سکول کے گیٹ پر والدین موجود تھے اور سکول پرنسپل سے اس
بات کا مطالبہ شد و مد سے کررہے تھے کہ سکول کے گیٹ پر سیکیورٹی کے انتظام
کو بہتر اور موثر بنایا جائے اور بالخصوص بچیوں کو صرف اور صرف والدین یا
بہن بھائی کے علاوہ کسی اور کے ساتھ جانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے۔مذکورہ
بالا لوگوں کے علاوہ اگر کوئی شخص لینے کیلئے آئے تو آفس میں دیئے گئے گھر
کے نمبر سے تصدیق کی جائے ۔ یہ وہ تحفظات تھے جو کہ والدین کو پریشان کئے
دے رہے تھے کیونکہ پنجاب بھربچیوں کے ساتھ یکے بعد دیگرے ایک ہفتے کے اندر
اندر تین چار لرزہ خیز واقعات اور درندگی کے مظاہروں نے والدین کوخوفزدہ
اور concious کردیا تھا ۔ وہ اپنے آپ کو اور بچیوں کو غیر محفوظ تصور کررہے
تھے۔بہت سے سوالات جنم لے رہے تھے کہ حوا کی بیٹی کب تک یوں نوچی جاتی رہے
گی؟کب اور کیسے ان درندوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا؟مہنگائی کے
مارے اور غربت کی چکی میں پسے لوگ کیسے پانی عزتوں کو محفوظ کرسکیں گے؟
حکومتی اقدامات کب تک خالی نعروں اور کھوکھلے دعوؤں تک محدود رہیں
گے؟عدالتیں کب اپنا قبلہ درست کریں گی؟ کب نظام عدل کا نفاذ ہوگا ؟ مظلوم
کی داد رسی کو ن کریگا؟ اس قسم کے بہت سے لاجواب سوالات شعور و لاشعور میں
گردش کرتے ہیں۔
وزیر اعلی پنجاب نے لاہور کی سنبل،لودہراں کی سمیرا، تاندالیانوالہ کی
ثمینہ ،مسافر خانہ ،ٹوبہ ٹیک سنگھ وغیرہ کے بارے میں(اس طرح کے بہت سے ایسے
واقعات جو منظرعام پر نہیں آتے)نوٹس لے کر مجرموں کو جلد از جلد گرفتار
کرکے قانون کے کٹہرے میں لانے کی بات کی ہے اور چیف جسٹس نے بھی نوٹس لیا
ہوا ہے۔کچھ ملزمان و مجرمان گرفتار ہوچکے ہیں او ر وزیر اعلی کے سخت نوٹس
اور ریمارکس کے بعد بقیہ درندے بھی جلد سلاخوں کے پیچھے ہونگے۔ لیکن یہاں
پر بھی ایک سوال ابھرتا ہے آیا کہ ان سفاک بھیڑیوں کو جہنم واصل کیا جائے
گا کیا ان کو تختہ دار پر لٹکایا جائے گا؟ کیا انہیں نشان عبرت بنایا
جائیگا ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ہم میں سے کسی کے پاس نہیں۔پہلے تو
ملزموں کو مجرم ثابت کرنے کیلئے پاپڑ بیلنے ہونگے۔ پولیس کا ’’ملزم سے
محبت‘‘کا کردار ہمیشہ کی طرح مجرموں کے حق میں جائیگا پھر نہ ختم ہونیوالہ
عدالتی سلسلہ شروع ہوجائیگا جو آئے روز پیشی در پیشی کی گردان کی نذر
ہوجائیگابہت سے مدعی جو کہ عزت تو پہلے ہی گنوا بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں سست
عدالتی نظام کو دیکھتے ہوئے ملزموں سے دست بستہ معافی مانگنے اور گلوخلاصی
کی فریاد کرتے د کھائی دیتے ہیں اور آخر کار ظالم فاتح ہوکر وکٹری کا نشان
بناتے اور مظلوم مفتوح ہوکر دنیاسے منہ چھپاتا پھرتا ہے۔ عدالتوں میں ججز
سے زیادہ ان کے ریڈر،کلرک اور منشی حضرات ’’فرائض منصبی‘‘ادا کرتے ہوئے
دوسو چارسو کے عوض پیشی دینا اپنا اولین شعار سمجھتے ہیں۔ان کو کوئی پوچھنے
والے نہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان سے معذرت کے ساتھ گذارش ہے کہ وہ لاکھوں
کیسز جو کہ عدالتی نظام کی روایتی سست روی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہیں
بغیر فیصل ہوئے زمانہ کی گرد میں اٹے ہوئے ہیں ان کا ذمہ دا ر کون ہے؟ کیا
سربراہ عدالت ہوتے ہوئے ان کی جوابدہی بھی آپ کے ذمہ نہ ہے؟جناب والہ !فاسٹ
ٹریک عدالتوں کا قیام عمل میں لائیں اور کم از کم ان ناسوروں کو جو معاشرے
کو گلا رہے ہیں،کاٹ کر پھینکنے کا کوئی مناسب انتظام فرمادیں۔
عزت ماب وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف صاحب اور وزیر اعلی پنجاب
شہبازشریف صاحب عصمت دری اور آبرو رویزی کے اندوہناک واقعات میں مولث لوگوں
کو نشان عبرت بنانے کیلئے قانون پاس کریں۔ہمارے ہاں ابھی تک اس کی کوئی
واضح تشریح موجود نہ ہے سب چوں چوں کا مربہ ہے۔امیر کاقانون اور ہے اور
غریب کا قانون اور۔ہمسایہ ملک انڈیا کوہی لے لیجئے۔وہاں پر جنسی زیادتی اور
تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کو کم کرنے کیلئے اور درندوں کو لگام ڈالنے
کیلئے فاسٹ ٹریک کورٹس کا قیام عمل میں لاکر طالبہ سے زیادتی کے چار ملزموں
کو سزائے موت دے دی گئی۔ جنسی درندہ اور مندر کا پجاری آسارام کو ہزار ہا
رکاوٹوں اور مصلحتوں کے باوجود گرفتار کرکے تختہ دار پر لٹکانے کی تیار ی
کی جارہی ہے۔ شدید دباؤ اور رد عمل کے باوجوداسے face کیاجارہا ہے۔ تو پھر
پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان صاحب وزیراعظم و
وزیر اعلی پنجاب صاحب سوموٹو ایکشن لینے، نوٹس لینے اور مجرموں کو کٹہرے
میں لانے کے علاوہ بھی بہت سے ایسے کام اور اعمال ہیں جن پر توجہ اور عمل
کی اشد ضرورت ہے کیونکہ جب تک مجرموں کو نشان عبرت نہ بنایا جائیگا یہ
معاملات حل ہونے والے نہیں کیونکہ ہماری قوم اور ہم ڈنڈے کے یار ہیں۔
دوسرا نقطہ یہ ہے کہ اس قسم کے دلخراش واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں ایک
تحقیق کے مطابق جنسی درندگی میں ملوث افراد سے پوچھ گچھ کے بعد جو نتائج
سامنے آئے ہیں ان میں سے اکثر کا کہنا ہے ان پر ہوس ناکی کا بھوت سوار ہونے
کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اس قبیح عمل سے پہلے کوئی جنسی ویڈیو،فلم یا
میگزین سے تصاویردیکھی تھیں جس سے ہیجان پیدا ہوا اور پھر ایزی اپروچ میں
ہتھے چڑھ جانی والی بچی لڑکی یاعورت کو اپنی ہوس کا نشانہ بناڈالا۔ کچھ کا
کہنا تھا کہ نیم عریاں جسم اور اعضا کو ابھارنے والا لباس پہننے والی
خواتین بھی اس قسم کے واقعات کا محرک ہوتی ہیں۔ جو خود بھی شکار بن جاتی
ہیں اور دوسروں کیلئے بھی اذیت کا باعث بنتی ہیں اور سب سے بڑا کردار ہمارے
الیکٹرانک میڈیا کا ہے کہ اس میں ڈراماز،فلمز میں ریپ کے مناظر اس طرح سے
فلمائے جاتے ہیں کہ حقیقت کا گمان ہوتا ہے اس قسم کے سین دیکھ کر ہوس کے
پجاری اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں اور پھر کوئی حوا کی بیٹی اپنی عصمت
کو تار تار کرابیٹھتی ہے کسی کی بہن بیٹی کی عزت کی دھجیاں اڑادی جاتی ہیں
لیکن کہیں کوئی قیامت نہیں ٹوٹتی سوائے اس لڑکی اور اس کے والدین کے۔لہذا
وزیر اعظم پاکستان وزیر اعلی حضرات اور مقننہ کے لوگوں سے گذارش ہے کہ
خدارا اس سلسلے میں کوئی واضح ،ٹھوس اور سخت قانون بناکرجلداز جلد نافذ
کرائیں۔ چیف جسٹس سے بھی دست بستہ التماس ہے کہ فاسٹ ٹریک کورٹس کا قیام
عمل میں لاکرانسانیت اور بالخصوص نسواں کی عزت ،عصمت و آبرو کو محفوظ بنانے
کے اقدامات کریں ورنہ معاشرہ تباہی کے دہانے پر تیار بیٹھا ہے- |