شاہ زیب کے قاتلوں کو معافی درست یا غلط ؟

پاکستان میں اول تو قاتل پکڑے ہی نہیں جاتے ہیں اور شومئ قسمت وہ قانون کے ہاتھوں گرفتار ہو بھی جائیں تو انکی سزا کا عمل اس قدر سست روی کا شکار ہوجاتا ہے کہ انصاف کے تقاضے پوری کرتے کرتے انکی عمر بیت جاتی ہے یا پھر قانون کے رکھوالے حضرات کی مہربانی سے وہ سزا سے بچ جاتے ہیں کہ انہوں نے جو کاروائی کی ہوتی ہے وہ اس قابل ہوتی ہے کہ ایسے قاتل حضرات کو باعزت رہا کر دیا جائے اور اگر انکی قسمت ہی خراب ہو تو پھر وہ قانون کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں مگر قاتل پھانسی گھاٹ کے سفر سے قبل ہی اسلامی قانون دیت کو استعمال کرتے ہوئے اپنی جان بچا لیتے ہیں۔اس میں یقینا با اثر حضرات کی جانب سے مخالف فریق کو پیسہ کے روز پر پورے گھرانے کو صفحہ ہستی سے مٹانے اور دیگر خطرناک نتائج کی دھمکیاں بھی پس پردہ شامل ہوتی ہیں اور مخالف فریق کمزور ہونے کی وجہ سے ایک شخص کے مر جانے بعد دیگر کی جان کے تحفظ کی خاطر دیت مجبورا قبول کر لیتا ہے بالکل ایسا ہی شاہ زیب قتل کیس میں ہوا ہے۔

اس بارے میں بحث کرنا کہ شاہ زیب کے والدین نے درست فیصلہ کیا ہے یا غلط ؟ اس بات سے قطع نظر ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارے ہاں جس قدر قانون کی حکمرانی ہے وہ سب جانتے ہیں کہ جس کے پاس پیسہ ہے وہ اس ملک میں کچھ بھی کر اور کروا سکتا ہے اور غریب ٹیکس ادا کر کر کے بھی اس ملک میں اپنی جان کی حفاظت کے لئے حکومت کو نہیں کہا سکتا ہے کہ ان کے پاس جتنے بھی وسائل ہیں وہ محض سیاست دانوں کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں اگر عوام کی بھلائی مقصود ہوتی تو دہشت گردی کرنے والے ناسوروں کو اب تک پکڑ کر کیفر کردار تک پہنچایا جا چکا ہوتا مگر جناب یہاں تو سچ بولنے والوں اور اپنے حق کی بات کرنے والوں کو ہی یا تو غائب کر دیا جاتا ہے یا پھر ایسے نتائج کی بابت آگاہ کیا جاتا ہے کہ وہ اس ملک میں رہنا ہی اپنی تذلیل سمجھتا ہے؟ آپ یہی دیکھ لیجئے کہ شاہ زیب کے خاندان کے لوگ سننے میں آیا ہے کہ باہر منتقل ہو رہے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ یہاں رہ کر ایسا فیصلہ کر کے دوسروں کی نظر میں ہمیشہ کے گر گئے ہیں۔ میں نے سوشل میڈیا پھر کچھ لوگوںکی رائے دیکھی ہے وہ کہتے ہیں کہ شاہ زیب کے قاتلوں میں اب اس کے والدین بھی شامل ہو گئے ہیں؟

جہاںتک مجرموں کو معاف کرنے کی بات ہے تو اسلام نے اس سلسلے میں اجازت دی ہوئی ہے اور کوئی بھی اس قانون کے تحت کسی کو بھی معاف کرنے کا حق رکھتا ہے مگر جناب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ایسا کرنا اب ضروری ہو گیا تھا تو پہلے ہی کیوں نہ معاف کر دیا گیا تھا؟ کسی کو معاف کرنا بھی بہت کچھ سوچ سمجھ کرکرنا چاہیے اگر وہ ایسا رحجان رکھتا ہو کہ وہ بعد میں بھی کچھ ایسا ویسا کر سکتا ہے تو ایسے شخص کو معاف کرنا جو کہ قتل کے بعد مسکرا کر وکٹری کا نشان بنا رہا ہو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے فعل پر نادم نہیں ہے اور ایسا کرنا ایک جنگلی جانور کو جو زخمی ہو گیا ہو پھر سے جنگل میں چھوڑ دینے کے مترادف ہے جو کہ زخمی ہو کر اور زیادہ درندگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے اور ایسے بہت سے نوجوانوں کو جو وڈیروں کے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں کو اس بات کی جانب اکسا سکتا ہے کہ وہ کچھ بھی کر لیں پیسہ دے کر بچ جائیں گے کوئی مائی کا لعل انکو ان کے کئے کی سزا نہیں دے سکتا ہے۔

قتل کی سزا تو چلو مان لیں کہ معاف کر دی گئ ہے مگر باہر غیر قانونی ذریعے سے جانے کی سزا تو قابل گرفت ہے، اس بارے میں متعلقہ اداروں کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اس معاملے مٰیں اس کو سزا دیں محض کسی نامی گرامی شخص کے فرزند ہونے کی وجہ سے چھوڑنے کو کافی مت سمجھیں۔اسلام کے نام کو ایسے ہی لوگ بدنام کر رہے ہیں جو اپنے مفاد کی خاطر اس کو استعمال کرتے ہیں۔ کچھ دن پہلے اسلام آباد میں سکندر نے اس کا سہارا لیا تھا اور اب شاہ زیب اور اسکے قاتل کے والدین نے لے کر اس تصور کو او ر پکا کر دیا ہے جو کہ ایک زمانے میں ایک امریکی نے پاکستانی قوم کے بارے میں کہا تھا کہ یہ پیسے لے کر کچھ بھی کر سکتے ہیں ماں تک کو بیچ سکتے ہیں؟

جس ملک میں پیسے کے زور پر سب کچھ ہوتا ہو وہاں ایسے روز واقعات پیش آتے ہیں جب تک ہمارے ملک میں قانون کی حکمرانی اور لوگوں میں خوف خدا پیدا نہیں ہوگا اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے ۔جب تک لوگ خدا سے زیادہ لوگوں سے ڈریں گے وہ کبھی سر اُٹھا کر نہیں جی سکیں گے کہ اور لوگ انکو سرجھکانے پر مجبور کرتے رہیں گے مگر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ جہاں بہنوں کا بھائی چلا جائے اور وہ محض باپ او ر ماں کے سہارے پر ہوں تو والدین ایسے فیصلے بہت سوچ سمجھ کر دل پر پتھر رکھ کر لیتے ہیں کہ کل کلاں کو ان پر کوئی اور حرف نہ آئے سمجھے والے سمجھ سکتے ہیں کہ بات کیا کہنا چاہ رہا ہوں۔

ایک بات میں آخر میں والدین سے بھی کہنا چاہوں گا کہ وہ اپنے بچوں کی اسلام کے حقیقی اصولوں کے مطابق ان کی تربیت کریں اور تحمل و برداشت کا زندگی کے ہر معاملے مظاہر ہ کریں تو بہت سے مسائل سے بچ سکتے ہیں۔کسی بھی لمحے کی جذباتی غلطی عمر بھر کا پچھتاوا بن سکتی ہے۔اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے او ر حق پر کھڑا رہنے اور بولنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 522882 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More