خیبر پختونخوا کے ایک مخصوص
علاقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ "ڈھول" کی
آواز سن کر اپنے آپ پر قابو نہیں پاسکتے اور اگر کہیں پر ڈھول کی آواز سن
لیں تو انہیںکنٹرول کرنا مشکل ہوتا ہے اور یہ بالکل صحیح بات ہے اور عجیب
بات یہ ہے کہ ڈھول کی آواز سن کر ناچنے والوں میں ہر عمر ہر طبقے کے لوگ
شامل ہیں- اب تو خیر ڈھول کی آواز سن کر ہم بھی دل تھام لیتے ہیں کہ
خدانخواستہ اگر ہم نے کہیں غلطی سے ٹھمکا لگادیا تو پھر ساری عمر ہمارے لئے
ایک طعنہ بن کر رہے گا کیونکہ ایک دفعہ یہ غلطی کر چکے ہیںاس لئے دوبارہ
غلطی کی گنجائش نشتہ یہ الگ بات کہ اس غلطی میں ساتھ دینے والا ہمارا دوست
عرفان خٹک آج کل بیرون ملک ملازمت کررہا ہے لیکن ہماری بدقسمتی کہ کسی نے
ہمارے ٹھمکے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردئیے اور اب ہمیں لوگوں کی طعنوں کیلئے
چھوڑ دیا ہے طعنوں کیساتھ لوگ ہمیں کبھی فنکار کہہ دیتے ہیں اور کوئی دل
جلا تو یہاں تک کہہ دیتا ہے کہ اگر کہیں شادی میں پروگرام ہو تو آپ کو
بلائیں گے-خیر بات ڈھول کی ہورہی ہیںگذشتہ روز ایک ٹی وی چینل پر نئے بننے
والے صدر کی خوشی میں ان کے محلے والوں نے وہ ٹھمکے لگائے اور ڈھول کی تھاپ
پر رقص کیا جس سے اندازہ لگا یا کہ نئے صدر ایسے علاقے میں رہتے تھے جہاں
پر " ٹھمکے " لگانے والے زیادہ تھے لیکن سب سے عجیب بات یہ ہے کہ کچھ لوگ
نئے آنیوالے کی خوشی میں ٹھمکے لگا رہے تھے اور کچھ لوگ جانے والے کی خوشی
میں ٹھمکا لگا رہے تھے -کہ یہ جم ہوریت ہے اور جم ہوری نظام کو بچانے کیلئے
جانے والے نے بڑا کردار ادا کیا اور نیا آنیوالا جم ہوری نظام کو بچانے
کیلئے ساری عمر ممنون رہے گا- بچپن سے ہمیں ٹھمکے دیکھنے کی عادت ہے ٹھمکوں
سے ہمارا واسطہ تقریبا ضیاء الحق کے دور سے ہے ان کی ناگہانی موت پر جہاں
بڑے بڑے ٹی وی اینکروں کو روتے ہوئے دیکھا تو کچھ ایسے لوگوں کو بھی روڈوں
پر ٹھمکے لگاتے دیکھا کہ جن کے بقول ملک سے آمریت کا خاتمہ ہوا اور پھر
ٹھمکوں کا سلسلہ شروع ہوا بے نظیر کی حکومت آئی یا پھر نواز شریف کی معین
قریشی کی حکومت آئی کہ پرویز مشرف کی یا اس کے بعد آنیوالے ہم نے ہر دفعہ
روڈوں پر لوگوں کو جانیوالے کی خوشی میں ٹھمکے لگاتے ڈھول کی تاپ پر ناچتے
اور فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا کہ ایک سے جان چھوٹی اور نیا آنیوالا فرشتہ ان
کی زندگی میں بہاریں لیکر آئیگا لیکن یہی صورتحال کچھ عرصہ بعد نئی آنیوالی
حکومت کیلئے لوگوں کی دیکھی جس سے اندازہ ہوگیا کہ پاکستانی قوم میں عقل و
شعور نام کی کوئی چیز نہیں نہ ہی اس قوم نے ماضی سے کچھ سیکھا اور نہ ہی
آئندہ سیکھنا چاہتی ہے ہاں انہیں ٹھمکے لگانے کا بہت شوق ہے کہ کوئی آئے یا
جائے بس انہیں موقع اور ڈھول کی تھاپ چاہئیے اور ٹھمکے لگانے کیلئے میدان -
میدان تو تبدیلی والی سرکار نے پشاور شہر کے نانبائیوں کیلئے بھی کھلا چھوڑ
دیا ہے اور ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں 90 دن میں کرپشن کے دعویدار شہر
کے نانبائیوں کو ٹھیک ہی نہیں کرسکے - پشاور میں نانبائیوں نے بالآخر حکومت
کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا، ہمارے ہاں نانبائیوں کی زیادہ شہروں میں
سنی جاتی ہیں جہاں پر بقول ہمارے ایک صحافی دوست کے شہر کی زیادہ تر خواتین
روٹی اور پراٹھے نہیں پکا سکتی اس لئے شہری لوگ مجبورا نانبائیوں سے روٹی
لانے پر مجبور ہوتے ہیں-اسی وجہ سے ہمارے صحافی دوست نے پینڈو مطلب گائوں
کی تعلیم یافتہ لڑکی سے شادی کی ہے کہ کم از کم گھر میں تندور پرروٹی تو
تازہ پکی ہوئی ملے گی - ہمارے ایک ساتھی صحافی عمران یوسف زئی نے رپورٹ
بنائی ہے کہ پشاور میں نانبائیوں نے بالآخر تبدیلی والی سرکار کو گھٹنوں کے
بل بیٹھنے پر مجبور کردیا ہے۔روٹی کے وزن میں صرف پچاس گرام اور قیمت میں
چار روپے اضافہ کروا کے ہی دم لیا آٹے کی گرانی اور نایابی نانبائیوں کے
لئے اپنے مطالبات منوانے کا بہانہ بن گئی، چند روز تندور بند کئے گئے اور
انتظامیہ نے بالآخر ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے، اب چھ روپے میں ملنے والی
120 گرام کی روٹی 170 گرام کی ہوگی جبکہ قیمت ہوگی دس روپے،نانبائی حضرات
اب بھی اسے اپنے مطالبات کی کامیابی قرار نہیں دیتے۔ انتظامیہ کی جانب سے
ڈبل روٹی کی فروخت پر پابندی اور خلاف ورزی کرنے والوں کو 3 ماہ کی جیل کی
نوید سنائی گئی ہے، جبکہ نرخنامہ کی خلاف ورزی پر 25 ہزار روپے جرمانہ سمیت
ایک ماہ کی جیل کی سزا بھی رکھی گئی ہے،لیکن ان سزائوں پر عمل درآمد کب اور
کیسے ہوگا اس کے لئے کوئی طریقہ کار نہیں رکھا گیا۔انتظامیہ کے لئے یقینی
طور پر سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ روٹی ڈبل ہو یا سنگل نانبائیوں کو مقررہ
وزن کے مطابق روٹی بیچنے کا پابند بنایا جائے۔ تبدیلی کے نعرے کے ساتھ
اقتدار میں آنے والی پی ٹی آئی کی حکومت کے ابتدائی تین ماہ تو بغیر کسی
تبدیلی کے گزر گئے ہیں، تاہم مہنگائی میں مسلسل اضافے نے عوام کی امیدیں
ماند کردی ہیںاس لئے بعض علاقوں میں تو شہریوں نے یہاں تک بینر لگا دئیے
ہیں کہ "ہمیں نیا پاکستان نہیں چاہیے پرانا والا ہی ٹھیک ہے لیکن ہمارے
مسائل حل کرو" اس طرح کے بینرز شہر کے مختلف علاقوں میں دیکھے جاسکتے ہیں-
بینرز پریاد آیا کہ مختلف سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج کے بڑے بڑے بینرز
تو لگا دئیے گئے ہیں لیکن علاج کیسے ہورہا ہے اور کیسے کیسے قصائی ڈاکٹروں
کے روپ میں ہسپتال میں بھرتی کئے گئے ہیں اس کا اندازہ اس واقعے سے بخوبی
کیا جاسکتا ہے کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کے ڈاکٹروںکی غفلت سے پشاورکا
تیرہ سالہ طالبعلم اور کرکٹ کا شیدائی ایک آنکھ سے محروم ہوگیا۔۔۔ڈاکٹروں
نے پہلے آنکھ میںعدسہ لگایا پھر پوری آنکھ ہی نکال دی پشاور کے نواحی علاقہ
خڑکی کا رہائشی شہزادآنکھ میں پردے کی شکایت پرلیڈی ریڈنگ ہسپتال علاج
کیلئے گیا اسے کیاپتاتھا کہ وہ مسیحاوں کے علاج سے صحت یاب ہونے کے بجائے
ایک آنکھ سے ہی محروم ہوجائے گا ای این ٹی وارڈ میں ڈاکٹروں نے پہلے شہزاد
کی آنکھ میں لینز لگایاجس سے آنکھ سوج گئی اسے دوبارہ ہسپتال لے جایاگیا
جہاں اس بارڈاکٹروں نے اسے آنکھ سے ہی محروم کردیاپانچویں جماعت کا طالبعلم
اور کرکٹ کا شیدائی شہزاد اب حسرت بھری نظر سے اپنے دوستوں کو دیکھتا رہے
گا - شہزاد کے والد شہریار سے اپنے بیٹے کی حالت دیکھی نہیں جاتی دکھیارا
باپ اپنے بیٹے کی حالت کا ذمہ دار ہسپتال انتظامیہ کو ٹھہراتاہے بقول اس کے
شہزاد آپریشن سے قبل ٹھیک تھا لیکن ہائوس جاب ڈاکٹروں نے میری بیٹے کی
زندگی اندھیروں میں ڈال دی اب اس کا میں کیا کروںںشہزاد کی ایک آنکھ سے
محرومی نے جہاں اس کے گھر والوں کو سوگوار کردیا ہے وہیں اس کے کرکٹ کے
ساتھی بھی انتہائی مغموم نظرآتے ہیں- خیبرپختونخواہ میںتبدیلی والی سرکار
کتنی تبدیلی لیکر آئی ہے کہ گذشتہ دنوں ہسپتال میںاسی بچے کے حوالے سے
ڈاکٹروں سے موقف لینے کیلئے چکر لگایا تو پتہ چلا کہ شکایات سننے والے
اہلکار ڈیوٹی پر موجود نہیں تھے کچھ دیر بعد ایک باریش شخص کیساتھ وہاں پر
نظر آئے شکایت پر متعلقہ اہلکار کا موقف تھا کہ اس بارے میں وہ انکوائری
کرلیں گے تاہم اس دوران باریش شخصیت نے جواب دیا کہ میرا بیٹا بیمار تھااور
وہ تبدیلی والی سرکار کی طرف سے صحت کے محکمے پر نازل ہونیوالے وزیر کے
بھائی ہے اس لئے کمپلینٹ سیل کے متعلقہ شخصیت کو اپنے ساتھ لیکر گئے تھے یہ
الفاظ موصوف نے بڑے فخر سے ادا کئے تھے تاہم راقم نے جب سوال کیا کہ اگر
ایسا ہے بھی تو کیا ہوا کیا ہسپتال میں آنیوالے عام مریضوں کی کوئی حیثیت
نہیں!جواب ندارد خیر اگر یہی تبدیلی خیبر پختونخواہ کی لوگوں کی قسمت میں
لکھی تھی تو اللہ ہمارے حال پر رحم کرے- |