پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی
ہے ۔۔۔کراچی ملکی معیشت میں ریڑ کی ہڈی کی اہمیت رکھتاہے ۔۔۔ کراچی شہر
پچھلے تین دہائیوں سے مختلف مسائل کی زد میں ہے۔۔۔مسائل آسیب کی صورت اسے
گھیرے ہوئے ہیں ان کی نوعیت مختلف قسم کی ہے۔۔۔دنیا آج جس دہشت گردی کی زد
میں ہے۔۔۔کراچی شہر اس دہشت گردی کی زد میں پچھلے تیس پینتیس برسوں سے
مبتلا ہے۔۔۔انتہائی اقدامات کے باوجود حالات قابو میں آتے نہیں دیکھائی
دیتے۔۔۔دیگر مسائل اپنی جگہ ہیں ان سے نمٹنے کیلئے حکومتی ادارے گاہے بگاہے
سر جوڑ کہ بیٹھتے رہتے ہیں۔۔۔جیساکہ آجکل دہشت گردی سے نمٹنے کی کوئی حتمی
شکل سامنے آنے والی ہے۔۔۔
کراچی کے مسائل کی فہرست مرتب کی جائے تو یہ طے کرنا مشکل ہوگا کہ اول نمبر
پر کونسا مسلۂ رکھا جائے۔۔۔کراچی کا معمول کا سب سے بڑا بلکہ دیو ہیکل مسلۂ
ٹریفک کا ہے۔۔۔کراچی کی چار چار لین کی سڑکوں پر گاڑیوں کا بے ہنگم ازدھام
ہر وقت رینگتا نظر آتاہے۔۔۔گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہنا کراچی کہ شہریوں کہ
لئے معمول کی بات ہے۔۔۔یہ الزام کسی مخصوص سواری کہ سر دھرنا ٹھیک
نہیں۔۔۔سواری کوئی بھی ہو سوار تو ہم اور آپ ہی ہیں۔۔۔یہاں یہ بات قابلِ
ذکر ہے کہ محترم جناب سید مصطفی کمال صاحب کے مرہونِ منت کراچی کی سڑکیں
چوڑی ہوئیں ، پل تعمیر ہوئے اور انڈر پاسس بنوائے گئے۔۔۔آپ کی ان خدمات کہ
اہلیانِ کراچی تہہ دل سے مشکور و ممنون ہیں ۔۔۔ورنہ اس ٹریفک کا کیا ہوتا
سوچ کر خوف آتا ہے۔۔۔ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایک ذمہ دار اور معزز شہری
ہونے کی ہم میں کوئی صلاحیت موجود ہے۔۔۔اور ہم اپنے کردار سے ایسی کوئی
عکاسی کر رہے ہیں۔۔۔جس سے معاشرے پر کوئی مثبت اثرات رونما ہوں۔۔۔ہمارا
تبدیلی کی جانب اٹھایا گیا کوئی قدم اپنی آنے والی نسل کہ لئے ہے۔۔۔
قارئین ! ہم میں سے اکثریت کہ بچے اسکول جانے کہ لئے ٹرانسپورٹ کا استعمال
کرتے ہیں۔۔۔ہم اپنے دفاتر تک پہنچنے کیلئے ٹراسپورٹ استعمال کرتے
ہیں۔۔۔پبلک ٹرانسپورٹ اس سے ذرا ہٹ کرہے ۔۔۔کیا ہم نے کبھی ٹرانسپورٹ کہ
حوالے سے کوئی شکایت نوٹ کی یا کرائی ؟۔۔۔یا ہم نے ٹرانسپور ٹرز کو کوئی
مثبت بات بتائی۔۔۔شائد نہیں۔۔۔پچھلے دنوں کوٹ ادو نامی شہر میں ایک اسکول
وین میں نصب سی این جی کا سلینڈر پھٹ جانے کہ باعث کتنے معصوم بچے لقمہ اجل
بن گئے۔۔۔کتنی ماؤں کے چشم و چراغ جلنے سے پہلے ہی گل ہوگئے (اﷲ ان لواحقین
کو صبرِ جمیل عطاء فرمائے ۔ آمین)۔۔۔ان بچوں نے ابھی دنیا میں کیا دیکھا
تھا۔۔۔انہیں کیا معلوم تھا کہ سلنڈر پھٹ سکتا ہے یا نہیں۔۔۔اس سلنڈر کی وجہ
سے وہ اپنی انمول زندگیا ں گوادینگے۔۔۔مگر ہمیں تو پتہ ہے۔۔۔زندگی کہ انمول
ہونے کا بھی اور سلنڈر کہ پھٹنے سے ہونے والے نقصانات کا بھی۔۔۔کیا ہم نے
کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ جو ڈرائیور حضرات ان فرائض کو نبھانے کہ لئے
منتخب کئے گئے ہیں وہ کسی نشے کے عادی تو نہیں ۔۔۔کیا وہ جس گاڑی پر معمور
ہیں وہ اس کی باقاعدہ جانچ پڑتال کرتے ہیں یا نہیں۔۔۔یقینا کرتے ہونگے۔۔۔
مگر اسکو اس با ت کا احساس دلایا جاتاہے کہ وہ کتنی اہم ذمہ داری نبھانے کہ
لئے چنے گئے ہیں ۔۔۔وہ مستقبل کہ معماروں کو ان کی طلب اور پیاس کا کے
درمیان ایک کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔۔۔
اس مضمون کے ذریعے میں تمام اسکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں ، مل مالکا ن
اور تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے ذمہ داران اور فردِ واحد سے یہ
استدعا کرنا چاہونگا کہ وہ اپنی اپنی جگہ اپنے ٹرانسپورٹ کہ ادارے کوازسرِ
نو تشکیل دیں۔۔۔جس کہ لئے درجہ ذیل کچھ تجاویز پیش ہیں۔۔۔
۱) ڈرائیور حضرات کو ان کی فرائض کہ حوالے سے آگاہ کیا جائے۔۔انہیں یہ باور
کرایا جائے کہ وہ کتنے اہم کام پر معمور ہیں۔۔۔
۲) زیرِ استعمال گاڑیوں کی باقاعدہ دیکھ بھال کی رپورٹ لیں۔۔۔
۳) ٹریفک کہ اصولوں پر سختی سے عمل کرنے کا عہد لیا جائے(جیسے سگنل پر وہاں
رکیں جہاں رکنا چاہئے۔۔۔غیر ضروری طور پر اپنی لین سے باہر نہ نکلیں۔۔۔دیز
سے آنا کبھی نہ آنے سے بہت بہتر ہے۔۔۔اگر ہمارے شہر میں لوگ گاڑی ٹریفک
قوانین کا احترام کرتے ہوئے چلائیں تو کبھی یہ ٹریفک جام نہ ہوں۔۔۔اس کی
رپورٹ طلب کریں۔۔۔ان میں صبر کرنے کی اور احساسِ ذمہ داری بیدار کیجئے۔۔۔
۴) اخلاقیات پر ماہانہ لیےکچر کا بندوبست کیجئے۔۔۔آزمائشی پروگرام کا
انعقاد کئے چاہیں۔۔۔
۵) زیبرا کراسنگ کے ساتھ ساتھ دیگر نشانا ت کی نشاندہی اور ان کی اہمیت
اجاگر کریں۔۔۔
۶) یو ٹرن کا استعمال صحیح سمت سے کریں۔۔۔
مگر ان سے بڑھ کر تعداد ان لوگوں کی ہے جو اپنی گاڑیاں خود چلاتے
ہیں۔۔۔بچوں کو اسکول خود چھوڑنے جاتے ہیں۔۔۔دفتر مارکیٹ اور جہاں کہیں جانا
ہو خود ڈرائیو کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔۔۔وہ حضرات جو گاڑیاں خود چلاتے ہیں
اور ڈرائیور حضرات بھی سب پر لازم ہے کہ وہ صبر، برداشت اور نظم و ضبط کا
خاص خیال رکھیں۔۔۔یاد رہے ہم امتی ہیں نبی ﷺ کہ جنہوں نے دنیا کو نظم و ضبط
سیکھایا۔۔۔آج دنیا مہذب ہوگئی۔۔۔اور ہم بدتہذیبی کی دلدل میں دہنسے جارہے
ہیں ۔۔۔
جو کوئی بھی گاڑی لے کر سڑک پرآتا ہے یا آیا ہے۔۔۔اسنے کہیں نہ کہیں جانا
ہے۔۔۔کوئی بھی سڑک پر پکنک نہیں مناتا۔۔۔سب نے اپنی اپنی منزل کی جانب سفر
کرنا ہے۔۔۔کبھی نہ پہنچنے سے دیر سے پہنچنا بہتر ہے۔۔۔یہ چند چھوٹی چھوٹی
باتیں یا عمل ہیں جن پر عمل کر کے ہم اپنی تو اپنی دوسروں کی زندگی بھی
آسان بنا سکتے ہیں۔۔۔اور ہمارے ان اعمال کا ہماری نمو پانے والی نسل پر
کتنے اچھے اثرات مرتب ہونگے ہمیں اسکا اندازہ بھی نہیں ہے۔۔۔میری آپ سے
خصوصی درخواست ہے۔۔۔جس کسی بھی طرح آپ کا اس مضمون سے تعلق ہے ۔۔۔اس پر
روشنی ڈالیں اور بہتری لانے کی کوشش کیجئے۔۔۔قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے۔۔۔ابھی
سے اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور دوسروں کو بھی راغب کریں۔۔۔آسانیاں
پیدا کریں اﷲ ہمارے لئے آسانیاں پیدا کرے گا۔۔۔
تم کرم کرو اہل ِ زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر
صبح جب آپ دفترکیلئے نکلیں گے تو آپ یہ مضمون اپنے آس پاس نظر آئے گا۔۔۔آپ
معاشرے کہ بہتری کیلئے پہلا قدم ضرور اٹھائینگے (انشاء اﷲ)۔۔۔ |