میری ڈائری کہاں گئی؟ شیخ امتیاز بلند آواز سے دھاڑے اور
ان کی آواز کوٹھی میں گونج کر رہ گئی۔
مسز امتیاز جو آرام کرسی پر بیٹھی کسی رسالے کی ورق گردانی میں مصروف تھیں،
چونک کر رہ گئیں۔ چند لمحوں میں شیخ امتیاز کے بچے اور ملازم ان کے کمرے
میں موجود تھے۔ شیخ امتیاز چند ثانیے سب کو گھورتے رہے پھر بولے : میرا
خفیہ لاکر کس نے کھولا؟
شیخ امتیاز کے تینوں بچوں شکیل، عدیل اور ہما نے کندھے اچکائےکیونکہ وہ اس
بات سے تو واقف تھے کہ ان کے بابا کا ایک خفیہ لاکر ہے مگر وہ اس بات سے
قطعی نا بلد تھے کہ وہ خفیہ لاکر کہاں ہے؟ انھوں نے نفی میں سر ہلایا۔
اب شیخ امتیاز ملازموں کی طرف متوجہ ہوئے۔ ملازم تو گھر میں کسی لاکر کی
موجودگی سے ہی واقف نہ تھے، وہ کیا کہتے۔۔۔
شیخ امتیاز نے اعلان کرنے والے انداز میں کہا: میری ڈائری ایک سنہرے باکس
میں بند ہے اور اس باکس کو بھی تالا لگا ہے جو مجھے میری ڈائری ڈھونڈ کر لا
دے گا میں اسکو ایک لاکھ دوں گا۔ اب تم سب جائو اور تلاش کرو جو تلاش کرلے
وہ آکر اپنا انعام لے جائے۔
جب سب کمرے سے نکل گئے تو شیخ امتیاز اپنی بیگم کی طرف متوجہ ہوئے اور
بولے: یہ بات میرے لیے نہایت حیران کن اور پریشان کن ہے کہ میرا خفیہ لاکر
اب خفیہ نہ رہا۔ کوٹھی میں کسی چور کی موجودگی ہمارے لیے خطر ے کی گھنٹی
ہے۔ میں پولیس سے اس معاملے میں مدد نہیں لے سکتا ۔ کسی پرائیو ٹ جاسوس کی
خدمات حاصل کرنا ہوں گی۔ ڈائری چور سامنے آجائے تو میں اس کو ایسی سزا دوں
گا جسے وہ تمام عمر یاد رکھے گا۔ شیخ امتیاز نے یہ کہتے ہوئے اپنی مٹھیاں
بھینچ لی تھیں۔
بیگم امتیاز بولیں: آپ مجھے نہ پہلے کچھ بتاتے تھے نہ اب بتاتے ہیں۔ آخر
ڈائری میں ایسا کیا تھا کہ آپ اسے حاصل کرنے کے لیے اتنے بے چین ہو رہے
ہیں۔ وہ صرف ایک ڈائری ہی تو ہے۔ ایک ڈائری کے پیچھے آپکا آپے سے باہر ہونا
سمجھ سے بالاتر ہے۔
بیگم تم کچھ نہیں جانتیں۔ تم نہیں جانتیں وہ ڈائری میرے لیے کتنی اہم ہے تم
نہیں جانتیں کہ اس میں میرے کچھ ایسے راز ہیں اگر وہ میرے کاروباری حریفوں
کے ہاتھ لگ جائیں تو ہم کنگال ہو جائیں۔ شیخ امتیاز گلاس میں پانی انڈیلتے
ہوئے بولے۔
آخر وہ کون سے ایسے راز ہیں جن کے منظرِ عام پر آنے سے ہمارے کاروبار کے
ختم ہونے کا اندیشہ ہے؟ بیگم کے لہجے کی تلخی اور کڑواہٹ شیخ امتیاز محسوس
کیے بنا نہ رہ سکے۔ چند لمحے وہ ان کی طرف غصے سے دیکھتے رہے پھر بولے :میں
فی الحال تمھیں نہیں بتا سکتا۔
ایک عرصہ گزر گیا ہے مجھے آپکے ساتھ رہتے ہوئے مگر آپ کے اس عجیب اور پر
اسرار رویے کی مجھے سمجھ نہیں آئی۔ آپ نےپر اسراریت کا جو خول اپنے اوپر
چڑھا رکھا ہے اس کو اب تو اتار پھینکیں۔ بیگم امتیاز نے تیکھے لہجے میں
کہا۔
توبہ ہے تم سے بیگم، میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں تم میری پریشانی اگر کم
نہیں کر سکتی تو بڑھا کیوں رہی ہو؟ شیخ امتیاز یہ کہتے ہوئے کمرے سے نکل
گئے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اسلام علیکم! کیا ذیشان باجوہ سے ملا قات ہو سکتی ہے؟ شیخ امتیاز نے کاونٹر
کلرک سے دریافت کیا۔
وعلیکم السلام ! آپ اپنا کارڈ دیں۔ ہم معلوم کر لیتے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ
کمرے میں چلا گیا۔ چند لمحوں بعد باہر آیا اور بولا : وہ آپ سے ملا قات
کریں گے۔
شیخ امتیاز کمرے میں داخل ہوئے اور سلام کر کے کرسی پر بیٹھ گئے۔
"جی فرمائیےــ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں" ۔ ذیشان باجوہ نے استفسار
کیا۔
" بات دراصل یہ ہے کہ میری پر سنل ڈائری کسی نے چرالی ہے میں ڈائری اور چور
دونوں کو حاصل کر نا چاہتا ہوں۔ شیخ امتیاز نے اپنا مدعا بیان کیا۔
آپ کو کس پر شک ہے؟ ذیشان باجوہ نے استفہامیہ نظروں سے دریافت کیا۔
"شکــــ ابھی تک میں کوئی اندازہ قائم کرنے سے قاصر ہوں"۔
کسی اجنبی کی کوٹھی میں آمد و رفت سے باخبر ہیں؟ ذیشان باجوہ نے سوالیہ
نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ "نہیں"۔ آخری دفعہ ڈائری کب لکھی تھی؟ ذیشان
باجوہ نے سوال کیا۔
"شاید ایک ہفتہ پہلےـــــ دراصل میں روزانہ ڈائری نہیں لکھتا بلکہ کسی خاص
واقعے کے ظہور پذیر ہونے پر لکھتا ہوں"۔ شیخ امتیاز نے پر سوچ لہجے میں
جواب دیا۔
آپ اپنی ڈائری رکھتے کہاں ہیں؟"ذیشان باجوہ نے سوال کیا۔
"اپنے خفیہ لاکر میں"۔ خفیہ لاکر میں ؟ اس خفیہ لاکر کی موجودگی سے کون کون
واقف ہے؟ ذیشان باجوہ نے چونکتےہوئے کہا۔
میری بیوی اور بچے لاکر کی موجودگی سے با خبر تو ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے
کہ لاکر کوٹھی میں کس جگہ پر ہے۔ شیخ امتیاز نے بتایا۔
یہ بتائیے کہ خفیہ لاکر کا تالا کس قسم کا ہے؟ ذیشان باجوہ نے سوال کیا۔
یہ بات میرے لیے نہایت پریشانی کا باعث ہے کہ میرا لاکر کس نے کھولا ؟
کیونکہ لاکر کا تالا عام قسم کا نہیں بلکہ خفیہ لاکر میرے نشانِ انگوٹھا سے
ہی کھل سکتا ہے۔ کوئی دوسرا طریقہ لاکر کو کھولنے میں کارگر ثابت نہیں ہو
سکتا۔ اب چور کے پاس میرے تھمب پرنٹس ہیں مجھے حیرت ا س بات پر ہے کہ اس نے
لاکر سے میری ڈائری کے سوا کچھ بھی نہیں نکالا۔
واقعی یہ عجیب بات ہے۔ ایک بات تو واضح ہے کے چور نے صرف ڈائری چرانے کے
لیے ہی لاکر کھولا اس سے اس کا مقصد آپکے کاروباری راز چرا کر اپکو بلیک
میل کر نا بھی ہو سکتا ہے ، ظاہر ہے کہ آپ ملک کی مشہور و معروف کاروباری
شخصیت ہیں۔ اگر آ پ کے کارو باری راز چرا کر آپ کے حریفوں کو دے دیے جائیں
تو یہ آپ کے پر کاٹنے کے مترادف ہو گا۔
آپ نے درست کہا، میں بھی یسی زاویے سے سوچ رہا تھا۔ شیخ امتیاز نے ہنکار
بھرا۔
اب آپ یہ کریں کہ اپنے تمام ملازمین اور گھر کے افراد پہ نظر رکھیں ۔ ان کی
مشکوک حرکات و سکنات پہ نظر رکھیں تاکہ کل جب میں آپ کے ہاں آءوں تو آپ
مجھے اپنا اندازا ہ بتا سکیں۔ ذیشان باجوہ نے کہا۔
شیخ امتیاز نے پچاس ہزار ایڈوانس دیے اور الودعی مصا فحہ کیا۔
شیخ امتیاز نے جب اپنی کوٹھی میں قدم رکھا تو دنگ رہ گئے۔ کوٹھی انارکلی
اور بکرا منڈی کا نقشہ پیش کر رہی تھی۔ شیخ امتیاز کے بچوں اور ملازمین نے
وہ دھما چوکڑی مچائی تھی کہ الامان الحفیظ! ہر کوئی انعام حاصل کرنا چاہتا
تھا۔۔۔۔
شیخ امتیاز اپنے کمرے کی طرف بڑھے اور یہ دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا کہ
انکا کمرہ مچھلی منڈی بننے سے بچ گیا تھا۔ بیگم ابھی تک آرام کرسی پر
بیٹھیں رسالے کی ورق گردانی میں مشغول تھیں۔ شیخ امتیاز نے دریافت کیا کہ
وہ ڈائری کیوں نہیں ڈھونڈ رہیں کیا انھیں انعام نہیں چاہیے؟
نہیں شیخ صاحب! میں ایک لاکھ بلکہ دو لاکھ بھی ویسے ہی آپ کی جیب سے نکلوا
لیتی ہوں تو مجھے انعام کے لیے تھکنے کی کیا ضرورت؟ بیگم امتیاز نے مسکراتے
ہوئے جواب دیا۔
آں ہاں یہ تو ہم بھول ہی گئے تھے کہ آنجناب کو انعام کی بھلا کیا ضرورت؟
ہمیں خود ہی ڈائری ڈھونڈنی ہو گی ۔ شیخ امتیاز بولے۔
اگر ڈائری آپ کو ہی مل جائے تو انعام کیسے دیں گے؟ بیگم نے پوچھا۔
ایک جیب سے نکال کر انعام دوسری جیب میں ڈال لوں گا یا پھر ایک ہاتھ سے
دوسرے ہاتھ کو دے دوں گا۔ شیخ امتیاز نے قہقہہ لگا کر کہا۔
واہ کیا زبر دست طریقہ ہے؟ عدیل نے کہا۔ "واقعی"۔ شکیل اور ہما ایک ساتھ
بولے۔ شیخ امتیاز نے مڑ کر دیکھا۔ تینوں بچے دروازے کے سامنے کھڑے تھے۔
تو ڈائری کسی کو نہیں ملی؟ شیخ امتیاز نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔ تینوں نے
نفی میں سر ہلایا۔
ٹھیک ہےـــ کل ذیشان باجوہ یہاں آئے گا اور ان امکا نات کا جائزہ لے گا کہ
ڈائری چور کون ہے اور ڈائری کہاں ہو سکتی ہے؟ شیخ امتیاز بولے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ذیشان باجوہ کا استقبال شیخ امتیاز نے کیا۔
بتائیے آپ نے کیا اندازہ قائم کیا؟ ذیشان باجوہ نے دریافت کیا۔
مجھے افسوس ہے کہ میں کوئی اندازہ قائم کرنے سے قاصر ہوں۔
شیخ امتیاز نے گھر کے تمام افراد کا تعارف ذیشان باجوہ سے کرایا۔
ٹھیک ہے ۔ اب سب اپنے کمروں میں چلے جائیں ۔ میں ہر ایک سے اس کے کمرے میں
سوال کرنا پسند کروں گا اور ضرورت پڑی تو تلاشی لوں گا۔ ذیشان باجوہ نے
کہا۔
شیخ امتیاز آپ براہ مہربانی میرے ساتھ رہیں۔ ذیشان باجوہ نے شیخ امتیاز کو
روکتے ہوئے کہا۔
میں ڈائری چور کو چالیس فیصد پہچان بھی چکا ہوں۔ سب افراد کے کمروں میں چلے
جانے کے بعد ذیشان باجوہ نے سرگوشی کے انداز میں شیخ امتیاز سے کہا۔
کیا؟؟؟؟ کون ہے وہ؟ شیخ امتیاز دنگ رہ گئے۔
فی الحال نہیں بتا سکتا۔کیونکہ یہ ایک اندازہ ہے جو کہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔
جب میں ثبوت حاصل کر لوں گا تو ہی بتا ئوں گا۔ یہ میرا اصول ہے۔ ذیشان
باجوہ نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔
ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضي۔ پہلے آپ کس کے کمرے میں جانا پسند کریں گے؟ شیخ
امتیاز بولے۔
پہلے آپ مجھے اپنے کمرے میں ہی لے چلیں۔ ذیشان باجوہ نے کہا۔
جب شیخ امتیاز کے ساتھ ذیشان باجوہ کمرے میں داخل ہوئے تو انھوں نے بیگم
امتیاز کو ایک رسالے کی ورق گردانی میں محو پایا۔
ہماری بیگم کے تو دو ہی شوق ہیں شاپنگ کرنا اور رسالے پڑھنا۔شیخ امتیاز نے
بتا یا۔
بیگم صاحبہ آپ کے خیال میں ڈائری چور کون ہو سکتا ہے؟ ذیشان باجوہ نے پہلا
سوال کیا۔
یہ آپ کا کام ہے کہ ڈائری چور کا پتہ لگائیں۔ بیگم امتیاز نے کہا۔
"کوئی انداز ہ "؟ ذیشان باجوہ نے پوچھا۔
"بیگم امتیاز نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔ No, sorry."
ٹھیک ہے۔ اب ملازمین کے کواٹرز کی طرف چلیں۔ ذیشان باجوہ نے کہا۔
ملازمین سے کوئی قابلِ ذکر بات معلوم نہ ہو سکی ۔ بچے بھی کچھ نہ بتا سکے۔
میں آپ کے کمرے کو دیکھنا چاہتا ہوں اگر آپ کو اعتراض نہ ہو؟ ذیشان باجوہ
نے اچانک شیخ امتیاز سے کہا۔
جیـــــــــ دیکھ لیجئے۔ شیخ امتیاز بولے۔
جانے سے پہلے کمرے کو دیکھ لینے کے بعد ذیشان باجوہ نے شیخ امتیاز سے کہا:
کل میں ڈائری اور چور دونوں آپ کے حوالے کر دوں گا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شیخ امتیاز کی آنکھ اچانک کڑک کی آواز سے کھلی۔ رات کے اس پر مہیب سناٹے
میں انھوں نے ایک ہیولے کو کھڑکی سے باہر پھلانگتے ہوئے دیکھا۔ مارے دہشت
کے انکی آنکھیں پھیل گئیں اور ایک گھٹی گھٹی چیخ ان کے حلق سے بر آمد ہوئی۔
انھوں نے کانپتے ہاتھوں سے لیمپ جلایا۔ بیگم بھی چیخ کی آواز سن کر بیدار
ہو چکی تھی مگر وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ کیا ہو چکا ہے۔ لیمپ کی روشنی
میں شیخ امتیاز اور بیگم امتیاز نے بیک وقت آرام کرسی کی طرف دیکھا۔ بیگم
امتیاز کو یہ سمجھنے میں قدرے دشواری ہوئی کہ کرسی رات کے اس سمے کس طرح
ٹوٹ گئی؟ انھوں نے سوالیہ نگاہوں سے شیخ امتیاز کی طرف دیکھا۔ شیخ امتیاز
نے بلا کم و کاست سارا واقعہ انھیں سنا دیا۔
شیخ امتیاز کے لیے یہ واقعہ سنگین نوعیت کی حیرانی لیے ہوئے تھا۔ پہلے
ڈائری کا چرایا جانا اور اب کرسی کا ٹوٹنا؟؟؟؟؟؟؟
بیگم امتیاز خطرے کی گھنٹی کو صاف محسوس کر رہی تھیں۔ انھوں نے چند ثانیے
سوچا اور اپنی آنکھیں موند لیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
"آج آپ کا یہاں ہونا بہت ضروری ہے۔ یاد رہے آپ وردی میں نہیں بلکہ سادہ
کپڑوں میں یہاں آئیں گے۔ جلدی پہنچیے گا۔ ورنہ کھلاڑی کھیل کھیل جائے گا
اور ہم پچھتاتے رہ جائیں گے۔ یہ ملک و قوم کی سلامتی کا معاملہ ہے ۔"
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ذیشان باجوہ نے کوٹھی پہنچتے ہی شیخ امتیاز کے ہمراہ ان کے کمرے کا رخ کیا
۔
ذیشان باجوہ صاحب کل رات ہمارے کمرے میں رات میں کوئی چور آیا جس نے صرف
آرام کرسی کو توڑا اور چلا گیا۔ اب آپ وضاحت کر دیں ۔شیخ امتیاز نے کرسی کی
طرف اشارہ کرتے ہو ئے کہا۔
شیخ صاحب ڈائری چور کوئی اور نہیں ۔۔۔۔ بیگم صاحبہ ہیں۔ ذیشان باجوہ نے یہ
کہہ کر گویا دھماکا کر دیا۔
کیا؟؟؟؟ شیخ امتیاز سمیت سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ یہ کیسے ہو سکتا
ہے؟
نہیں یہ جھوٹ ہے ممی ایسا نہیں کر سکتیں۔ تینوں بچوں نے چلا کر کہا۔
مجھے یقین نہیں آرہا کہ بیگم ایسا کر سکتی ہے؟ کیا ثبوت ہے آپ کے پاس اس
کا؟ شیخ امتیاز نے پوچھا۔
بتائیے یہ کرسی کب خریدی آپ نے ؟باجوہ نے پوچھا۔
یہ بیگم اپنی پسند سے لائی ہیں شاید ایک ہفتہ پہلے۔ شیخ امتیاز بولے ۔
یہ ثبوت ہے۔ ذیشان باجوہ نے بھر پور مسکراہٹ سے کہا۔ مگر ، اب ڈائری بیگم
صاحبہ کے پاس نہیں۔ کیوں ؟ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟
بلکہ وہ ڈائری تو اب آپ کے پاس ہے ۔ کیوں میں نے ٹھیک کہا نا؟ بیگم امتیاز
بولیں۔
جی بالکل اور میں اسے پڑھ چکا ہوں ۔باجوہ نے کہا۔
سب کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔
شیخ امتیاز نے اچانک پستول نکال لی اور کہا : اب چونکہ تم ڈائری پڑھ چکے ہو
اب تمھیں زندہ چھوڑنا اپنے آپ کو قانون کے شکنجے میں پھنسانا ہے اس لیے تم
تو اب مرو!
شیخ صاحب رکیے ، آپ مجھے مار کر بھی قانون کے شکنجے میں پھنس جائیں گے
کیونکہ وہ ڈائری کہاں ہے صرف میں جانتا ہوں۔ وہ ڈائری میں جس کے سپرد کر
آیا ہوں اگر میں واپس نہ گیا تو وہ انٹیلی جنس کےحوالےکر دے گا۔ آپ سودا کر
لیں ڈائری میں آپ کو دے دوں اور آپ دو کروڑ مجھے۔ بولیے ، منظور ہے یہ
سودا۔ ذیشان باجوہ نے کہا
نہیں مجھے ابھی اور اسی وقت تمھارا کانٹا نکال دینا چا ہیے۔ کیونکہ تم مجھے
بلیک میل کرتے رہوگے۔ شیخ امتیاز نے سفاکانہ لہجے میں کہا۔
تو کیا آپ میرا بھی کانٹا نکال دیں گے کیونکہ میں بھی تو ڈائری پڑھ چکی
ہوں۔ بیگم نے پوچھا۔
تم سے میں بعد میں نبٹتا ہوں یہ تو ۔۔۔۔۔۔۔شیخ امتیاز کی بات درمیان میں ہی
رہ گئی ، اسی لمحے چھ افراد ہاتھوں میں رائفلیں لیے کمرے میں داخل ہوئے اور
ذیشان باجوہ کو اور انھیں حراست میں لے لیا۔ اب علاقے کے ایس ـایچ ـ او بھی
کمرے میں داخل ہو گئے اور بیگم امتیاز سے کہا کہ اس ڈائری کا راز اب فاش کر
دیں کیونکہ سب ہی جاننے کے لیے بہت بے تاب ہیں۔
"آج سے ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے کہ جب میں امتیاز کو چائے دینے گئی تو وہ
ڈائری لکھ رہے تھے۔ کسی کی ڈائری پڑھنا ویسے توغیر اخلاقی حرکت ہے مگر غیر
ارادی طور پر میں نے دو چار سطریں پڑھ لیں مگر ان کو پڑھنے سے میرا خون
کھول اٹھا کیونکہ وہ سراسر وطن کے خلاف تھیں۔ لکھا تھا: آج میں نے وزیرِ
خارجہ کے سیکرٹری کو خرید لیا۔ سیکرٹری نے مجھے وزیرِ خارجہ کی پڑوسی ملک
جاکمانستان کے وزیرِخارجہ سے ہونے والی خفیہ میٹنگ اور معاہدوںکا منشور دے
دیا۔ جو کہ میں نے تھیلڈون ایڈورڈ کو دے ۔۔ اس سے زیادہ میں نہ پڑھ سکی ۔
اگلے روز میں نے آئیـ جی سے ملاقات کی۔ انھوں نے سارا پلان بنایا۔ خفیہ
لاکر تلاش کرنے میں مجھے بہت مشکل ہوئی ۔ جب لاکر ڈھونڈ لیا تو اس کا تالا
میری سمجھ میں نہ آیا۔ با لآخر میں نے اس لاکر کی تصاویر کھینچ کر انھیں
دیں۔ انھوں نے بتایا کہ یہ تالا کیسے کھلے گا۔ ایک دن جب امتیاز نے کتاب
پڑھی تو میں نے اس کتاب کو احتیاط سے اپنے پاس رکھ لیا۔ موقع ملتے ہی میں
نے کتاب پر موجود تھمب پرنٹس کے ذریعے لاکر کھولا اور ڈائری نکال لی۔ جب
میں نے ڈائری پڑھی تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور حواس خطا ہو
گئے ۔ میں نے وہ ڈائری آئی جی کو دی وہ پڑھ کر سکتے میں آ گئے۔ پھر انھوں
نے مجھے ایک آرام کرسی دی اور کہا کہ یہ ڈائری یہاں رکھ لوں۔ آگے جو کچھ
ہوا وہ تو سب جانتے ہی ہیں۔جب کرسی کو ذیشان باجوہ نے توڑ کر ڈائری حاصل کر
لی تو میرے کان کھڑے ہو گئے۔ اگلے دن صبح ہوتے ہی میں نے آئی جی کو سارا
ماجرا بتا دیا ۔ " بیگم امتیاز نے من و عن سارا ما جرا کہہ سنایا۔
آپ اب ان کو گرفتار کر لیں۔ میں غدارِ وطن اور غدارِ قوم کے ساتھ ایک پل
بھی مزید نہیں رہنا چاہتی۔بیگم امتیاز نے ایس ایچ او سے کہا۔
اگرآپ کی طرح سب لوگ محبِ وطن ہو جائیں تو کوئی غدار ہمارے وطن کی جڑیں
کاٹنے کی ہمت نہ کر سکے، کوئی دشمن ہمارے وطن کی طرف میلی نگاہوں سے نہ
دیکھ سکے اور کوئی سازشی اپنی ریشہ دوانیوں میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ہم آپ کی
ہمت او رعظمت کو سیلوٹ کرتے ہیں۔ ایس ایچ او نے کہا اور دیگر اہلکاروں کے
ساتھ سیلوٹ کیا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ |