تعلیمی اداروں میں نئے آنے والے طلبہ کی مشکلات

ملک بھر میں نیا تعلیمی سال شروع ہوچکا ہے۔سکول ،کالجز،اور یونیورسٹیز میں طلبہ نئے درجات میں داخل ہورہے ہیں۔قدیم اور جدید طلبہ کی آمیزش وکثرت دیدنی ہوتی ہے۔میٹرک پاس طلبہ ایف اے یا ایف ایس سی میں داخلے لے رہے ہیں ۔جبکہ ایف اے ،ایف ایس سی پاس طلبہ اپنی ذات رغبت ،شوق اور دلچسپی کی بنا پر یا پھر والدین ،اساتذہ اور دوست احباب کے مشوروں سے اپنے لیے مختلف شعبہ جات کا انتخاب کر رہے ہیں۔بہت سے طلبہ اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی طرف جوق در جوق امڈکر آرہے ہیں۔ان کی یہ خواہش ہے کہ وہ اپنی اعلیٰ تعلیم کسی اچھے اور نامی گرامی تعلیمی ادارے سے حاصل کریں۔مگر ملت کے ان نئے ابھرتے نوجوانوں کو ان کی زندگی میں نئے رونما ہونے والے واقعات کا سر سے احساس ہی نہیں ہوتا۔میٹرک اور ایف اے تک کی تعلیم اکثر طلبہ اپنے علاقوں میں رہ کر حاصل کرتے ہیں جہاں وہ ہمہ وقت والدین کے پیار و محبت اور شفقت سے اپنے دل کی تمام مایوسیوں کو فروگذاشت کرتے ہیں ۔جب وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر اپنے گھر کو چھوڑتے ہیں تو ان کو اس امر کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ کن کن مراحل سے گذریں گے۔بس اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کی سند کو حاصل کرنا ان کا عشق و جنون ان کے سر پر ہوتا ہے۔ عدم واقفیت کے سبب سے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں آنئے والے طلبہ کو نئے ماحول،مختلف الحال طبیعت و مزاج کے افرادسے ملنا پڑے گا۔بد اخلاق و بد تہذیب لوگوں سے بھی ان کا واسطہ پڑے گا۔اپنے گھروں سے میلوں دور طلبہ کو علم نہیں ہوتا کہ ان کو بیشتر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے میں سفارش اور رشوت کا سہارا لینا پڑئے گا،تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو بڑی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ منہ مانگی رشوت دینی پڑے گی۔مصدقہ اطلاع کے مطابق بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں بعض طلبہ سے داخلے کی یقین دہانی کرانے کے لیے انتظامیہ کے بعض لوگ ہزاروں روپے کی رشوت ببانگ دہل طلب کرتے ہیں۔ نئے آنے والے طلبہ میں کثیر تعداد پسماندہ علاقوں سے آئی ہوتی ہے جو کہ معاشی اعتبار سے بھی انتہائی کمزور ہوتے ہیں۔ ایسے طلبہ کو تعلیمی اداروں میں داخلہ تو مل جاتا ہے کیوں کہ آج کل تعلیمی ادارے انسان سازی کی بجائے تجارتی مراکز بن چکے ہیں۔بھاری بھر فیسیں ہتھیانے کے لیے ہمہ وقت گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں مگر داخلہ دینے کے بعد جب ان طلبہ کو سہولیات کی فراہمی کی باری آتی ہے تو ان کا رویہ اس قدر ہیبت ناک ہوتا ہے کہ جس سے نئے طلبہ کے دل خوف کے مارے لرز اٹھتے ہیں۔تعلیمی اداروں کی انتظامیہ سے وابستہ افراد من پسند افراد کو نوازتے ہیں یا پھر سفارش یا رشوت کی بدولت سہولتیں بانٹتے نظر آتے ہیں جبکہ متوسط طبقے کے طلبہ کو موقع بموقع تنگ کرتے نظر آتے ہیں۔

نئے آنے والے طلبہ کو گھر سے دور تعلیمی ادارے میں سب سے بڑے جس مسئلے کا سامنا کرناپڑتا ہے وہ ان کے رہنے کا ہوتا ہے۔تعلیمی ادارے اپنے داخلہ اشتہارات میں یہ بات درج کر کے کہ یونیورسٹی میں رہائش کی فوری سہولت میسر نہیں ہے اپنے دامن کو پاک کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔کھلی بات ہے کہ اگر تعلیمی ادارے جامعہ میں پڑھنے کے لیے دور دراز کے غریب اور متوسط طلبہ کو رہاش فراہم نہیں کر سکتی توان پر لازم ہے کہ وہ اپنے تعلیمی ادارے میں داخلے جاری ہیں کے بڑے بڑے اخباروں اشتہارات جاری نہ کریں ۔نئے آنے والے طلبہ کو رہائش کی سہولت ڈیڑھ ڈیڑھ سال بعد فراہم کی جاتی ہے جبکہ راقم یہ بھی جانتاہے کہ تمہیدی کورس پڑھنے کی وجہ سے اگر کسی طالب علم کا دورانیہ بڑھ جائے تو اس طالب علم کے ساتھ کسی قسم کی رعایت دینے کا مظاہرہ نہیں کیاجاتا۔اسی طرح نئے آنئے والے طلبہ کی اکثریت ملک پاک کی سرکاری تعلیمی درس گاہوں میں پہلے سے موجود طلبہ تنظیموں کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہتے ہیں۔جس کے سبب نئی نسل کا قیمتی مستقبل ان مفاد پرست ،نام نہاد لسانی،مسلکی،سیاسی طلبہ تنظیموں کے ہاتھوں بحر ظلمات سے بھی زیادہ تاریک تر ہوجاتا ہے۔

اگر تعلیمی اداروں میں طلبہ کا اس طرح استحصال ہوتا رہا تو خاکم بدہن اس ملت پاکستان کو تاقیامت نیک و مخلص دیانتدار قیادت میسر نہ آسکے گئی۔کیوں کہ آج کل یہ قوم کا طرہ امتیاز بن چکا ہے کہ اپنے ساتھ ہوئے ظلم و زیادتی کا بدلہ اپنی نئی نسل سے لے لو………………! ضرورت اس امر کی ہے حکمران،تعلیمی اداروں کے سربراہان اور تمام انتظامی عملہ قوم و ملک کے مستقبل کے جذبات و احساسات کے ساتھ شرمناک کھیل کھیلنا ترک کرکے ان کے مستقبل کو روشن اور محفوظ بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔بصورت دیگر ان کو ملت کے مستقبل نوجوانوں اور خود ملت کے تاریک مستقبل کا ذمہ دار ہونے کی بناپر اﷲ کے ہاں بحیثیت مجرم پیش ہونا پڑے گا۔اس وقت ان کے پاس اپنے دفاع میں جواب دینے کو کچھ بھی نہ ہوگا۔
Atiq Ur Rehman
About the Author: Atiq Ur Rehman Read More Articles by Atiq Ur Rehman: 11 Articles with 9007 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.