فسادات بنی نوع انسان کوکیادیتے ہیں ؟صرف تلخ یادیں!

حادثات چاہے کسی بھی صورت میں ظہورپذیرہوں ، بنی نوع انسان کےلئے تکالیف اورغموں کے پہاڑلے کرہی آتے ہیں۔ سڑک حادثات کے علاوہ رہائشی مکانات کے انہدا م کاحادثہ ، شدت پسندوں کے حملے کی صورت میں حادثہ یاسیلابی ریلے کی زدمیں آنے سے،یاکسی فسادکی زدمیں آکریادیگرکسی قسم کاحادثہ میں جان بحق ہونے والے کنبے پرحادثہ پیش آنے کے بعدکیاگذرتی ہے اس کااندازہ لگانامتاثرہ کنبہ کے افرادکے علاوہ کسی دوسرے فردکی بس کی بات نہیں۔۷۲ اگست،۸۰۰۲ کاسورج بھی ایک حادثہ اپنے ساتھ لیکرآیا، یہ حادثہ شدت پسندوں کاپیداکردہ تھاجس میں ایک ہونہارنوجوان اپنے والدین ، بھائی بہنوں ، رشتہ داروں ، عزیزواقارب اورقریبی دوستوں کوچھوڑکرچندہی سیکنڈوں میں دُنیاکوخیربادکہہ گیا۔کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ ہماراپیارااتناجلدہم سے جداہوجائے گالیکن اللہ تعالیٰ کی مرضی کے آگے انسان کربھی کیاکرسکتاہے۔ موت توایک بہانہ ہے اوراس کاوقت متعین ہے ۔ ملک الموت کافرشتہ اللہ کی جانب سے سونپاگیاکام وقت پرکیوں نہ اداکرے۔یہ انسان ہے جواشرف المخلوقات کادرجہ رکھنے کے باوجودفرمانِ اِلٰہی کوٹھکراتاپھرتاہے۔بے شک انسان ایساکرکے گھاٹے کاسوداکرتاہے۔

جولائی اگست ۸۰۰۲ ءجس وقت امرناتھ یاتراجموں وکشمیرمیں جاری تھی ، اسی اثنامیں سیاستدانوں نے امرناتھ زمینی تنازعہ کوجنم دے کرایسے حالات پیداکیے جن سے آج بھی ہمیں گھن آتی ہے۔ امرناتھ زمینی تنازعہ کوسیاستدانوں نے سیاسی رنگت دے کرہندومسلم مسئلہ کے طورپراُجاگرکیا۔اُس وقت ریاست جموں وکشمیرکی سرمائی راجدھائی جموں اورگرمائی راجدھانی کشمیرجوکہ دوالگ الگ صوبوں کی حیثیت رکھتے ہیں کے لوگوں کوآپس میں مذہب کے نام پرلڑانے کی کوششیں عروج پرتھیں۔ہرگذرتے لمحے اوردِن کے ساتھ دونوں صوبوں کے لوگوں کوہندومسلم فسادکے آغازکادِن اورلمحہ قریب محسوس ہورہاتھا۔ جموں صوبہ جوکہ دس اضلاع پرمشتمل ہے میں مسلمان طبقہ کے لو گ اقلیت میں ہیں اورکشمیرمیں صورتحال اس کے برعکس ہے۔جہاں جموں کے ہندوﺅں کوکشمیرمیں مقیم ہندوﺅں کی فکرستارہی تھی وہیں کشمیرکے لوگوں کوصوبہ جموں کے مسلمانوں کوفکرتھی۔جموں میں جب سڑکوں پرٹائرجلاکربم بم بولے کے نعرے دیئے جاتے تومسلمان طبقہ کے لوگ سہم جاتے ۔اوریہ خدشہ محسوس کرتے کہ فسادابھی شروع ہواکہ ہوا۔ظاہرسی بات ہے کہ کشمیرمیں اقلیتی آبادی ڈری ہوئی تھی۔اللہ تعالیٰ کاریاست جموں وکشمیرکے لوگوں پراحسان عظیم تھاکہ امرناتھ زمینی تنازعہ جوایک وبال کی صورت اختیارکرچکاتھااورحالات بھی کافی کشیدہ ہونے کے باوجود۸۰۰۲میں فسادنہ ہوا۔

نامساعدحالات کے دوران ہی ۷۲ اگست کادِن آن پہنچا،جس کی صبح کاسورج میرے ایک قریبی دوست شبیت حسین کےلئے موت کاپیغام لیکرآیا، اس دوست کے ساتھ میراتعلق چھٹی جماعت میں قائم ہوا، جب میں نے اوراس نے ایک ساتھ گوجربکروال ہوسٹل میں داخلہ لیا۔اس کے بعدشبیت اورمیں نے سات برس تک یعنی چھٹی تابارہویں جماعت تک کاسفرایک ساتھ طے کیا۔ ہمارے ہم جماعت دیگرساتھی بھی تھے جوایک ساتھ پیارومحبت کے ساتھ رہتے تھے ۔گوجربکروال ہوسٹل جموں میں ایک ساتھ زمانہ طالب علمی کے دوران گذار ے ہوئے زندگی کے حسین لمحے ۔آج بھی جب یادآتے ہیں تودِل روپڑتاہے۔ آج بھی مجھے لگتاہے کہ کل کی بات ہے کہ میں اورشبیت ایک ساتھ کھیلاکرتے تھے، ایک ساتھ سکول جایاکرتے تھے اورکبھی کبھی آپس میں جھگڑبھی لیتے ۔کبھی کلاس میں اول اوردوئم آنے پراورکبھی کلاس کامانیٹربننے کے معاملے پر۔اورکبھی کلاس میں سب سے پہلے ڈیسک پربیٹھنے پر۔شبیت کے ساتھ گذارے حسین لمحوںکی یادیں آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہیں ۔ ہرسال اگست کامہینہ شبیت کی یادوں کی سوغات لیکرآتاہے اورشبیت کے ساتھ گذارے حسین لمحے اس مہینے میں میرے لیے کرب اورتلخ یادیں لیکرآتے ہیں۔ ۷۲اگست ،۸۰۰۲کوگذرے پانچ سال کاعرصہ ہونے والاہے لیکن آج بھی ایسالگتاہے کہ شبیت ہم سے جدانہیں ہوابلکہ آج بھی ہم میں موجودہے۔میرادِل اپنے دوست کوآج بھی پکاراُٹھتاہے کہ تم کہاں ہو!۔کیااتنی ہی دوستی نبھانی تھی اوراپنے ساتھیوں کوغموں کی سوغات ہی دینی تھی۔کچھ سال اوررُک جاتے ۔ان گذرے پانچ سالوں میں کسی بھی اگست کے مہینے میں شبیت کی یاداس شدت سے نہیں آئی کیونکہ اگست 2013 اوراگست 2008 کے مہینے میں بہت سی باتیں مشترکہ گذری ہیں۔

اگست 2008 میں،میں ایک اُردوروزنامہ میں کام کررہاتھا۔27 اگست کی صبح میں اپنے ایک رشتہ دارکے گھرمیں تھاجوکہ رائے چوک سے آدھاکلومیٹردورتھا۔اچانک بندوق کی گولیوں کی گونج سنائی دی ۔اورپھرچندہی منٹوں کے بعدبذریعہ فون شبیت کی شہادت کی خبرموصول ہوئی۔خبرتھی کہ ملی ٹینٹوں نے رائے پورچوک میں گولی بارکرکے ایک لڑکے کوشہیدکردیاہے ۔فون کرنے والے نے یہ بھی بتایاکہ شبیت حسین اپنے بڑے بھائی شوکت علی جوکہ پولیس محکمہ میں ملازمت کرتاہے کیساتھ جموں میں کالج پڑھنے کےلئے جارہاتھا۔یہ خبرسن کر میرے پاﺅں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی۔دِل کافی اُداس ہوالیکن رنج وغم کے سواہوبھی کچھ نہ سکتاتھا۔ اس وقت ریاست جموں وکشمیرفرقہ پرستی کی لپیٹ میں تھی ۔ اپنے دوست کی قبرپرمیں صحافت کے پیشے کے فرائض انجام دینے کی خاطرنہ پہونچ سکا۔حالات نازک تھے اوراخبارکاکوئی بھی کمپیوٹرآپریٹردفترنہ پہونچ سکاتھا۔دفتروالوں نے پریس کی گاڑی بھیج کرمجھے اخبارتیارکروانے کےلئے رائے پورسے اُٹھالیا۔میں چاہتاتھاکہ میں خیری جاﺅں مگرکیاکرتا۔۔ایک طرف صحافت کاپیشہ جوہمیشہ صحافیوں کواپنے دوستوں ،اوررشتہ داروں سے دوری بنائے رکھنے کاکام کرتاہے۔اس پیشے نے مجھے اس دن کافی مایوس کیا۔

اس اگست میں بھی کشتواڑسانحہ کے بعدفرقہ پرستی کی ہواچاروں طرف پھیلی ۔اس باربھی عیدالفطرکے روزکشتواڑواقعے کے باعث حالات کشیدہ ہوئے۔ فوری طورپرصحافت کے پیشے کے فرائض نبھانے کےلئے عیدکوادھوری چھوڑکرآناپڑا۔ خیرصحافیوں کوملک کی بری، بحری اورہوائی فوج کے بعدکی چوتھی فوج کاسپاہی قراردیاگیاہے۔ صحافی حضرات مبارکبادکے مستحق ہیں جومشکل حالات میں سب کچھ بھول کراپنی ذمہ داریوں کواداکرنے کوترجیح دیتے ہیں۔

جس طرح سے 2008 میںشبیت حسین سمیت کئی افرادشدت پسندی اورفرقہ پرستی کی بھینٹ چڑھے ۔اسی طرح کشتواڑمیں بھی فرقہ پرستی کی زدمیں دوافرادنے جانیں گنوائیں ۔شدت پسندی اورفرقہ پرست کی آگ لگانے والوں پرلعنت ہو۔جن کی وجہ سے انسانی جانیں تلف ہوتی ہیں اوردہائیوں تک اپنے پیاروں کادردلواحقین کے دِلوں میں رہتاہے۔ہراگست شبیت کے لواحقین اورکشتواڑکے سانحے میں جاں بحق ہوئے افرادکے لواحقین کےلئے کسی اذیت یاعذاب سے کم نہ ہوگا۔شبیت حسین اصل میں ۸۰۰۲ کاہیروہے جس کی شہادت نے حالات کوپرامن بنانے کی خاطراپنی جان کی قربانی دی۔سلام ہواس شہیدپرجس نے جموں وکشمیرریاست کی فضا ءکواپنی شہادت سے معطرکرکے امن قائم کیا۔

آج اگست ۸۰۰۲کوگذرے پانچ سال کاعرصہ ہوچکاہے ۔ پانچ سال کے بعد۹اگست ۳۱۰۲کوعیدالفطرکے روزاُس وقت کشتواڑمیں فسادبھڑک اُٹھاجب حالات بھی سازگارتھے اورہندومسلم طبقہ کے لوگوں کے درمیان کوئی بڑاتنازعہ بھی نہ تھا۔ لوگ پرامن طریقے سے رہ رہے تھے ۔ نہ جانے کن فرقہ پرست طاقتوں نے عیدگاہ کشتواڑپہنچ کرفسادکےلئے حالات سازگاربنائے اوراس فسادکی زدمیں آکردوافرادکی جانیں تلف ہوئیں۔فسادکوبھڑکنے سے روکنے کےلئے انتظامیہ کشتواڑنے سرگرم رول اداکرکے حالات کوقابوکرلیا اوردونوں طبقوں کے ذی شعورلوگوں نے معاشرے کوامن وبھائی چارے کی بحالی کےلئے کردارنبھانے کےلئے آگے آنے کی تلقین کی اورصدیوں پرانی آپسی بھائی چارے کوبرقراررکھنے کی اپیل کی۔ریاستی سرکارکی جانب سے کچھ فیصلے بروقت لیے گئے جس نے حالات کوجلدپٹری پرلانے میں اہم کرداراداکیا۔عیدالفطرکے روزکشتواڑمیں پیش آئے فسادکی وجہ سے نہ صرف صوبہ جموں میں وہی حالات پیداہوئے جوجولائی اگست ۸۰۰۲میں پیداہوئے تھے ۔اگست ۳۱۰۲کے حالات سے بھی فرقہ پرستی کی وہی بوآرہی ہے جوجولائی اگست ۸۰۰۲کوفضاﺅں میں بکھری تھی۔فسادکے نتیجے میں جن افرادکی جانیں تلف ہوئیں ۔ان کے لواحقین کوسرکارنے پانچ پانچ لاکھ روپے بطورایکس گریشیاریلیف دینے کااعلان کیاہے۔ سوال یہ ہے کیا فسادات کے نتیجے میں تلف ہوئی جانیں واپس لوٹ آئے گی۔مذہب کامسئلہ حساس مسئلہ ہوتاہے لیکن مذہب کے مسئلے پرانسان مذہب کے درس کوکیوں بھول جاتاہے ۔کیوں انسان انسانیت کوشرمسارکرنے پرتل جاتاہے۔کیوں باباآدم کی اولادہونے کے باوجودآدمی آدمی سے مذہب کی بناءپرنفرت کرناشروع کرتاہے اوراس کاذہن کیوں مذہب کے درس کوترک کرتاہے۔جن لوگوں نے فسادجیسے دلدوزحادثے کے نتیجے میں اپنے پیاروں کوکھویاان کاغم کوئی دوسرامحسوس نہیں کرسکتا۔ شبیت کی موت کادرداس کے والدین ،بھائی بہنوں اورعزیزدوستوں کے دِلوں سے کون نکال سکتاہے۔ آج ۷۲ اگست کوپھرسے شبیت کی یادشدت سے آرہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دُعاگوہیں کہ شد ت پسندوں اورفرقہ پرستی کی لپیٹ میں آکرجانیں گنوانے والے افرادکے لواحقین کوصبروجمیل عطافرمائے اورکسی کاپیاراشدت پسندی اورفرقہ پرستی کی آگ کی لپیٹ میں نہ آئے ۔ کیونکہ یہ آگ بڑی بھانک ہوتی ہے اوراس کی تپش کوسہنابہت ہی جگروگردے کاکام ہے۔ہم سب کوفرقہ وارانہ ہم آہنگی کوفروغ دینے کےلئے کام کرناچاہیئے اورہر مسئلہ کوافہام وتفہیم سے حل کرنے پرترجیح دینی چاہیئے۔
Tariq Ibrar
About the Author: Tariq Ibrar Read More Articles by Tariq Ibrar: 64 Articles with 53540 views Ehsan na jitlana............. View More