حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات
الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت ابو
موسیٰ ؓ اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے آہستہ آہستہ بہت سے لوگ ان کے پاس جمع
ہو گئے تو وہ ان کے سامنے قرآن پڑھنے لگے اتنے میں ایک آدمی نے حضور ﷺ کی
خدمت میں آ کر عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ میں آپؐ کو حضرت ابو موسیٰ ؓ کی
عجیب بات نہ بتاؤں وہ گھر میں بیٹھے ہوئے تھے پھر ان کے پاس لوگ جمع ہو گئے
تو وہ ان کے سامنے قرآن پڑھنے لگے ، حضور ﷺ نے فرمایا کیا تم یہ کر سکتے
ہیں کہ تم مجھے ایسی جگہ بٹھا دو جہاں ان میں سے مجھے کوئی نہ دیکھ سکے اس
نے کہا جی ہاں حضور ﷺ تشریف لے گے اور اس آدمی نے حضور ﷺ کو ایسی جگہ بٹھا
دیا جہاں حضور ﷺ کو ان میں سے کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا اور وہاں سے حضور ﷺ
حضرت ابو موسیٰ کی تلاوت کو سننے لگے پھر حضور ﷺ نے فرمایا یہ حضرت داؤد ؑ
کے لہجہ جیسی آواز میں قرآن پڑھ رہے ہیں۔
قارئین علم کا سیکھنا اور علم کا سکھانا ہمارے ایمان کا حصہ ہے قرآن پاک کا
نزول اقراء سے شروع ہوا جس نے ظاہر کر دیا کہ پڑھنے ،پڑھانے اور سیکھنے
سکھانے کی اہمیت کس قدر ہے سیکھنے اور سکھانے کے کئی طریقے مروجہ اور غیر
مروجہ ہیں جن میں رسمی اور غیر رسمی طریقہ کار دونوں شامل ہیں۔ معاشرے کی
بہتری اور بھلائی کے لیے جہاں قانون کی رٹ اور طاقت کے ذریعے معاشرے میں
ہونی والی برائیوں کے خاتمے کی بات کی جاتی ہے وہیں پر ایک انتہائی اہم
پہلو یہ ہے کہ معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لیے معاشرہ اور معاشرے میں
موجود تمام طبقات اپنا اپنا بھرپور اور موثر کردار ادا کریں ۔ زندہ معاشروں
کے اندر یہ چیز دیکھنے میں آتی ہے کہ وہ اس حد تک حساس ہوتے ہیں کہ کسی بھی
قسم کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے اس معاشرے کی تمام سطحوں میں موجود اہم
ترین طبقات اپنا موثر ترین کردار ادا کرتے ہیں برطانیہ، امریکہ، یورپ سے لے
کر دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ معاشروں کے اندر جہاں سینئر
سیٹیزنز رہنمائی کے لیے موجود ہوتے ہیں وہیں پر نوجوان طبقہ اپنے فرائض کی
انجام دہی کے لیے انتہائی طاقت ور انداز میں سامنے آتا ہے۔ دانش اور طاقت
کے امتزاج سے معاشرتی برائیوں کے خاتمے میں بھی مدد ملتی ہے اور اسی طریقے
سے تعمیر کا ایک مستقل عمل معاشرے کو تخریب سے محفوظ رکھتا ہے۔
قارئین ہم نے مختصراً چھوٹی سی ایک تمہید آپ کے سامنے پیش کی ہے کہ زندہ
معاشروں میں یوتھ اور وزڈم مل کر کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے ملک و معاشرہ
ترقی پاتے ہیں آج کے کالم کے موضوع کے حوالے سے آپ کو بتاتے چلیں کہ میرپور
میں یونیورسٹیز اور کالجز کے طلباء و طالبات نے دانش کی اسی چھاؤں میں
معاشرتی فلاح و بہبود کا بیڑا اٹھایا ہے۔ نیشنل یوتھ فورم کے نام سے کام
کرنے والی ایک تحریک کوشش کررہی ہے کہ شعور و آگہی پھیلانے کے لیے دستیاب
وسائل کے اندر رہ کر معاشرے ہی کو یہ احساس دلایا جائے کہ آنے والی نسلوں
کی بہتری کے لیے ہمیں کون کون سے کام کرنا ہوں گے ۔ اسد علی چوہدری ، عائشہ
شوکت، فہد علی چوہدری، عرفان الٰہی، آمنہ شوکت، بشری ٰاعظم ، آمنہ اعظم،
حمزہ یوسف، سعید الٰہی اور دیگر نوجوان طلباء و طالبات جو میڈیکل کالجز ،
انجینئرنگ یونیورسٹیز اور دیگر اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ گزشتہ
کچھ عرصے سے نوجوانوں کو متحرک کرتے ہوئے مختلف حوالوں سے کمپین چلاتے رہتے
ہیں گزشتہ روز ٹریفک کے قوانین سے آگاہی کے حوالے سے ان بچوں نے ایک خصوصی
واک کا اہتمام کیا اس خصوصی واک میں سیکرٹری آزاد حکومت شوکت مجید ملک ،
ڈپٹی کمشنر میرپور چوہدری گفتار حسین، ایس ایس پی راجہ عرفان سلیم، ڈی ایس
پی چوہدری مظہر اقبال، ڈی ایس پی مرزا زاہد،ٹریفک انسپکٹر انچارج اشتیاق
گیلانی، ڈاکٹر سی ایم حنیف، ڈاکٹر ریاست علی چوہدری، ڈاکٹر امجد ، ڈاکٹر
طاہر، ایڈمنسٹریٹر بلدیہ الحاج غلام رسول عوامی ؔ ، استاد محترم راجہ حبیب
اﷲ خان، ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین ہمایوں زمان مرزا ، دی گائڈینس ہاؤس
سکول اینڈ کالج سسٹم کے سٹوڈنٹس سمیت معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے
افراد نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی۔ قائداعظم چوک سے شروع ہونے والی یہ
واک بلدیہ عظمیٰ تک جاتے جاتے ٹریفک کے قوانین کے حوالے سے عوام الناس میں
شعور بیدار کرنے میں لٹریچر بھی بانٹتی گئی اور انتہائی تہذیب یافتہ انداز
میں یہ پیغام بھی دیتی چلی گئی کہ شہریوں کی بہتری اور جان و مال کے تحفظ
کے لیے ٹریفک کے قوانین پر عمل کیے بغیر ہم اپنی منزل حاصل نہیں کر سکتے۔
دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کرنا ہر شہری
اپنا فرض سمجھتا ہے ٹریفک قوانین پر عمل کرنے کے حوالے سے ایسے ایسے واقعات
سننے میں آتے ہیں کہ آزاد کشمیر اور پاکستان میں رہ کر یقین نہیں آتا کہ
ٹریفک قوانین کس حد تک ان ممالک میں موثر ہیں اور ڈرائیونگ لائسنس سمیت
دیگر دستاویزات کس حد تک مقدس ڈاکومنٹ تصور کی جاتی ہیں۔ نیشنل یوتھ فورم
کی طرف سے معاشرے کی بہتری اور فلاح کے لیے اٹھائے جانے والے اس عملی اقدام
کی تحسین اور حوصلہ افزائی انتہائی ضروری ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ان نوجوانوں
اور بچوں کے انتہائی پرخلوص اور معصوم جذبات کا یہ معاشرہ بھی احترام کرے
گا اور ریاستی سطح پر ٹریفک قوانین کے اطلاق کے حوالے سے بھی عملی اقدامات
دیکھنے میں آئیں گے۔
قارئین یہاں سے ہم کالم کا ایک دوسرا حصہ آپ کے سامنے پیش کرتے چلیں گزشتہ
دنوں آزاد کشمیر پولیس کے چند ہر دلعزیز ترین آفیسرز میں سے ایک راجہ عرفان
سلیم کو سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس کی حیثیت سے میرپور میں ترقی دی گئی ان کی
ترقیابی کے حوالے سے تمام شہری حلقوں میں زبردست قسم کا جوش و خروش دیکھنے
میں آیا ہے انجمن تاجران سے لے کر تمام ایسوسی ایشنز سے تعلق رکھنے والے
معزز افراد اس مقدار میں پھول اور مٹھائیاں لے کر ان کے دفتر پہنچے کہ
’’دروغ بھر گردن راوی ‘‘ سننے میں آیا ہے کہ ان کا دفتر پھولوں اور
مٹھائیوں کی ایک دکان کے اندرتبدیل ہو چکا ہے۔ راجہ عرفان سلیم کو اس انداز
میں مبارکباد پیش کرنا میرپور شہر میں امن و امان کے حوالے سے شہریوں کی
طرف سے ان سے وابستہ انتہائی بلند قسم کی توقعات کی غمازی کر رہا ہے راجہ
عرفان سلیم سے ہمارا برائے راست کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں نہ تو کوئی جرم
کرنے کے حوالے سے اور نہ ہی اپنی کسی شکایت یاسفارش کے حوالے سے۔آپ حیران
ہوں گے کہ پھر یہ تین تعلق کس طرح ہوئے تو جناب پہلا تعلق استاد محترم راجہ
حبیب اﷲ خان کے ذریعے قائم ہوا ۔ راجہ عرفان سلیم جب محکمہ پولیس میں بھرتی
ہونے کے لیے دوڑ لگا رہے تھے تو اس مقابلے میں راجہ عرفان سلیم میں اول
پوزیشن حاصل کی جبکہ استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان نے رنراپ رہے۔دوسرا تعلق
ہمارے مہربان شفیق دوست ڈاکٹر ریاست علی چوہدری سابق صدر پاکستان میڈیکل
ایسوسی ایشن اور ڈاکٹر سی ایم حنیف چیئرمین سٹی فورم کے ذریعے قائم ہوا جو
گزشتہ کئی سالوں سے دوستانہ محفلوں میں راجہ عرفان سلیم کے پروفیشنل ازم کے
رطب السان رہے۔ تیسرا تعلق جو ایک انتہائی غمگین اور خوف ناک حادثے کے بعد
قائم ہوا اس کے متعلق ہمارے کالمز کے مستقل قارئین جانتے ہیں۔ آج سے چند
ماہ قبل آزاد کشمیر کے عظیم ترین طبی محسنوں میں سے ایک محسن ڈاکٹر جی ایم
پیرزادہ کی اہلیہ محترمہ کو ان کے گھریلو ملازم نے مبینہ طور پر روپے پیسے
کے لالچ میں آ کر انتہائی بے دردی سے قتل کیا ۔ ڈاکٹر جی ایم پیرزادہ کے
صاحبزادے ہمارے مہربان دوست ہیں ڈاکٹر معید پیرزادہ پرنٹ اور الیکٹرانک
میڈیا میں پوری دنیا میں پاکستان کی شناخت ہیں انہوں نے راجہ عرفان سلیم نے
ابتدائی چند دنوں میں ملاقاتوں کے دوران اپنی والدہ محترمہ کی اچانک وفات
کے حوالے سے تشکیک کا اظہار کیا اور چند باتوں کی جانب اشارہ کیا اور راجہ
عرفان سلیم پیشہ ورانہ مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے 24گھنٹوں کے اندر سفاک ملزم
کو گرفتار کر لیا۔ ڈاکٹر جی ایم پیرزادہ کی اہلیہ محترمہ اور ڈاکٹر معید
پیرزادہ کی والدہ محترمہ ہی وہ ہستی ہیں جنہوں نے میدان صحافت میں قدم
رکھتے ساتھ ہی راقم کو ’’کالم نویسی‘‘ کا انتہائی شفیق اور صائب مشورہ دیا
تھا۔ آج اسی مشورے اور رہنمائی کی وجہ سے راقم اس میدان میں آپ کے سامنے
مختلف موضوعات پر ’’قلم کاری ‘‘ کرتا رہتا ہے ۔ اس دوران صحافت کے مختلف
مراحل سے گزرتے ہوئے ہم نے صحافت کو طلاق دینے کا سوچا تو استاد محترم راجہ
حبیب اﷲ خان نے طلاقِ بائن کے بعد رجوع کرنے کے حوالے سے راقم پر شفقت کی
اور ساتھ سختی بھی کی۔ خیر کچھ بھی ہو ایس ایس پی راجہ عرفان سلیم سے دیگر
شہریوں کی طرح ہماری بھی انتہائی معصوم قسم کی توقعات ہیں ہمیں امید ہے کہ
میرپور میں چوریاں ہونا کم ہو جائیں گی، قانون شکنی کرنے والوں کا آہنی
ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، ڈاکو ، رسہ گیر اور قبضہ مافیا بیک فٹ پر چلے
جائیں گے اور جرائم کی نمایاں بیخ کنی کے حوالے سے ایس ایس پی راجہ عرفان
سلیم اپنا موثر ترین کردار ادا کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی امید
رکھتے ہیں کہ نیشنل یوتھ فورم نے ٹریفک قوانین سے آگاہی کے متعلق جس واک کا
اہتمام کیا اور اس میں انہوں نے شرکت بھی کی وہ ان ٹریفک قوانین کو ’’عوام
دوست ‘‘ انداز میں لاگو کریں گے کیونکہ شہریوں کو یہ بھی شکایت ماضی میں
رہی ہے کہ جب بھی ٹریفک قوانین لاگو کرنے کی مہم سامنے آئی تو ’’پیداگیر
مافیا‘‘ نے اپنی کاروائیاں بھی ڈالنا شروع کر دیں۔ ایس ایس پی عرفان سلیم
کو اس حوالے سے انتہائی گہری نظر رکھنا ہو گی تاکہ عوام میں کسی قسم کی
بددلی یا غلط فہمی نہ پھیلے۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
مشہور و معروف شاعر جوش نے پاکستان کے ایک وزیر محترم کو اردو میں خط لکھا
جس کا جواب انہوں نے انگریزی میں ارسال فرمایا
انگریزی خط کا جواب دیتے ہوئے جوش نے لکھا
’’جناب والا میں نے تو آپ کو اپنی مادری زبان میں خط لکھا تھا لیکن آپ نے
اس کا جواب اپنی پدری زبان میں تحریر فرمایا ہے‘‘۔
قارئین نیشنل یوتھ فورم کے بچوں نے اپنے معصوم جذبات کا اظہار اپنی مادری
زبان میں کر دیا ہے امید ہے کہ ریاست بھی اس کا جواب اسی شفقت سے دے گی اور
معاشرہ بھی اسی انداز میں اس پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ |