گزرے بغیر طلوعِ سحر کا نظارہ نہیں کر سکتا تو پھر پیش آنے
والے مسائل سے اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت؟ اتنا خوفزدہ ہونے کا کیا تُک
بنتا ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ آندھی کا کام چلتے رہنا نہیں ہوتا بلکہ چل کر تھم
جانا ہوتا ہے، آندھی اس لیئے آتی ہے کہ لوگ خاموشی کی قدر جان سکیں، اسی
طرح بیماری یا مسائل بھی اس لیئے آتے ہیں تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ ہم میں غلبہ
پانے کی کتنی قوت ہے، تسخیر کرنے کی کتنی صلاحیت ہے، ہم میں کتنی قوتِ
برداشت و عزم وحوصلہ ہے- چونکہ ہم اپنے ذہن میں جو تصویر اپنے بارے میں
بناتے ہیں، اگر یہ تصویر کافی عرصہ تک ہمارے ذہن میں رہے تو پھر ہم جلد
بالکل ایسے ہی بن جائیں گے جیسا کہ ہم سوچتے ہیں، اس لیئے ہم یہ کہنے میں
حق بجانب ہیں کہ زندگی صحتمند سوچ، مثبت خیالات، اور تندرست نظریئے ہی سے
بہتر و خوبصورت و خوشگوار بن سکتی ہے-
بعض لوگ چاہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ خوش و خرم رہیں، ہمیشہ جوان رہیں، ہمیشہ
مسائل سے بچے رہیں وغیرہ وغیرہ- ایسے لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ زندگی کی
سہہ پہر میں ہم اس طرح تو نہیں جی سکتے جیسے صبح کے وقت مگر خرابی یہ ہے کہ
ہم سمجھتے رہتے ہیں کہ شاید یہ اب بھی ممکن ہے- لیکن یہ کیسے ممکن ہو سکتا
ہے؟ عمر کی سہہ پہر عمر کی صبح کے حوالے سے بسر نہیں ہوتی کیونکہ جو صبح
تندرست و ہشاش بشاش و تروتازہ و جوان و چاق وچوبند تھا، شام کو وہ لاغر و
تھکا ہوا و کمزور و چھوٹا نظر ائے گا- جو آج جوان ہے وہ کل بوڑھا بھی ہو گا
لیکن حقیقت یہ ہے کہ بڑھاپا عمر سے نہیں ہوتا بلکہ جینے کی امنگ نہ رہے تو
اعضاء بوڑھے ہو جاتے ہیں-
حاصل کلام یہ کہ جوانی، حُسن، دولت، زندگی، حکومت اور عزیزوں کا ساتھ یہ وہ
چیزیں ہیں جو ہمیشہ نہیں رہتیں، لہذا ایک عقلمند کو ان کی فکر میں نہیں
پڑنا چاہیئے- انسانی زندگی ایک ‘محاذ‘ ہے اور تمام عمر زندگی کے نئے نئے
محاذوں پر کامیابی سے انسان میں لڑنے کی طاقت ضرور موجود ہے بس اس طاقت کو
‘دریافت‘ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے- اگر ہر محاذ پر فتح نہ بھی نصیب ہو تو پھر
لڑائی لڑ کر ہارنا نہ لڑنے سے کہیں بہتر ہے-
‘شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خُوب کیا‘ |