زمین اور خلاء

زمین
شمسی کا وہ واحد سیارہ ہے جہاں پر زندگی موجود ہے۔ پانی زمین کی 3­/­2 سطح کو ڈھکے ہوئے ہے۔ زمین کی بیرونی سطح پہاڑوں، ریت اور مٹی کی بنی ہوئی ہے۔ پہاڑ زمین کی سطح کا توازن برقرار رکھنے لے لئے بہت ضروری ہیں۔ اگر زمین کو خلا سے دیکھا جائے تو ہمیں سفید رنگ کے بڑے بڑے نشان نظر آئیں گے۔ یہ پانی سے بھرے بادل ہیں جو زمین کی فضا میں ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں سے ان بادلوں کی تعداد میں کمی آئی ہے جس کا اثر زمین کی فضا کو پڑتا ہے۔ ہماری زمین کا صرف ایک چاند ہے۔ زمین کا شمالی نصف کرہ زیادہ آباد ہے جبکہ جنوبی نصف کرہ میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ہیں۔ قطب شمالی اور قطب جنوبی پر چھ ماہ کا دن اور چھ ماہ کی رات رہتی ہے۔ عام دن اور رات کا دورانیہ چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے۔ زمین کی انسانی آبادی چھ ارب سے تجاوز کر چکی ہے۔ اور انسان اس پر ھمہ وقت جنگوں میں مصروف رہتے ہیں۔

تاریخ
سائنسدان جدید تحقیق کی بدولت زمین کے ماضی کے بارے میں اب تفصیلی معلومات رکھتے ہیں۔ زمین اور نظام شمسی کے دوسرے سیارے شمسی نیبیولا، جو سورج کی تشکیل کے بعد بچ جانے والے گرد و غبار اور گیسوں کی طشتری تھی، سے 4.57 ارب سال پہلے وجود میں آئے۔[1] آغاز میں زمین پگھلی ہوئی حالت میں تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ زمین کی فضا میں پانی جمع ہونا شروع ہو گیا اور اس کی سطح ٹھنڈی ہو کر ایک قرش(crust) کی شکل اختیار کر گئی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی چاند کی تشکیل ہوئی۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مریخ کی جسامت کا ایک جسم تھیا (Theia)، جس کی کمیت زمین کا دسواں حصہ تھی، زمین سے ٹکرایا اور اس تصادم کے نتیجے میں چاند کا وجود عمل میں آیا۔ اس جسم کا کچھ حصہ زمین کے ساتھ مدغم ہو گیا، کچھ حصہ الگ ہو کر خلا میں دور نکل گیا، اور کچھ الگ ہونے والا حصہ زمین کی ثقلی گرفت میں آگیا جس سے چاند کی تشکیل ہوئی۔

پگھلے ہوئے مادے سے گیسی اخراج اور آتش فشانی کے عمل سے زمین پر ابتدائی کرہ ہوا ظہور پذیر ہوا۔ آبی بخارات نے ٹھنڈا ہو کر مائع شکل اختیار کی اور اس طرح سمندروں کی تشکیل ہوئی۔ مذید پانی دمدار سیاروں کے ٹکرانے سے زمین پر پہنچا۔ اونچے درجہ حرارت پر ہونے والے کیمیائی عوامل سے ایک (self replicating) سالمہ (molecule) تقریباً 4 ارب سال قبل وجود میں آیا، اور اس کے تقریباً 50 کروڑ سال کے بعد زمین پر موجود تمام حیات کا جد امجد پیدا ہوا۔

ضیائی تالیف کے ارتقاء کے بعد زمین پر موجود حیات سورج کی توانائی کو براہ راست استعمال کرنے کے قابل ہو گئی۔ ضیائی تالیف سے پیدا ہونے والی آکسیجن فضاء میں جمع ہونا شروع ہو گئی اور کرہ ہوا کے بالائی حصے میں یہی آکسیجن اوزون (ozone) میں تبدیل ہونا شروع ہو گئی۔ چھوٹے خلیوں کے بڑے خلیوں میں ادغام سے پیچیدہ خلیوں کی تشکیل ہوئی جنھیں (eukaryotes) کہا جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ یک خلوی جانداروں کی بستیاں بڑی سے بڑی ہوتی گئیں، ان بستیوں میں خلیوں کا ایک دوسرے پر انحصار بڑھتا چلا گیا اور خلیے مختلف کاموں کے لئے مخصوص ہوتے چلے گئے۔ اس طرح کثیر خلوی جانداروں کا ارتقاء ہوا۔ زمین کی بالائی فضا میں پیدا ہونے والی اوزون (ozone) نے آہستہ آہستہ زمین کے گرد ایک حفاظتی حصار قائم کر لیا اور سورج کی بالائے بنفشی شعاعوں (ultra violet rays) کو زمین تک پہنچنے سے روک کر پوری زمین کو زندگی کے لئیے محفوظ بنا دیا۔ اس کے بعد زندگی زمین پر پوری طرح پھیل گئی۔

خلاصہ
سورج وہ ستارہ ہے جس پر نظام شمسی قائم ہے۔ زمین، دیگر سیارے، سیارچے اور کائناتی گرد اسی کے گرد گردش کرتے ہیں[1]۔ سورج کی کمیت نظام شمسی کی کل کمیت کا تقریباً 99.8 فیصد ہے۔ زمین پر زندگی کی رنگارنگی اور موسموں کا تغیر سورج سے روشنی کی شکل میں خارج ہونے والی توانائی ہی کے مرہون منت ہے۔ پودے اس توانائی کو ضیائی تالیف کے ذریعے خوراک میں تبدیل کرتے ہیں جو تمام دیگر حیات کو بھی زندہ رکھتی ہے۔

سورج ستاروں کی جماعت G2V میں آتا ہے، یعنی اس کی سطح کا درجہ حرارت تقریبا 5,780 کیلون ہے اور رنگ سفید ہے، جو اکثر فضاء میں روشنی کے انتشار کے باعث زردی مائل نظر آتا ہے۔ آسمان کا نیلا رنگ بھی اسی انتشار کے باعث ہے۔ جب سورج آسمان میں کافی نیچے ہوتا ہے، یعنی طلوع ہونے کے فورا بعد یا ڈھلنے سے پہلے، تو روشنی کے انتشار کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور سورج نارنجی یا سرخ نظر آتا ہے۔

سورج کی عمر
ہمارا سورج ادنیٰ درجے کا ایک ستارہ ہے۔ اس جسامت کے ستارے کی عمر اوسطا 9 ارب سال ہوتی ہے۔ ہمارا سورج اپنی نصف عمر یعنی ساڑھے چار ارب سال گزار چکا ہے اور مزید ساڑھے چار ارب سال گزارنے کے بعد پہلے بے تحاشا پھولے گا اور پھر اس کے بعد سکڑ کر مر جائے گا۔

کہکشاں
کہکشاں (انگریزی: Galaxy) اصل میں ایک نہایت بڑا کائناتی جسم ہوتا ہے جو کہ ثقلی بندھن میں مربوط مختلف اجسام ، جیسے ستاروں، بین النجمی واسطہ اور تاریک مادے پر مشتمل ہوتی ہے۔ سائنس دانوں اور ماہرین نجوم نے کہکشاں کو کائنات کے جزیروں سے تشبیہ دی ہے۔ بالفاظ دیگر یہ ستاروں کا ایک ایسا نظام ہوتا ہے جس میں کئی مختلف نظام شمسی ہو سکتے ہیں۔ ہئیت دانوں کا اندازہ ہے کی اس میں ایک کروڑ ستاروں تک کی گنجائش ہو سکتی ہے۔ اینڈرومیڈا ہمارے سے قریب ترین کہکشاں ہے۔ یہ بیس لاکھ نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔

دم دار سیارے
دم دار ستارے Cometsہیل بوپ ، ایک دم دار سیارہ یا comet دم دار ستاروں کا انگریزی لفظ کامٹ یونانی لفظ کوم kome سے ماخوذ ہے۔ جس کا مطلب ہے بال۔

یہ بھی اجرام فلکی کا حصہ ہیں۔ یہ نسبتا چھوٹے چھوٹے ذرات سے تشکیل پاتے ہیں۔ اور ان کے گرد گیسی غلاف ہوتا ہے۔ چند دم دار ستارے سورج کے گرد مختصر وقت میں چکر لگا لتے ہیں۔ لیکن وقفے کے ساتھ برہنہ آنکھ naked eye سے نطر آنے والا دمدار ستارہ "ہیلی" ہے۔ یہ ہر 76 برس بعد اپنے مدار میں زمین کے قریب ترین آتا ہے۔ اسے برطانوی ماہر فلکیات ایڈمنڈ ہیلی (1742 تا 1656) کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس کی پیش گوئی کے مطابق یہ ستارہ 1759 میں نظر آیا تھا۔
Tahira Inam
About the Author: Tahira Inam Read More Articles by Tahira Inam: 21 Articles with 225839 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.