قانون قدرت اور انسانی اختیار

آج صبح 4:30بروز جمعہ،6ستمبر 2013میں زندہ ہوں، الحمدللہ۔ یہ زندگی ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ بلاشک و شبہ میں ایک صدی پہلے اسی تاریخ 6ستمبر 1913کو اس دنیا میں موجود نہیں تھا، اور یقینا ایک صدی بعد 6ستمبر 2113 کو اس دنیا میں موجود نہیں ہوں گا۔

غور کریں تو یوں سمجھ آتی ہے کہ تمام انسانیت کی طرح ہمارے اوپر بھی ایک وقت ایسا گزرا جب ہم کچھ بھی نہ تھے، پھر ایک وقتِ مخصوص یا زمانہ میں جب اللہ نے چاہا تو پیدائش ہوئی، مرد ہونگے یا عورت، یہ سلیکشن بھی اوپر سے کر کے بھیج دیا گیا، اور کچھ وقت،زمانہ یا عرصہ گزارنے کے بعد یہ زندگی واپس لے لی جائے گی۔

۱۔ گویا یہ قانون ِ خداوندی ہے کہ وہ ایک قوم کے بعد دوسرے قوم یاامت نازل (پیدا)کرتا ہے۔ اس سے کام لیتا ہے ان میں سے کچھ امیر، کچھ غریب کچھ فوجی،کچھ تاجر،دانشور،مذہبی اور کچھ انتہائی غریب ہر طرح کے لوگ ہر دور اور ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔

۲۔ پھر دوسری تقسیم میں ہمیں یہ اختیار نہیں کہ ہم عرب کے شیخ گھرانے میں پیدا ہوں یااٹلی کی کسی طوائف کے گھر۔ پاکستان کے کسی چوہدری، ملک یا میمن کے گھرانے میں یا کسی روسی، جاپانی یا برطانوی شہزادے کی صورت میں جنم لیں، مرد ہوں یاعورت کاروپ ملے، یہ ساری تقسیم بھی اللہ کی ہے اور ساری دنیا کے تمام بچوں اور انسانوں کے لیے یہی قانون قدرت ہے۔

۳۔ اب ہم زندہ اور موجود ہیں کسی بھی ملک میں کسی بھی خاندان، نام اور زبان کے ساتھ تو اگلا قانون یہ سمجھ میں آتاہے کہ چل میرے آدم کے بیٹے اب ہمت کر، جو کچھ میں نے تجھے بنا دیا اب اس پر صبر کر، رونہیں، خوشی منا، اور میری حکمت، سلیکشن،چوائس کے خلاف نہ بول، شور نہ کر اور چپ کر کے اپنے حصے کاکام کر۔

۴۔ یا اللہ، اے God، ایشور،میرے دیوتا (ہر مذہب، زبان، تہذیب،مسلک اور ہر انسان کا ایک نہ ایک رب یا اللہ، الٰہ ضرورہوتاہے)جہاں جس کی پیدائش کی گئی اور اسے وہاں ماحول اور تعلیم ملی وہ اسی رنگ میں رنگ گیا۔ کوئی مسلمان، کوئی یہودی، عیسائی، بدھ اور کچھ نے تو رب کی ذات کو ماننے سے ہی انکار کر دیا۔مگر یہ رب سب کا رب ہے وہی ہے جو ”رب العالمین“ہے۔

۵۔ چلیں مان لیا، تسلیم کر لیا دنیا کے ہر انسان نے کہ وہ پیداہو چکا ہے، بیسویں صدی اپنے نئی ترقیوں کے ساتھ چل رہی ہے اور ہم اس صدی کے آغاز میں میدا ن میں اتار دیے گئے ہیں، اور ہم اس وقت پاکستان کے ایک عدد مرد شہری ہیں تو کیا کریں؟۔اب علم حاصل کرو،اب نیند سے جاگواور پڑھو، تم سے پہلے کون کون آیا، کہاں کہاں آیا، کتنی تہذیبیں، کتنے انبیاء، کتنے فرعون،کافربدترین اور چور، ڈاکو، سائنسدان، اور مفکرین ارسطو، لقمان ہم نے پیدا کئے۔ اس دنیا کے نظام ِفطرت، نظام سیاست، معاشرت، حکمت و حکومت، کو پڑھو، سمجھو، یہ سورج کی گردش یہ دن رات، چاند ستارے، یہ غربتیں، عیاشیاں، زمین پر انسانوں کا جم غفیر کیا کر رہا ہے اس پر سوچو، غور و فکر کرو، مگر جلدی کروکہ تمہارا وقت مختصر ہے۔

۶۔ یا رب یہ کیا بنا دیا؟، کہا ں پھنسا دیا، گویا جب ہم پیدا ہوئے، سوچنا شروع کیا، سمجھ آنے لگی تو اپنے رب سے ہی جھگڑ پڑتے ہیں سب۔کبھی دل ہی دل میں، تو کبھی ماں باپ، اپنے استادوں، پروفیسروں اور مذہبی علماء سے پوچھتے ہیں کہ یہ کیا ہے اور کیوں ہے، یہ نا انصافی کیوں ہے، دنیامیں غربت اور جنگیں کیوں ہیں، یہ مارا ماری اور عیش و عشرت کیوں ہے۔

دیکھئے یہ سارا علم اور سمجھ ہی کا فتور ہوا نا،کہ سمجھ آئی تو چیخیں نکل گئیں۔ اپنی اسی انسانی کیفیت و حالت کو اللہ کی کتاب میں لکھا دیکھا تو چپ لگ گئی کہ ہماری تو نیچر ہی ایسی ہے۔ جب چپ لگی تو رب، Godیا ایشور نے پکارا کے اے آدم کے بیٹے اٹھ اور میرے نظام کو سمجھ، کمر کس اور کھڑا ہو جا وہ کر جو میں چاہتا ہوں،میری حکمت کو چیلنج نہ کر اور وہی کر جو مجھے تجھ سے کام لینا ہے۔ تمہارا وقت اور حالات مخصوص ہیں، الگ ہیں تمہیں ہم نے نیا میدا ن، نیا ماحول دیا ہے، اب اپنی سمجھ استعمال کر، اور ہماری مشیت پوری کر۔

۷۔ اب دنیا کا ہر انسان اٹھے گا، اگر اب بھی نہ اٹھا تو خدا یا فطرت اسے زبردستی اٹھا ئے گئی، اٹھنے پر مجبور کرئے گی، اگر انسان خدا کے نام، تصور اور وجود سے ہی انکار کر دے، اور مذہب کو پس پشت ڈال دے،نماز،روزہ اورمذہب کی تمام حدیں بھول جائے، پھر بھی اسے اٹھنا ہوگا، اسے پیٹ کی خاطر کام کر نا ہوگا،وہ پڑھے گا، اپنے بچوں کو پڑھا ئے گا، سکھائے گا، پیٹ کے لیے وہ ڈاکٹر، وکیل،سائنسدان، وزیر بنے گا اور یوں خد کی مشیت اور مرضی پوری ہوگی۔ یہ ہے نظام قدرت۔

گویا ضرورزبردستی اور اپنی مرضی کے خلاف جب ہم پیدا کر دئیے گئے تو اسی کو مان لیں، راضی رہیں، سمجھیں اور کام کریں، ہمت کریں اور فضو ل سوچنے کے بجائے جب تک زندہ ہیں زندہ رہنے اور زندگی میں خوشیاں بھرنے کی جستجوں و اہتمام کریں۔

آج پیارے پاکستان کے حالات سخت خراب ہیں، کراچی کے حالات درست کرنے کیلئے ذولفقار چیمہ کا نام لیا گیا تو تمام سیاسی پارٹیاں چیخ پڑیں کہ وہ تو بڑا سخت انسان ہے۔ بھئی سخت ہے تو سختی کرنے سے سکون کس کو ملے گا؟ ہم شہر والوں کو ہی آئے گا۔ مجھے یہ سن کر بے اختیار حضرت عمر فاروق ؓ یا د آنے لگے کہ جن کی سختی تو مشہور ہے اور اسی سختی سے ہی مسلمان معاشرہ سیدھا رہتا ہے، امن و سکون ہو تو رب کی عبادت اور مخلوق کی خدمت ہوگی۔ یاد رکھیں حکمران یا کسی محکمے کا افسر جب بااختیار ہوگا اور اسے اپنے کام کو پرفیشنل طریقے سے کرنے کی پوری اجازت ہوگی تب ہی وہ کوئی اعلیٰ کارکردگی کا مظاہر کر پا ئے گا۔ آپ ؓ ایک بااختیار خلیفہ تھے اور خالد بن ولیدؓ جیسے بڑے فوجی کمانڈر کو ایک ہی حکم کے تحت معطل کر دیا تھا۔اور انھیں بھی اپنے خلیفہ کا یہ حکم ماننے میں ذرا بھی تامل نہ ہوا۔ اسلام کا یہ مشہور سبق ہمیں یا د دلاتا ہے کہ اس طرح کا اختیار اور قوت جب کسی بھی باہمت اور نڈر ذولفقار چیمہ کو دیا جائے گا تب ہی یہ گند ختم ہوگا اور ملک سکون کا سانس لے گا۔

آج ا قربا پروری اور سب کو خوش رکھنے کی جو سیاست چل رہی ہے یہ کسی بھی طرح سے ٹھیک نہیں، کالی بھیڑیں، جسد انسانی میں اس زخم کی طرح ہوتی ہے جس کو کاٹ پھینکنے سے ہی پورا جسم سکون پاتا ہے۔

Abdul Majid
About the Author: Abdul Majid Read More Articles by Abdul Majid : 3 Articles with 7133 views Hello All, Abdul Majid here, i am writing for www.hamariweb.com, and other users. .. View More