پچھلے کئی روز سے جس تواتر کے ساتھ معصوم بچیوں کے ساتھ
جنسی درندگی کے جو واقعات ہما رے سامنے آ رہے ہیں وہ یقینا ہم سب کیلئے نہا
یت باعثِ افسوس اور تشویش ناک ہیں۔اِ س وقت ایک بڑے قومی اخبار کا صفحہ اول
میرے آنکھوں کے سامنے ہے ،جس کی چند نمایاں سر خیاں کچھ یو ں ہیں۔ ’’ سندر
اور قصور میں درندہ صفت ملزمان کی دو کمسن بچیوں سے زیا دتی‘‘شاہدرہ ٹاون
میں اوباش نو جوان کی دس سالہ بچے سے بد فعلی‘‘ سنبل سے زیا دتی کا کو ئی
ملزم گرفتار نہ ہو سکا، چھاپے جاری‘‘۔۔ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟ اور اس کا سدِ
با ب کیا ہے ؟ اس کا جا ئزہ لینے کے لئے اگر ہم جنسی تاریخ پر ایک طا ئرانہ
نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ جتنی انسانی تاریخ قدیم ہے اتنی ہی انسان کی
جنسی تاریخ بھی قدیم ہے۔جنسی خواہش زمانہ قدیم کے غیر مہذب اور وحشی انسان
میں بھی مو جود تھی اور آج کے مہذب انسان میں بھی بد جہ اتم مو جود ہے۔بھوک
اور پیاس کی طرح جنسی خواہشات کا پیدہ ہو نا فطری امر ہے ۔انسان کی بنیادی
ضروریات جن میں روٹی، کپڑا اور مکان شامل ہیں۔با لکل اسی طرح جنسی خواہشات
کا پیدا ہونا اور جائز طریقہ سے تسکین و تکمیل اشد ضروری ہے۔یہ خواہش جانور
اور پرندے بھی رکھتے ہیں،جنسِ مخالف سے ملاپ کی خواہش ہر انسان کی فطرت میں
شامل ہو تی ہے۔اس کی شدت کے پیشِ نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان کا دم
پہلے نکلتا ہے اور خواہش بعد میں دم تو ڑتی ہے۔لہذا یہ کہنا کہ انسان اس
خواہش سے ہی دست بردار ہو جائے، با لکل ناممکن ہے۔البتہ اس رجحان میں جو
اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اس کی بڑی وجہ عصرِ حاضر میں استعمال ہو نے والی
سائنسی ایجادات ، کمپیو ٹر، انٹر نیٹ،فلمیں،الیکٹرانک اور پر نٹ میڈیا ہے
جو نئی نسل کو ایک طرف کئی سہو لیات میسر کر رہا ہے مگر دوسری طرف اسے جنسی
بے راہ روی کی طرف بھی راغب کر رہا ہے۔گویا یہ وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے
ہمارا معا شرہ بے راہ روی کی انتہا کو چھو رہا ہے۔وطنِ عزیزمیں انسا ن کا
خون بہانا تو گزشتہ کئی سالوں سے بچوں کا کھیل بن چکا ہے ۔ جس بے دردی کے
ساتھ ہما رے ہاں انسان ، انسان کو قتل کر رہا ہے، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ
ہمارا معاشرہ گراوٹ کی انتہا کو پہلے سے ہی چھو رہا ہے مگر اب جس درندگی کے
ساتھ معصوم اور نا با لغ بچیوں اور بچوں کی عزت کی پامالی کے جو واقعات
سامنے آ رہے ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمارا معاشرہ انسانوں
کی نہیں، درندوں کا معاشرہ بن چکا ہے۔اگر معاشرتی گراوٹ ایسی انتہا کو پہنچ
جا ئے تو وہاں بد امنی، بھتہ خوری، بے روزگاری،مہنگائی، ملکی خزانے کی لوٹ
مار اور قتل و غارت اس معاشرے کا مقدر بن جاتی ہے۔
بحر حال اس معاشر ے کا ایک حصہ ہو نے کی بناء پر ہم سب کایہ فرض بنتا ہے کہ
ہم سب یہ سوچیں، غور کریں کہ اس بگا ڑ کوکیسے ختم یا کم کیا جا سکتا ہے ۔
مغرب نے تو اس کا حل یہ نکالا ہے کہ اپنے معا شرے کو مکمل جنسی آ زادی دے
رکھی ہے جو کو ئی جیسے چاہے، جس وقت چا ہے، اپنے جنسی خواہش کو بلا روک ٹوک
پورا کر سکتا ہے ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جنس کے معاملہ میں مغرب کا
انسان جانوروں سے بھی آ گے نکل گیا ہے۔وہ اس معاملے میں جس انتہا کو چھو
رہا ہے اسے دیکھ کر تو شیطان بھی شر ما رہا ہو گا۔ اﷲ کے فضل و کرم سے ہم
دینِ فطرت یعنی اسلام کے پیر و کار ہیں، جس میں اس فطری خواہش یعنی جنسی
خواہش کو جا ئز طریقوں سے پو را کرنے یا اپنی جنسی خواہشات کو قابو میں
رکھنے کے لئے مکمل راہنمائی مو جود ہے جس کی تفصیل اگر چہ یہاں کالم میں
بیان کرنا ممکن نہیں،کوئی چا ہے تو قرآن مجید اور احادیث نبوی ؐ کی کتب یا
عالمِ دین سے آسانی سے راہنمائی حاصل کر سکتا ہے البتہ یہاں سرورِ کا
ئنات،سردارِ دو جہاںؐ کی ایک حدیث نقل کرتا چلوں فرماتے ہیں کہ ’’
مرد و زن کی نظریں ابلیس کے تیروں سے زیادہ زہر آلود ہیں ‘‘آج ابلیس کے
تیروں کی چونکہ ہر طرف بو چھاڑ ہے لہذا ہر مرد و زن کا یہ فرض بنتا ہے کہ
وہ ابلیس کے تیروں سے بھی ذیادہ مہلک تیروں سے اپنے آپ کو بچا کر رکھے،اپنی
نظریں نیچے رکھے ، پانچ وقت نماز پڑھے اور اﷲ اور اسکے رسولؐ کے بتائے ہو
ئے راستے پر چلتے ہوئے زندگی گزارے۔
معاشرے میں پھیلتے ہو ئے ایسے قبیح جرائم ( جنسی درندگی) جہاں ہماری
اجتماعی شعور کے لئے لمحہء فکریہ ہیں، وہاں حکومتی انتظامی مشینری کا بھی
یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ان جرائم کی بیخ کنی کے لئے مو ثر اقدامات کو یقینی
بنائے اور معصوم بچیوں اور بچوں کی عزتوں کی پا ما لی جیسے سنگین جرائم میں
ملوث افراد کو معاشرے میں عبرت کا نشان بنائے تا کہ پرا گندہ ز ہنیت کے
لوگون کو ایسے جرائم کے ارتکاب کی جرات ہی نہ ہو۔کیو نکہ ہر حکومت کی یہ
ذمہ داری بنتی ہے کہ معاشرے کے بگاڑ کا با عث بننے و الی تمام عوامل کا
تدارک کرے۔حکمرانوں کو مظلوم خا ندانوں سے محض زبانی اور رسمی ہمدردی کا
اظہار نہیں کرنا چا ہئے بلکہ مجرمان کو کیفر کردار کو پہنچا کر مظلوم خا
ندانوں کے انصا ف کا تقاضا بھی پو را کرنا چا ہئے۔۔۔۔۔۔۔ |