پاکستان اس وقت جس صورتحال سے گزر رہا ہے وہ انتہائی کرب ناک ہے ۔کوئی
انقلاب کی باتیں کرتا ہے تو کوئی سونامی کی کسی کا کہنا ہے جمہوریت بہترین
انتقام ہے توکوئی تبدیلی لانا چاہتا ہے ۔ باتیں تو سب کی ان کے خیالات کے
مطابق درست ہیں لیکن ان تمام رائے کا داومدار تعلیم ہے اور تعلیم کے بغیر
سب باتیں صرف کہنے اور دیکھنے کی حد تک درست ہیں ۔ اس بات پر اختلاف نہیں
ہوگا کہ علم کی روشنی جہاں ہو گی وہاں سے تاریکی ختم ہو جائے گی ۔ میں
سیاسی جماعتوں کے سربراہوں اور رہنماؤں کو کہنا چاہوں گااگر پاکستان کے
حالات درست کرنا ہیں تو تعلیم کو عام کرنا ہوگا ۔ ہمارے ملک میں ہر محکمہ
میں کرپشن کا بازار گرم ہے محکمہ تعلیم بھی کرپشن کی نذر ہوچکا ہے ۔پاکستان
میں مخلوط نظام تعلیم 3حصوں میں رائج ہے ۔اپر کلاس، مڈل کلاس ، لوئز کلاس،
اپر کلاس کی بات کریں تو 5فیصد یعنی جاگیر دار ، وڈیرے ، سیاست دان ،
بیوروکریٹ ، جرنیلوں کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ جب کے مڈل کلاس میں
پرائیویٹ سکولز و کالجز ہیں اور جو سرکاری کالجز ہیں تو وہاں نششتیں اتنی
کم ہوتی ہیں کہ طالبعلم ایڈمیشن نہیں لے سکتے اور جب لے لیں تو سیکنڈ شفٹ
میں ملتا ہے جو پرائیویٹ کالجوں کے فیسوں کے برابر ہے ، گزشتہ دور حکومت
میں چوہدری پرویز الہی سابق وزیر اعلی پنجاب نے دونوں شفٹ کی فیس ایک ہی
رکھی تھی جبکہ موجودہ وزیر اعلی پنجاب نے سرکاری عمارتوں کو سیکنڈشفٹ ٹھیکے
میں دے رکھا ہے ۔ پرائیویٹ سکولوں اور کالجز کو عام طبقات کو دونوں ہاتھوں
سے لوٹنے کیلئے سرکاری تصدیق شدہ لائسنس دے رکھے ہیں وہاں توویلفئیر اور
لوڈ شیڈنگ فیول کے نام پر روپے وصول کئے جاتے ہیں اور کتابوں کی قیمتیں بھی
آسمان سے باتیں کرتی ہیں ۔ ان سکولوں کی یہ حالت ہے کہ موسم گرما کی چھٹیوں
کی فیس اور ٹرانسپورٹ کا کرایہ بھی وصول کیاجاتا ہے ورنہ نام خارج کر دیا
جاتا ہے ۔ آخر میں میں اس طبقہ کی بات کروں کا جس کا کوئی پرسان حال نہیں ۔سرکاری
کاغذات میں سکول موجود ہیں لیکن تعلیم نام کی کوئی چیز نہیں ۔ اساتذہ کو
تنخواہ اور دیگر واجبات مل رہے ہیں لیکن ڈیوٹی کہیں اوردے رہے ہیں ۔ جہاں
ایک سرکاری سکول میں طلبہ کی تعداد 1500تا 1800ہوتی تھی اب اسی سکول میں
طلبا کی تعداد 300تا400رہ گئی ہے ۔ میری ایک دن سرکاری سکول کے ہیڈ ماسٹر
سے گفتگو ہوئی تو ان کا کہنا تھاکہ الیکشن ڈیوٹی ، مردم شماری ، ڈینگی کے
خاتمہ ، سیلاب زدگان کی امداد، اور دیگر موقعوں پر اساتذہ کی ڈیوٹی لگائی
جاتی ہے اور اس کے بعد اساتذہ اکرام سے پوچھا جاتا ہے کہ سرکاری سکولوں کا
رزلٹ اچھا کیوں نہیں آیا اگر ڈیوٹیاں نہ لگائی جائیں تو تعلیمی کارکردگی
بہتر ہوسکتی ہے۔ تو ان سرکاری ملازمیں کی لگائی جائیں جو دفاتر میں بیٹھ کر
رشوت لیتے ہیں جس کے سامنے پڑی فائلوں پر مٹی جم چکی ہوئی ہے آخر حکومت
اساتذہ سے کیا چاہتی ہے ۔ اس حالا ت میں یوں کہا جاسکتا ہے ۔حکومت تعلیمی
معاملات میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے دوسری طرف وزیر اعلی پنجاب
میاں شہبا زشریف نے تعلیم کو عام کرنے کے لئے پنجاب اسمبلی میں کئی بلوں کی
منظوری کر وائی اور اسی منظوری کے تحت پنجاب میں دانش سکولز کا قیام عمل
میں لایا گیا لیکن بیوروکریسی نے اس کو ناکام بنانے کیلئے کلیدی کردار ادا
کیا ۔ کیا وزیر اعلی پنجاب کو تعلیم دشمن آفیسران نظر نہیں آتے ۔اس کیلئے
کون ذمہ دار ہے ؟ کیا پڑھا لکھا پاکستان بن سکتا ہے ؟ یقینا یہ دہلی دور
است والی مثال ہے - |