پاک فوج پھر دہشت گردوں کے نشانے پر؟

احمد جہانگیر

پاکستان کو سب سے بڑا چیلنج دہشت گردوں کی کارروائیوں سے ہے جس میں عام شہری تو عام سی بات ہے اب پاک فوج بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ 15ستمبر کو سینئر فوجی افسران پاک افغان بارڈر پر اگلے مورچوں کی چیک پوسٹوں کے دورے پر تھے واپسی پر اپر دیر میں سڑک کے کنارے دہشت گردوں کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگ سے ان کی گاڑی ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں جنرل آفیسر کمانڈنگ سوات ڈویژن میجر جنرل ثناء اﷲ خان نیازی، 33بلوچ رجمنٹ کے لیفٹیننٹ کرنل توصیف اور لانس نائیک عرفان ستار اپر دیر کے علاقے بن ساہی کے مقام پر شہید ہوگئے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی اعلیٰ فوجی افسر کی شہادت کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ 9/11 کے بعد سے لیفٹیننٹ جنرل سمیت پاک فوج کے تین میجر جنرل شہید ہو چکے ہیں۔ 25فروری 2008ء کو پاک فوج کے اعلیٰ طبی ماہر لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ راولپنڈی میں جنرل ہیڈ کوارٹر کے قریب خودکش حملے کے نتیجے میں اپنے ڈرائیور سمیت شہید ہو گئے۔ لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ 9/11 کے بعد دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہونے والے پاک فوج کے اعلیٰ ترین عہدیدار تھے۔ 4 دسمبر 2009ء کو راولپنڈی کی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران دہشت گردوں کے حملے میں میجر جنرل عمر بلال سمیت 40 افراد جاں بحق ہوگئے۔ اس حملے میں میجر جنرل عمر سمیت کئی حاضر فوجی افسران شہید ہوئے جن میں ایک بریگیڈیئر، دو لیفٹیننٹ کرنلز اور دو میجرز شامل تھے جبکہ زخمیوں میں سابق آرمی چیف جنرل(ر) محمد یوسف خان بھی شامل تھے جبکہ زخمیوں میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) محمد یوسف خان بھی شامل تھے۔ بعد ازاں تحریک طالبان پاکستان نے سی این این کو بھیجی جانیوالی ای میل میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ دریں اثناء 19 نومبر 2008ء میں ایک ریٹائرڈ میجر جنرل امیر فیصل کو اسلام آباد ہائی وے پر پی ڈبلیو ڈی ہائی وے کے قریب قتل کردیا گیا۔ بعد ازاں حرکت الجہاد اسلامی کے جموں کشمیر کے امیر الیاس کشمیری کے مبینہ طور پر اس حملے میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا۔ یکم جون 2011ء کو رینجرز کے 4 عہدیداران بشمول ڈائریکٹر جنرل پنجاب میجر جنرل محمد نواز، ان کے بیٹے کیپٹن آصف نواز اور لیفٹیننٹ کرنل عامر عباس کوٹ سلطان کے قریب ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہوئے۔

ملک میں دہشت گردی کے منظم نیٹ ورک کے سامنے پولیس تقریباً غیرمؤثر ہوچکی ہے۔ کراچی اور بلوچستان میں نیم فوجی ادارے بھی منظم جرائم پیشہ گروہوں اور دہشت گرد تنظیموں کا شکست دینے میں ناکام رہے ہیں۔ دہشت گرد اپنی منصوبہ بندی، معلومات اور جدید تکنیک کے استعمال میں اکثر قانون نافذ کرنے والے موجودہ اداروں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کی جیلوں پر حملوں کے ذریعے دہشت گردوں کی جانب سے اپنے ساتھیوں کا چھڑایا جانا اس حقیقت کی بڑی واضح مثال ہے۔ان میں سے پہلا واقعہ پندرہ اپریل 2012 اور دوسرا اسی سال انتیس جولائی کی رات پیش آیا۔لوگوں کو جان مال اور عزت آبرو کا تحفظ فراہم کرنا کسی بھی حکومت کی پہلی ذمہ داری ہوتی ہے۔اس میں ناکام رہنے والی حکومتیں اپنے قیام کا جواز کھودیتی ہیں۔

یہ امر خوش آئند ہے کہ گزشتہ عام انتخابات کے بعد بننے والی وفاقی اور صوبائی حکومتیں امن وامان کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمے پر خصوصی توجہ دے رہی ہیں۔تاہم دہشت گردی کا جو چیلنج اس وقت ملک کو درپیش ہے، وہ غیرمعمولی نوعیت کا ہے لہٰذا اس سے نمٹنے کے لئے غیرمعمولی اہتمام بھی ضروری ہے۔اس تناظر میں جدید ترین آلات وسائل سے لیس اور لائق افراد پر مشتمل انسداد دہشت گردی فورس کے قیام کا فیصلہ نہایت ضروری تھا۔ اس کے ذریعے حکومت نے وقت کے ایک اہم تقاضے کی تکمیل کی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس فیصلے کو کم سے کم مدت میں عملی شکل دے دی جائے۔ وزیر اعظم نے گزشتہ روز اسی حوالے سے وضاحت کی ہے کہ حکومت دہشت گردی کے مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کررہی ہے۔انہوں نے انسداد دہشت گردی فورس کے قیام کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا اور کہا کہ اس کے قیام میں تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔

Javed Bhatti
About the Author: Javed Bhatti Read More Articles by Javed Bhatti: 141 Articles with 104989 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.