امن و امان قائم کرنے کا اکسیر فارمولا

ایک انسان کا دوسرے انسان سے اتحاد ایک فطری عمل ہےجو شیطان کے بہکاوے میں آئے اورانسانوں میں نفرت کے بیج بوئےسمجھ لینا کہ وہ انسان کی شکل میں شیطان کا نمائندہ ہےتمام انسانوں کے بنیادی مسائل ایک جیسے ہیں ہمیں اس حوالے سے غور و فکر کی ضرورت ہےنہ کی عقیدہ،رنگ و نسل،مذہب اور علاقوں کی بنیاد پرجب ہم ایک انسان بن کر سوچیں گے تو ہمارے ظالم حکمرانوں کی ہمارے خلاف تمام سازشیں خود آپ پرمنکشف ہوجائیں گےیہ تمام ظالم اندر سےبالکل جُڑے ہوئے ہیں اور ملک و قوم کے خلاف صف آراء ہیں ہمیں انکی شیطانی چالوں کو سمجھنا ہوگا اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب ہم ایک ہوں چاہے وہ کوئی بھی ہوں،کسی بھی نسل کے ہوں، کسی بھی مذہب کے ہوں،کسی بھی علاقے سے ہوں، کسی بھی عقیدے سے ہوں بس صرف ہمیں انسان بن کر سوچنے اور ایک ہونے کی اشد ضرورت ہے جب ہم ایک ہوں گے تو ملک سے مجرموں کا خاتمہ ہوگا امن و امان کی صورت حال بالکل ٹھیک ہونگےجب مجرموں کو سُولی پر چڑھادیا جائے چاہے وہ کسی بھی نسل سے ہوں،کسی بھی علاقے کا ہو،کسی بھی عقیدے کا ہو،کسی بھی سیاسی جماعت کا ہو۔ مجرموں کی پُشت پناہی سیاسی جماعتوں کی مجبوری بن چکی ہے چونکہ یہ خود پاکستانی قوم کے بڑے اور اصل مجرم ہیں انکی خیریت اسی میں ہے جب تک ہم آپس میں نفرت،تفرقہ بازی، بغض،دوری اور لڑتے رہیں اور آپس میں ایک دوسرے کا سر پھاڑتے رہیں۔۔ یہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جس دن ہم ایک ہوجائیں گے اُس دن یہ سارے مجرم بھاگ جائیں گے۔۔ اور ہمارا وطن مجرموں سے پاک ہو جائے گا۔ بس ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔ ہم کسی بھی طرح اپنے دلوں میں دوسرے انسانوں کے لئے گنجائش پیدا کرے۔

ہمارا مذہب جیسے نام سے ہی عیاں ہے “اسلام“ اور ہمیں اللہ نے اپنے کتاب میں “مُسلم“ کے خوبصورت لقب سے نوازا ہے۔۔ جس کا مطلب ہی سراپا سلامت و رحمت ہے۔ کیا ہم اللہ کے دیئے ہوئے اس خوبصورت نام کا بھرم بھی نہیں رکھ سکتے۔ جب ہم کھلے دل سے دوسرے انسانوں کو انکے تمام صفتوں سمیت قبول کرلے اور ان کے ساتھ انسانوں والا سلوک اور رویہ اختیار کرے تو سمجھ لو یہی اسلام ہے۔ اسلام محبّت و اخوّت کا دین ہے، درگزر اور معافی کا دین ہے۔ خود بھی سلامت رہو اور دوسروں کو بھی سلامت رکھو والا دین ہے۔ آپ اپنے اخلاق اور کردار سے تو کسی کا دل موہ سکتے ہیں لیکن زبردستی اسے فتح نہیں کرسکتے۔ اسلام دلوں پر فتح کرنے کا نام ہے نہ کہ جسموں اور ملکوں پر قابض ہونے اور چڑھائی کرنے کا۔ لااکراہ فی الدین۔۔ یعنی دین میں کوئی جبریا زبردستی نہیں۔۔ جبر اور زبردستی اگر کرنا ہوتا تو اللہ ہی یہ سب کچھ کرسکتا تھا کیونکہ وہی اس کائنات کا مالک کل ہے۔ اس کے لئے یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ لیکن وہ زبردستی اور جبر نہیں چاہتا اس لئے اس نے انسانوں کودین کے معاملہ میں آزاد چھوڑا تاکہ وہ اپنے عقل و دل سے خود فیصلہ کرلے۔ اور دین کے راستے کے چناؤ میں آسانی کے لئے اپنے خاص نمائندے دنیا میں بھیجے اورہدایت کے لئے اپنی کتابیں بھی نازل کیں۔ اور وہ نمائندے ایک عام انسانوں کی طرح معاشرہ میں رہے اور انسانوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بہت دُکھ اور تکلفیں اُٹھائیں۔

اللہ، رسول اور قرآن کا انسانوں سے بنیادی مطالبہ بھی یہی ہے کہ وہ ایک ہوجائے،متحد ہوجائے
“وعتصموبحبل اللہ جمیعاوَّلاتفرِّقو“ کیونکہ اسی میں قوّت ہے اگر ہم نے اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق کواپنامقصدبنا لیا تو ہم بہت جلد پاکستان کومجرم فری اسٹیٹ بنا سکتے ہیں۔ جس طرح ایک گھر کو قائم و دائم رکھنے کے لئے گھروالوں کا آپس میں اتفاق و اتحاد ضروری ہے اسی طرح ملک بھی ایک گھر کی طرح ہے۔ اگر ہم آپس میں مل جل کر رہیں۔ اور اپنے اختلافات کو مذاکرت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔ اور اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے مخلصانہ کام کریں تو ہر معاملہ طے پاسکتاہے۔ دنیا میں کوئی بھی ایسا معاملہ نہیں جو مذاکرات کے ذریعے حل نہ ہوں آخرکار تباہ کن بربادی کے بعد بھی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ہی مسئلہ کا حل نکلتاہے تو اس سے کہیں بہتر یہ نہیں کہ کشت و خون سے پہلے ہی سرجوڑکر ان مسائل کا حل تلاش کریں۔

دین اسلام نے انسانوں کی بہتری اور فلاح کے ایک اورگولڈن فارمولے کا قرآن میں اعلان کیا ہے جو انسانوں کو فتنہ وفساد اور کشت وخون سے بچاتا ہے۔ اور وہ عظیم آیت یہ ہے “ لا اِکراہَ فی الدّین“ یعنی دین میں کوئی جبراورزبردستی نہیں- اور دوسری اکسیر آیت “ لَکم دِینَکم وَلیِ یدیں “ تمھارے تمھارا دین اور میرے لئے میرا دین۔ اگر ان آیات کو ہر مسلمان اپنے لئے راہبر بنا دے جوکہ بنانی چاہیے۔ تو ہمارا یہ اسلامی معاشرہ ایک جنّت بن جائے۔ ہرانسان دوسرے انسان کے دین کا احترام کرے۔ دوسرے کے دین کو بُرابھلا نہ کہے بلکہ اپنی دین اور اپنے راستے کی فکر کرے کہ کیا وہ خود راہ راست پر ہے کیونکہ روز حشر اللہ نے اسے اسکے اعمال کی سزا وجزا دینی ہے نہ کہ دوسروں کے۔ ہر انسان صرف اپنی فکر کرے۔ اپنی دین کی فکر کرے نہ کہ پڑوسی کے دین کی کیونکہ ہرایک نے اپنے اپنے قبر میں جانا ہے اور اپنے اپنے افعال واعمال کی جزا و سزا بھگتنی ہے۔ بلکہ قرآن کی اس آیت کی رو سے تو خود انسان کے اعضا اس کے خلاف گواہی دیں گے۔۔ “الیومَ نختِمُ علیٰ افواھھم وتکلمنا ایدیھم وَتشھَدُ اَرجلُکم “ یہ سورہ یٰس کی آیت ہے۔ اس آیت پر اگر ہم زرا غوروفکرکریں۔۔ ہرمسلمان خود کو اس آیت کے آئینہ میں پرکھیں کہ وہ اس دنیا میں کیا کچھ کام انجام دے رہا ہے۔ صبح سے شام اور شام سے صبح تک اپنے ہی انجام دینے والے کاموں کا کھلے دل سے جائزہ لیں کہ اس نے ان چوبیس گھنٹوں میں کتنوں کا دل دُکھایا، کس کس کی ٹوہ میں لگا رہا،کیا کیا کمایا اور کیسے کمایا کیا کیا کھایا اور کیا کیا بانٹا-
MUHAMMAD HASSAN
About the Author: MUHAMMAD HASSAN Read More Articles by MUHAMMAD HASSAN: 14 Articles with 14384 views Love for all hatred for none.. View More