نوجوانوں کی آوازیں بلند ہوتی جا
رہی تھیں نوجوان لڑکے اپنے بزرگوں کو کوس رہے تھے کہ ان کا کوئی اصول نہیں
۔آپ ان نوجوانوں سے مخاطب ہوئے ’’آپ میں سے کتنے لڑکوں کی سائیکلوں پر
بتیاں ہیں؟ جواب آیا صرف ایک سائیکل بتی والی ہے ۔آپ نے فرمایا تمہیں
دوسروں پر تنقید کا کوئی حق نہیں۔ جب آپ کا اپنا کوئی اصول نہیں تو آپ کو
یہ حق نہیں پہنچتا کہ دوسروں میں نقص نکالیں۔’’آپ نے خود ابھی قانون کا
احترام نہیں سیکھا‘‘ یہ الفاظ تھے ایک بلند پایہ سیاستدان ایک دور اندیش
لیڈر اور ایک عظیم قانون دان ہم سب کے قائد ۔۔قائد اعظم محمد علی جناح کے
جو برصغیر پاک و ہند کے عظیم حریت پسند رہنما تھے۔جس کے بارے میں گاندھی نے
کہا تھا ’’قائد اعظم کو نہ کوئی طاقت خرید سکتی ہے اور نہ ہی کوئی ان کو
کوئی دوسرے ملک و ملت کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔
ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن جو نہرو کا دوست اور پاکستان کا
بد ترین دشمن تھانے آخر کار تسلیم کیا کہ ہندوستان کو متحدہ صورت میں چھوڑ
کر واپس چلے جانے کی میں نے ہر ممکن کوشش کی اگر ایسا ہو جاتا تو یہ میرا
عظیم کارنامہ ہوتا میں نے اس مقصد کے لئے دن رات ایک کر دئے راتوں کی نیند
حرام کر دی لیکن میرے مقصد کی راہ میں صرف ایک شخص حائل تھا۔جو پہاڑ کی طرح
چٹان بن کر ڈٹا رہا وہ محمد علی جناح تھا شروع سے ہی NO کہتا چلا گیا۔۔اور
آخر کار اس کی NO کے سامنے مجھے ہی جھکنا پڑا۔
قائد اعظم محمد علی جناح سے نہ صرف ان کے چاہنے والے متاثر تھے بلکہ ان کی
ذہانت و متانت کی مثالیں ان کے مخالفین بھی دیتے تھے۔ پنڈت جواہرلال نہرو
نے کہا تھا ’’اگر مسلم لیگ کے پاس سو گاندھی اور دو سو ابو الکلام آزاد
ہوتے اور کانگرس کے پاس صرف ایک لیڈر محمد علی جناح ہوتے تو ہندوستان کبھی
تقسیم نہ ہوتا‘‘ برطانوی وزیراعظم نے برصغیر پاک و ہند کے اس بے مثال
راہنما کے بارے میں یہ الفاظ اد ا کئے’’مسٹر جناح اپنے ارادوں اور اپنی
رائے میں بے حد سخت تھے۔ان کے رویے میں کوئی لوچ نہیں پایا جاتا۔وہ مسلم
قوم کے مخلص رہنما ہی نہیں ایک سچے وکیل بھی تھے‘‘ برطانیہ کے شہنشاہ کنگ
جارج نے محترمہ فاطمہ جناح کے نام ایک تعزیتی پیغام میں کہا’’مجھے اور ملکہ
کو آپ کے عظیم بھائی کی وفات کا سن کر شدید صدمہ پہنچا۔یہ ایک ناقابل تلافی
نقصان ہے یہ آپ کے لئے بھی اور پاکستانی عوام کے لئے بھی جن کے وہ عظیم
راہنما تھے‘‘
جناح آف پاکستان کے مصنف پروفیسر اسٹینلے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’’بہت کم
لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں ایسے لوگ تو اور بھی کم
ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ تبدیل کر دیتے ہیں اور ایسا تو کوئی کوئی ہوتا جو
نئی مملکت قائم کر دے محمد علی جناح ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے بیک وقت تینوں
کارنامے کر دکھائے۔
قائد اعظم کے خیالات پاکستان اور دین اسلام سے متعلق بالکل واضح تھے آپ کے
ان الفاظ کو پڑھنے کے بعد واضح ہو جاتا وہ سینکڑوں مسلمانوں کی قربانیوں
اور انتھک محنت سے حاصل کئے گئے وطن کو کیسے دیکھنا چاہتے تھے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کہتے ہیں
’’میرا ایمان ہے ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصول والے ضابطہ حیات
پر عمل کرنا ہے جو ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ہمارے لئے قائم کر رکھا ہے،ہمیں
اپنی جمہوریت کی بنیادیں ،سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی
چاہئیں۔اسلام کا سبق یہ ہے مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی
بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔
آج ہم اپنے قائد کے اصولوں کو بھول چکے ہیں ہم نے اس قائد کی باتوں کو
فراموش کر دیا جن کی جہد مسلسل کے باعث ہمیں اپنا وطن نصیب ہوا آج ہم اپنے
بزرگوں کی قربانیوں کو بھی فراموش کر بیٹھے ہیں ہم نے اپنے بڑوں کی باتوں
کو بھلا کر ان کی پیدائش اور وفات کے دن یاد رکھنا شروع کر دیے ہیں۔آج وطن
عزیز مشکلات میں گھرا ہوا ہے اس موقع پرہمیں عہد کرنا چاہئے کہ اس عظیم
مملکت جس کو لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا اس کی حفاظت کریں گے۔اس
کے حقیقی جدا گانہ تشخص کو برقرار رکھیں گے ۔سینکڑوں مصیبتیں آئیں اپنے وطن
کو نہیں چھوڑیں گے۔ہمیں اپنے وطن پر آنے والی ہر مشکل کا سامنا کرنا ہے
۔اگر آج ہم قائد کے اس فرمان کو یاد رکھ لیں تو ہم ہر قسم کے حالات کا
سامنا جرات مندی سے کر سکتے ہیں۔۔’’مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا‘‘
۔۔۔۔۔۔!! |