(سلطان محمود کوثر)
متُو رام ذات کا برہمن ، شریف اور نرم خو شخص تھا۔ وہ ہر طرح کے کریت و
کرودھ سے دور رہتا ۔ اپنے گاؤں کی مذہبی رسومات کی انجام دہی سے حاصل ہونے
والے نذرانے کے علاوہ بھی اس کے گھر میں اناج اور ساگ پات کی اس لئے کوئی
قلت نہ تھی کہ وہ گاؤ ں کا اکیلا بِسواہ دار تھا۔ بظاہر کسی اسامی کو اُس
سے شکایت نہ تھی ۔ گاؤں کی اکثر آبادی غریب اور سادہ مزاج تھی۔
لوگ متورام کو ادب سے ــ’’متاکاکا‘‘ کہتے تھے۔ گاؤں میں کئی گھر مسلمانوں
اورکچھ سکھوں کے ھی تھے ۔ لیکن اکثریت آبادی کا دھرم ہندومت تھا ۔ متو کا
کا غیر متنازعہ طور پر اُس گاؤں کی بزرگ اور معزز شخصیت مانے جاتے تھے۔
ہندو تہواروں میں دیگر مذاہب کے لوگ بھی شریک ہوتے مگر مسلمانوں کے مذہبی
تہواروں میں متاکا کا کی زیرِ قیادت ہندؤوں کی شرکت رونق بڑھا دیتی۔ عید ین
کے موقع پر کاکا سفید لٹھے کاخصوصی کرتا زیب تن کر، خوشبو لگا، اپنے کندھے
پر تھیلا لٹکاکر صبح سویرے گھر سے نکلتے تو لگتا عید صرف انہی کی ہے ۔ گاؤں
بھرکی عورتیں ان مواقع پر اپنے کچے گھر گھر وندے لیپ مانجھ کر صاف ستھرے
کرتیں اورفرصت ملتے ہی اڑوس پڑوس میں مسلمانوں کے گھرجاکر مبارک باد دیتیں
۔ متا کا کا تو سارا دن اسی مصروفیت میں رہتے اور شام ڈھلے مندر سے ہوہوا
کر گھر لوٹتے ۔ یہ پیار و محبت یکطرفہ نہ تھا بلکہ مسلمان پیر جواں بھی
ہولی دیوالی کے موقع پر رنگ و نور کی محفلوں میں شریک ہوتے ۔ یہ الگ بات کہ
اگر کوئی نا سمجھ منچلا اُن پر کبھی بھول کر رنگ پھینک دیتا تو متاکاکا نہ
صرف اُسے ڈانٹتے بلکہ خود کُوزہ لے کر کپڑا دھونے اُٹھ دوڑتے ۔
یہ کاکا کی تربیت کا اثر تھا کہ اُن کے دونوں لڑکے سیتا رام اور مستی رام
جن کی عمریں دس اور بارہ سال تھیں مثالی طور پر تابع فرمان ، مزاجاً اپنے
باپ کی طرح حلیم الطبع اور رکھ رکھاؤ والے تھے ۔ گاؤں میں کسی کو کسی کے
دین دھرم سے کچھ لینا دینا نہ تھا ۔ سب میں ایک نا معلوم مگر مضبوط اخوت کا
رشتہ تھا۔
متورام کا چھوٹا بھائی لبھو رام عرف لَبھا کاکا لین دین کا سخت پر بامروّت
اوراپنے کام سے کام رکھنے والا شخص تھا۔ پستہ قد لبھا کاکا کی کل مصروفیت
اس کا گھراہٹ تھا۔ جس کی دیکھ بھال کرنے اور چلانے کی ذمہ داری میں چوکیدار
لسّہ جوُ شراکت دار تھا۔ اناج کی پِسائی سے حاصل ہونے والی اُجرت بھی اناج
ہی کی شکل میں وصول کی جاتی اور ہر اتوار کو یہ اُجرت جسے مقامی زبان میں
ـ"بڑہائی " کہتے تھے ، دونوں شراکت دار وں میں تقسیم ہو جاتی ۔ تقسیم
کاکلیہ نہایت ہی سادہ تھا۔ اناج ناپنے کامقامی پیمانہ لکڑی کا بناہوا کٹورا
نمابرتن ’’چوا ہ ‘‘ تھا ، جس میں پکے دوسیر اناج آتاتھا۔ لبھا کاکادو اونی
چادریں بچھاتا ۔ ایک چواہ لسّہ جُو کی چادر پر جبکہ دو چواہ اپنی چادر پر
ڈالتاجاتا۔ بٹوارے کی خبریں کبھی کبھار سننے کو ملتی تھیں مگر ملک میں
کیاہورہاتھا ، انہیں نہ اس کی زیادہ خبر تھی نہ اس سے غرض۔
چند روز سے گاؤں کی چھوٹی کچی مسجد میں بابا جی نام کے ایک صوفی بزرگ ٹھہرے
تھے ۔ اُن کی مشفّقانہ گفتگو اور نورانی چہرے کی کشش سے ہمہ وقت اُن کے گرد
دس بیس افراد کا مجمع لگارہتا۔ ان لوگوں میں ہندو نوجوان بھی ہوتے ، جو
بابا کی مجلس سے واپسی پر اُن کی باتوں پر تبصرہ کرتے رہتے ۔ لالا متو رام
نے کبھی اس بات سے تعّرض نہ کیا کہ اُن کے بیٹے بھی آتے جاتے بابا کی مجلس
میں بیٹھتے ہیں ۔
ایک روز صبح سویرے جب لبھاکاکا مندر میں حاضری دے کر اپنے گھراہٹ کو چالو
کرنے کی تیاری کر رہا تھا۔ اس کی ایک کمرے کی سادہ سی چھونپڑی کے باہر
کھانسنے اور پھر اندر آنے کی اجازت طلب کرنے کی نا مانوس آواز آئی ۔ جواب
دینے کے بجائے کاکا تجسس میں باہر آئے تو ایک سفید ریش بزرگ نے جھک کر آداب
کیا ۔ اور اپنا نام عبداﷲ بتایا۔ مزید استفسار پر پتہ چلا کہ یہ وہی بزرگ
’’باباجی‘‘ہیں اور متاکاکا سے ملنے کے خواہش مند ہیں ۔ لبھاکاکا
طبعاًبامروّت شخص تھا ۔ اس نے اپنی اونی چادر سے قریبی سِل صاف کر اسی چادر
کو پتھر پر بچھایا۔ بابا اُس پربیٹھنے سے ہچکچا رہے تھے مگر لبھا کا کا نے
لجاجت سے عرض کی تو سکڑ سمٹ کر بیٹھ ہی گئے ۔ اسی اثنا میں لالا متو رام
بھی آگیا ۔ اس نے بابا جی کو پرنام کیا اور جُھک کر بابا کے پاؤں چھونے کی
کوشش کی تو بابا نے کندھوں سے پکڑ لیا اور عاجزی سے بولے "میں تو عبداﷲ
ہوں۔۔ ۔ مالک کا بندہ" ۔ کاکا بولے ہم سب بھی تو مالک ہی کے بندے ہیں ۔
اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ کاکا کے گھر سے نو ن چائے کی سماوار آئی ۔
نئے مٹی کے پیالے کو بار بار دھویا گیا اور بابا کو اس میں چائے پیش کی گئی
۔ کچھ دیر بعد باباجی نے واپسی کی اجازت چاہتے ہوئے اپنی آمد کا مدعا بیان
کیا ۔ متو کاکا نے وعدہ کیا کہ وہ مسجدکی توسیع پر نہ صرف خوش ہیں بلکہ
مقدور بھر افراد ی قوت بھی فراہم کریں گے ۔ مندر کے قریب واقع مسجد کی
توسیع ہو گئی ۔ کاکا کے چھوٹے بیٹے مستی رام نے بڑھ چڑ ھ کر کام کیا ۔
ِلپائی کیلئے پاک چکنی مٹی گاؤں کے باہر سے لائی گئی ۔ اور اسکے لئے
ہندوعورتوں نے نئی ٹوکریوں کے ساتھ حصہ لیا ۔ غرض مسجد کی یہ عمارت ہندو
مسلم ہر دو کیلئے مقدس و مکّرم ٹھہری ۔ گاہے بگاہے کا کا بھی تعمیر کا کام
دیکھنے آتے اور مناسب مشورہ دیتے۔ خاص کر مسجد کی چھت پر ’’بھوج پتر‘‘کاکا
کے مشورے سے بچھایا گیا جس سے چھت ٹپکنے سے محفوظ ہو گئی ۔ بابا جی بارے
کاکا کے پاس حاضرہوئے اورشکریہ اداکرنے کے بعد مشورہ دیا کہ گاؤں کے مندر
کی بوسیدہ عمارت کی بھی تعمیر نو کی جائے ، جس میں مسلمانوں کو اپنا حصہ
ڈالنا چاہیے۔ مگر چونکہ خزاں کے موسم کا آغاز ہو گیا تھا اور سرد یاں قریب
تھیں ۔ نہ جانے کب برفباری شروع ہو جائے ۔ بہار ابھی دور تھی اس لئے دونوں
بزرگوں کی مشاورت سے مندر کی تعمیرِ نو کا کام بہار تک ملتوی کر دیا گیا ۔
اگلے روز باباجی نامعلوم منزل کی جانب روانہ ہوئے تو مستی رام نے ضد کی کہ
وہ بھی قافلے کے ساتھ گاؤں کی سرحد تک جانا چاہتا ہے اور کاکا نے بخوشی
اجازت دے دی ۔ لیکن مستی رام واپس نہ لوٹا اور پیغام بجھوا دیا کہ وہ بابا
جی کو اگلے گاؤں چھوڑ کر ہی آئے گا۔ اگلے گاؤں کے بعد اس سے اگلا گاؤں اور
دنوں کے بعد ہفتے۔اور جب لوٹا تو آدھا ’ مُسلا‘ ہو چکا تھا۔ اس کی باتوں سے
زِچ ہو کر سیتا رام نے کاکا سے شکایت کی ’’اس کا دھرم نشٹ ہو گیا ہیــ‘‘ ۔
کاکا کواس بات پر سخت تشویش ہوئی مگر اُن دنوں خشک سالی کے باعث قحط اور
پھر چیچک کی مُہاماری کے ساتھ ساتھ سرکار کی بدانتظامی اور لُوٹ کھسوٹ نے
زندگی اجیرن کردی تھی۔ اس لئے دین دھرم کے معاملات ثانوی حیثیت اختیار کر
گئے تھے ۔ وبانے گھروں کے گھر اجاڑ دیئے تھے۔ جوبچ گئے وہ بھی خوف اور غم
سے نیم مردہ تھے۔ چنددن میں ہی اس وبا سے کاکا بھی سوّرگ سدھار گئے اور
نوتعمیر شدہ مسجد کے باباجی کے مقرر کردہ پیش امام بھی اس کا شکار بنے۔
مصائب و آلام کا شکار بچی کُھچی آبادی خوف زدہ مایوس اور بے یارو مددگار
تھی ۔ گاؤں میں کوئی صاحب ِ حیثیت شخص بچا نہ تھا۔ اس لئے ہر کوئی انفرادی
طور پر زندہ رہنے کی تگ ودو میں تھا ۔
کچھ سالوں بعد جب لوگوں کی حالت قدرے سنبھلی تو انہوں نے باباجی اور کاکا
کے منصوبہ کے مطابق مندر کی تعمیر نو کے متعلق صلاح مشورہ شروع کردیا۔ اس
دوران گاؤں کی مسجد میں کسی دوسری جگہ سے آیا ہوا ایک جوان جو اپنے آپ کو
عالم کہتا اور سمجھتاتھا، پیش امام مقرر ہو چکا تھا ۔ جبکہ مندر کے پروہت
پجار ی کا عہدہ کاکا کے بڑے بیٹے سیتا رام کے سپرد ہو گیا تھا، جسے اپنے
بھائی مستی رام کی مسجد نوازی اور مسلمانوں کی بے جا طرف داری بہت کھٹکتی
تھی۔ مگر مروت و اخوّت اور بوڑھی ماتا کااحترام اُسے تلخ کلامی سے روکے
رکھتا۔ پھر ایک روز توحد ہی ہو گئی ۔ مستی رام نے نہ صرف اپنے نام سے ’رام‘
کو الگ کر دیا بلکہ موقع ملنے پر مسجد بھی جانے لگا ۔ مقامی لڑکے بالے آتے
جاتے اُس پر منہ دوسری طرف موڑ کر ’’مسیتا مسیتا‘‘ کے آواز ے کستے رہتے ۔ان
حالات سے تنگ مستی رام جو اب صرف مستی رہ گیا تھا، نے گھر آنا چھوڑ دیا۔ وہ
مسجد سے متصل چھوٹے سے حجرے میں نوجوان پیش امام کے ہاں رہنے لگا اور اپنا
نام مستی رام سے بدل کر مستان رکھ لیا۔
یہ خبر اس کے گھر میں سخت نا گواری اور پریشانی سے سنی گئی۔ آس پاس کے
علاقوں کے پروہت پجا ری بھی اس پر اپنی چِنتا چھپا نہ سکے اور سیتا رام سے
مل کر اس مسئلے کا حل دریافت کرنے کی سوچنے لگے۔ اُدھر وقفے وقفے سے اِکا
دُکا لوگ جن کا حلیہ نوجوان پیش امام سے ملتا جلتا تھا آتے ، حُجرے میں کچھ
مشاورت کرتے اور لوٹ جاتے ۔ اس مشاورت میں مستان کو مرکزی حیثیت دی جاتی
تھی ۔
کچھ وقت تک تو یہ سلسلہ جاری رہا ۔ پھر ایک روز جوگیوں،پجاریوں اور سادھو
سَنتوں کی پنچائیت نے اعلان کیا کہ مستی رام کو ہر صورت دھرم میں واپس آنا
ہو گا۔ اس کیلئے پیش امام صاحب و دیگر مسلم معززین سے بات چیت کرنا طے ہوا
۔ نیز قریبی گاؤں کے ایک جوگی سادھو بابا سُکھا بجھرنگی کی قیادت میں مندر
کی تعمیر نو بھی جلد شروع کر نے پراتفاق ہوا ۔ پیش امام سے بات چیت کیلئے
جانے والے جرگہ کی قیادت سیتا رام کر رہا تھا۔ مستی رام عرف مستان کو حجر ے
سے نکالنے اور ہند و دھرم میں واپسی کے مطالبے کو ارد گرد کے علاقوں سے
آمدہ مستان کے مذہبی حامیوں کے گروہ نے نا ممکن العمل اور تو ہین آمیز قرار
دیا۔ یہ دھمکی بھی دی گئی کہ اگر لوگوں کو مسلمان ہونے سے روکا گیا تو اسکے
سنگین نتائج ہونگے۔ جرگہ کی واپسی کے وقت مستان نے سیتا رام کو دھمکی دی کہ
وہ بھلے اس کا بھائی ہو، پراپنے دماغ سے مندر کی تعمیر کا ارادہ نکال دے ۔
اس نے یہ دھمکی بھی دی کہ مندر مستان کی لاش پر ہی بنے گا اور معنی خیز
نظروں سے پیش امام صاحب کی جانب دیکھا۔ جواباً سیتا رام کچھ دیر مستان کو
گھورتا رہا۔ جب جرگے نے سیتا رام کو چلنے اور مستان کو سبق سکھانے کی ملفوف
دھمکی دی تو سیتارام بولا ’’یا د رکھ مستی رام ، مندر نہ بنا تو مسجد بھی
نہ رہے گی‘‘۔ ’’مرگیا مستی رام۔۔۔۔ میں مستان ہوں ۔۔سنا تم نے ۔۔مستی رام
مستی رام ۔ ۔۔۔ ‘‘ مستان ہسٹیریائی انداز میں چیخا۔ ’’ دیکھ لیں گے سب کو
‘‘ ۔ غصے سے مستان کی آنکھیں اُبل پڑیں۔ پیش امام صاحب نے نرمی سے اس کے
کاندھے پر ہاتھ رکھا اور سر کی جنبش سے واپسی کا اشارہ کیا۔ قریبی فاصلے پر
کھڑا جوگی بابابجھرنگی اپنی بے ہنگم بڑھی ہوئی الجھی داڑھی کھجاتے ہوئے
کنکھیوں سے سارا ماجرا دیکھ رہاتھا۔ اس کے ہونٹوں پر خفیف سی پراسرار
مسکراہٹ اُبھری ، اُس کے سرنے مثبت انداز میں معنی خیز جنبش کی۔
بابابجھرنگی نے اپنا ترسُول زمین پر عموداً پٹخا اورسرجھکا پر واپس چل دیا۔
ادھر ایک رات جب ہرجانب ظُلمت اور سناٹے کا راج تھا، دیار کی چھوٹی چھوٹی
چیری ہوئی لکڑیوں کے مُٹھے جسے مقامی زبان میں ’’دِلہی‘‘کہتے تھے ، کی
روشنی میں لبھاکاکا اور لسّہ جُو اپنے گھراہٹ کا پتھر مخصوص ہتھوڑیوں کی
مدد سے تیار کررہے تھے کہ اچانک گھراہٹ کے دروازے پر زوردار لات پڑی۔ اس سے
قبل کہ معاملہ سمجھ میں آتا ، تین نقاب پوش اند ر داخل ہوئے اور بندوقیں
تان لیں۔ دو دراز قد نقاب پوشوں کی زبان نامانوس اور کرخت تھی۔ جبکہ ایک
نسبتاً پستہ قد اور مقامی معلوم ہوتاتھا۔ لبھَا اور لسّہ ہاتھ جوڑے کھڑے
کپکپارہے تھے ۔ انہیں سمجھ نہیں آرہاتھا کہ یہ کون لوگ ہیں اور کیاچاہتے
ہیں۔ دونوں کا تعارف پوچھا گیا۔ لبھورام کو منہ دیوار کی طرف کرکے چپک کر
کھڑے رہنے کا حکم دیتے ہوئے ایک دراز قد نقاب پوش نے اُس کی کمر میں زور سے
لات رسید کی۔ نقاب پوش کے منہ سے نکلنے والے ناقابلِ فہم الفاط غالباً غلیظ
گالیاں تھے۔ لسّہ جو سے چند کلمے سنے گئے جس کے بعد نقاب پوشوں کا رویہ اس
کے ساتھ قدرے دوستانہ ہوگیا۔ ایک نقاب پوش رائفل کی نال بدستور لبھا کی کمر
میں زور سے چھبو ئے ہوئے تھا۔ لسّہ جُو کو حکم دیا گیا کہ وہ خاموشی سے
قریب میں واقع اپنے گھر جائے اور کچھ ساگ روٹی اور جوبھی پکا ہولے آئے۔
اُسے خبر دار کیاگیا کہ اگر اس نے نقاب پوشوں کے بارے میں کسی سے تذکرہ تک
کیاتو اُسے بال بچوں سمیت گولیوں سے بھون دیاجائے گا۔ جاتے جاتے ایک نقاب
پوش نے اشارے سے اُسے تنبیہ کی کہ دیر لگانے کی صورت میں وہ لبھا کو مار
ڈالیں گے۔ یہ سنتے ہی لسّہ جُو نقاب پوشوں کے پاؤں پڑگیا اور گڑگڑا کر
درخواست کرنے لگا کہ اس کے ساتھی کو نہ ماراجائے۔ وہ بہت جلد ی واپس آجائے
گا۔ اور وہ جلدی آبھی گیا۔ مکئی کی ٹھنڈی روٹیاں اور تازہ جنگلی لانگڑو کا
ساگ پا کر نقاب پوش کھانے پر ٹوٹ پڑے۔ اس دوران لسّہ جو کو بھی منہ دیوار
کی طرف کرکے بیٹھنے کا حکم ملا۔ چور آنکھ سے لسّہ جو نے جب اُنہیں روٹی
کھاتے دیکھنے کی کوشش کی تو دِلہی کی کمزور روشنی میں وہ لوگ سخت دہشت ناک
لگ رہے تھے۔ لسّہ جُو نے ایک جھرجھری لی اور معاملہ سمجھنے کے لئے اپنے
دماغ پر زور ڈالنے لگا۔ باہر اندھیری رات تھی۔ اور وہ دونوں نقاب پوشوں کے
ہاتھوں یر غمال بنے ہوئے تھے۔ کھانا ختم ہوا تو دونوں کی اُونی لوئیاں چھین
کر ایک کونے میں بچھادی گئیں۔ دونقاب پوش آرام کرنے لگے جبکہ ایک پہرہ
دیتارہا۔ مرغ نے اذان دی تو وہ لوگ ہڑبڑا کراُٹھ بیٹھے۔ ایک دوسرے سے کچھ
سرگوشیاں کیں۔ لبھااور لسّہ جُو کو بندوق کی نال سے آگے چلنے کا اشارہ کیا۔
پستہ قد نقاب پوش نے لسّہ جُو کے کان میں کچھ کہا ۔ جس پر وہ قدرے ہچکچایا
تو ایک دراز قد نقاب پوش نے آگے بڑھ کر رائفل کی نالی اُس کی کنپٹی پر رکھ
دی۔ اور پھریہ لوگ قریبی گاؤں کی جانب آہستہ آہستہ گِھسٹنے لگے۔
پوپھٹے گاؤں سے پرے ایک گولی چلنے کی آواز آئی تو کوئی کچھ نہ سمجھا۔ زندگی
معمول کے مطابق رواں دواں تھی کہ اچانک گاؤں سے ذرا دور گھاس کی رکھ کے
بیچوں بیچ گذرتی پگڈنڈی پر کچھ وردی پوش گاؤں کی جانب آتے دکھائے دئیے۔ اُن
کے آگے آگے رسی سے ہاتھ بندھے ایک گرفتار شخص بھی تھا۔ لوگ تجسس اور خوف کے
عالم میں گھروں کے طاقچوں سے جھانک کرمعاملہ سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔ ایک
ِنسبتاً بڑے کوٹھے پر کوتوال جی کے لئے چارپائی بچھائی گئی۔ گرفتار شخص کے
منہ پرسے کپڑا ہٹایا گیاتو لوگوں کا خوف حیرت میں بدل گیا۔ یہ لسّہ جو
چوکیدار تھا۔ کو توال جی نے مجمعے کو مخاطب کرکے کہاکہ " یہ ہتیارا ہے ۔ اس
نے ایک شخص کی ہتیاکی ہے"۔ لسّہ جو نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو ڈوگرہ سپاہی
نے بجلی کی سی تیزی سے اپنی چھڑی اُس کے سر اور جسم پر برسانا شروع کردی ۔
اوروہ کوٹھے پر ڈھیر ہوگیا۔
لسّہ جُو کی بیوی کو بلوا کر کوتوال جی کے پاؤں میں بٹھایا گیا، اور بتایا
گیا کہ اُس کے خاوند نے نہ صرف ایک شخص کی ہتیا کی ہے بلکہ ’’گداروں کی
سہائیتا ‘‘ بھی کی ہے۔ اس لئے ’’ ہتیا اور دیش دروہی ‘‘ کے جُرم میں اُسے
گرفتا کیاگیاہے۔
’’ پوچھ کاکی۔۔۔۔۔۔ پوچھ اس سے ۔ اس نے ایسا کیوں کیاـ ‘‘۔ کوتوال گرجا ۔
چھلکتی آنکھوں سے بختی نے اپنے خاوند لسّہ جو کی طرف دیکھا تو اس نے روتے
ہوئے مختصراً سارا ماجرا کہہ سنایا۔ اُس نے بتایا کہ کیسے اسے اور لبھورام
کو یرغمال بنا کر گاؤں کی سرحدتک لے جایا گیا اور پھر اُس کے منہ میں کپڑا
ٹھونسا گیا۔ اُس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اُوندھے منہ لٹا دیا گیا۔ لسّہ جو
نے اپنی زخمی انگلی دکھاتے ہوئے فریاد کی کہ کیسے اُس کی مرحومہ والدہ کی
نشانی چاندی کی انگوٹھی بھی بے دردی سے نوچ لی گئی۔ لسّہ جُو نے بتایا کہ
اُس نے خدا اور رسول کا واسطہ دے کر نقاب پوشوں سے التجا کی تھی کہ اگر
گولی مارنی ہے تو مجھے ماردو ۔ لبھا کو نہ مارو۔ مگر جواباً اس پر لاتوں
اور گالیوں کی برسات کردی گئی۔ اور پھر قریبی درخت سے باندھے لبھا رام کو
گولی ماردی گئی۔
’’۔یاسوس ‘‘ کوتوال جی کے پہلو میں کھڑے سپاہی نے تاؤ کھایا مگر کوتوال نے
روک دیا ۔ ’’ اب جائے گا کہاں ماں کا۔۔۔ ‘‘ ۔
لبھا رام کاکریا کرم اُس کے بھتیجے سیتا رام نے کیا۔ لسّہ جُو زندہ تو واپس
نہ آیا مگردس دن بعد قریبی چوکی سے ایک پیادے کی نگرانی میں زخم زخم لسّہ
جُو کی لاش ورثاء کے حوالے کردی گئی۔ جسے نفرت ، شرم اور بے بسی کے ماحول
میں خاموشی سے دفنا دیاگیا۔ گاؤں میں ہندومسلم سب کو لسّہ جُو کی بے گناہی
کاکامل یقین تھا ۔ مگر ایک خفیہ نفرت تھی جو لوگوں کے دلوں میں انگڑائی لے
رہی تھی۔ لبھو رام کے کریا کرم میں سبھی شریک ہوئے پر لسّہ جُو کے کفن دفن
میں صرف چند رشتے دار مسلمان ہی شریک تھے۔ کوئی ماتم کرنے والا تھا نہ
تعزیت کرنے والا۔
گاؤں کے حالات میں شدید تناؤ آ گیا ۔ سادھوؤں پروہتوں کے سنگٹھن نے فوری
طور پر عملی قدم اٹھانے پر زور دیا ، اور مندر کی پرانی عمارت کی چھت کے
نیچے چُپکے چُپکے گاؤں والوں کی نظروں سے اوجھل رکھ کر تیر ترسول ، برچھے
بھالے ، کٹار کرپان غرض ہر طرح کے مہیا ہتھیار جمع کیے جانے لگے۔ اُدھر
مستان اور اس کے حامی بھی اپنے مذہب عقیدے کی حفاظت اور دین کوپھیلانے کے
معاملے سے غافل نہ تھے۔ چنانچہ مسجد کے حجرے میں تیر تلوار، نیزہ بھالا جو
ہتھیار مہیا ہوا جمع کیا جانے لگا ۔ گاؤں کے اس پرے کھیتوں میں آہستہ آہستہ
خاموشی سے نامانوس سادھو جوگی نما لوگ ڈیرے ڈالنے لگے۔ جن کے چہرے بُشرے سے
نفرت، حرص ، دہشت اور پر اسراریت ٹپکتی تھی۔ جبکہ اسی گاؤں کے دوسرے حصے
میں بڑھے ہوئے بالوں اور خوف ناک شکلوں کے نا معلوم لوگوں کی تعداد میں
بتدریج اضافہ ہو رہا تھا جو دیکھنے میں غصیلے، سفاک اور جارح لگتے تھے۔
مندر و مسجد کے درمیان فاصلہ کچھ زیادہ نہ تھا۔ خوف اور تناؤ کے ماحول میں
لوگ درمیانی راستے سے گزرنے سے کترانے لگے اور مکئی کا یہ زرخیر کھیت غیر
آباد ہوتا گیا۔ اب اس جگہ جھاڑ جھنکاراُگ آیا۔ عموماً بھیڑیے گیدڑ جیسے
خونخواردرندے یہاں چھپے رہتے ۔ اس لئے گاؤں والے اپنی بھیڑ بکریاں ادھر نہ
جانے دیتے ۔ اور پھر اچانک ایک رات جب سارا گاؤں گہری نیند سو رہا تھا
قیامت کاغوغا بلند ہوا۔ ہند ومسلم سب کے گھروں کو آگ لگا دی گئی تھی ۔ ہائے
فریاد اور ’’بچاؤ بچاؤ ‘‘کی چیخ و پکار میں ’’مار دو کاٹ ڈالو ‘‘ کی گرجدار
آواز یں بھی شامل تھیں۔ صبح ہوتے ہوتے کچھ بھی نہ بچا ۔ چند عورتیں اور بچے
سُلگتے مکانوں اورجلی کٹی لاشوں پر ماتم کناں تھے ۔ ان میں کئی تِلک لگائے
ہوئے تھیں جبکہ کچھ کے گلے میں تعویذ تھے۔ سب ایک دوسرے سے لپٹ لپٹ کربین
کر رہی تھیں۔
سیتا رام کی بوڑھی والدہ کی بینائی بہت کمزور ہو گئی تھی ۔ لاٹھی ٹیکتی ،
سیئے ہونٹوں ، حیران آنکھوں اور کپکپاتے جسم کو جیسے تیسے گھسیٹے وہ ہر لاش
کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتی اور آگے بڑھ جاتی ۔ پھر اچانک ’’ ہائے مالک،
ہائے رام ‘‘کی چیخ مار کر بوڑھی اماں زمین پر ڈھیر ہو گئی ۔ مندر و مسجد کے
سُلگتے کھنڈرات کے بیچوں بیچ سیتا رام اور مستان کی لاشیں اِس حالت میں
گتھم گھتا پڑی تھیں کہ سیتا رام کا ترسول مستان کے پیٹ میں گھُسا ہوا تھا
اور مستان کی تلوار سے سیتا رام کی شہ رگ کٹ گئی تھی ۔ دیگر عورتیں چیختی
چلاتی اس جانب دوڑیں تو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئیں کہ بڑھیا نے زمین پر بیٹھ
کر دونوں کے سر اپنی گود میں رکھے ہوئے تھے ۔ اس کی جھکی کمر مزید جھک گئی
تھی۔ اورآنکھیں بے نور سی ہو گئی تھیں۔ وہ باری باری دونوں کے خون آلود
سروں کو چومتی ، اُن کو سینے سے لگاتی اور اُن کے سرمنہ پر ہاتھ پھیر
کرپیارکرتی ’’ میرا سیتا، میرا مسیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا مسیتا، میراسیتا
۔۔۔۔۔۔۔میرا۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ |