اشرف المخلوقات کے بلند رتبہ پر فائز شیطان
صفت انسان نے لاہور میں بنی آدم کی پانچ سالہ معصوم بیٹی سنبل کے ساتھ جو
کچھ کیا ہے یہ پورے معاشرے ، انتظامیہ اور حکومت کے لئے باعث شرم ہے ۔ جس
معاشرے میں لاقانونیت سرائیت کر جائے ، مائیں اپنے بیٹوں کو جنم دے کران کی
تربیت سے کنارہ کشی اختیار کرلیں ،باپ اپنی اولاد پر شیر ایسی نگاہ رکھنا
چھوڑ دیں ، معاشرے کے اعلیٰ افسران اپنا فرض بھول جائیں اور حکمران اقتدار
کی آسائشوں میں کھو جائیں۔دعا ہے کہ اس معاشرے میں کوئی سنبل پیدا ہی نہ ہو
۔
انسانی معاشرے میں جو سلوک کم سن بچیوں اور بچوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے
ایسا بھیانک سلوک جنگل میں بسنے والے درندے بھی اپنی نسل کے کم سنوں کے
ساتھ نہیں کرتے ۔ چیتا کتنا ہی خون خوار کیوں نہ ہو ، شیر کتنا ہی زور آور
کیوں نہ ہواور ہاتھی کتنا ہی بد مست کیوں نہ ہو ، آج تک کسی نے نہیں سنا کہ
ان خطرناک جانوروں نے کبھی کسی جانور کے معصوم کم سن مادہ یا نربچے کے ساتھ
بھیانک کھیل کھیلا ہو ۔
بلا شبہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ جس کے سنہری اصولوں پر کاربند رہ
کر ایک مثالی معاشرہ، ریاست اور حکومت قائم کی جا سکتی ہیں ۔ اسلامی معاشرے
میں حقوق و فرائض ، عدل و انصاف اور جزاو سزا کا الہامی قانون شیطان صفت
انسانوں ہی کو نکیل ڈالنے کے لئے ہے ۔پاکستان میں انسانیت سوز جرائم کے
بڑھتے ہوئے واقعات کا سب سے بڑا سبب اسلامی قوانین کا عدم نفاذ ہے ۔ آج کے
اسلامی معاشرے میں قرآن و سنت کے لافانی احکامات کی حکم عدولی کارہائے فخر
کا مقام حاصل کر چکی ہے، جرائم پیشہ عناصر اپنے کالے کرتوتوں پر شرمندہ
ہونے کے بجائے فتح کا جشن مناتے اور آسانی کے ساتھ رہا ہو جاتے ہیں ۔ قانون
کی کتابیں فقط پڑھنے کی حد تک محدود ہیں ، عوام وخواص سبھی قانون شکنی کا
ارتکاب کر رہے ہیں۔ زر اور زور کا حامل با اثرطبقہ ہمیشہ قانون کا تمسخر
اڑا تاہے ۔
دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ بظاہر امریکہ اور دہشت گردوں کے درمیان ہے مگر
حقیقت میں پر اسرار قوتیں ، امریکہ اور دہشت گرد باہم صلاح مشورہ ہو کر
پاکستان کی سلامتی کے درپے ہیں ۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں اب تک
سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان پاکستان کا ہوا ہے ۔ جنگ میں فتح امریکہ اور
دہشت گردوں کے حصہ میں آرہی ہے جبکہ شکست پاکستان کا نصیب ٹھہر رہی ہے ۔
پاکستان کے اپنے لوگ پر اسرار قوتوں کے اشاروں پر کرائے کے قاتل بنے ہوئے
ہیں۔کرائے کے یہ قاتل ڈالروں کے عوض پاک فوج ، امن کے داعی علماء ، مساجد ،
مدارس اور عوامی مقامات پر سفاکانہ حملے کر رہے ہیں ۔کتنے تعجب کی بات ہے
کہ ہم کرائے کے ان قاتلوں ، خود کش حملہ میں ہلاک ہونے والے حملہ آوروں کو
بھی شہید قرار دیتے ہیں اور خود کش حملہ میں مارے جانے والے بے گناہ افراد
کو بھی شہید کہتے ہیں، قاتل بھی شہید اور مقتول بھی شہید ۔
حکومت پاکستان نے بم دھماکے کرنے والے ہزاروں دہشت گردوں کو تمام ثبوتوں
اور شواہد کے ساتھ گرفتار کیا تھامگر ان ملزمان میں سے ایک بھی ملزم کو سزا
نہیں ہوئی۔ کمزور نظام عدل کے سبب بہت سارے ملزم عدالتوں سے ضمانتیں کروا
کر رہا اور باقی جیلیں توڑ کر فرار ہو گئے ہیں ۔ حکومت پاکستان نے امریکہ
اور افغانستان کی جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بجائے دہشت گردی میں
ملوث گروپوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کا راستہ اختیار کیا ہے مگر یہ گروپ دہشت
گردی سے باز نہیں آرہے ۔ پس پردہ مذاکرات بھی ہو رہے ہیں اور پاک فوج پر
حملے بھی پورے تسلسل کے ساتھ جاری ہیں ۔میجر جنرل ثناء اﷲ نیازی ، لیفٹیٹنٹ
کرنل توصیف اور لانس نائیک عرفان کو بارودی سرنگ کے ذریعے شہید کر کے
طالبان نے فخریہ انداز میں ذمہ داری قبول کر کے مذاکرات اصولاََ ناکام بنا
دئیے ہیں۔
جب قانون خاموش ، انتظامیہ صاحب ِ خراگوش اور حکومت اقتدار کے جھولے میں
مزے لے رہی ہو تو آ،جا کے میڈیا عوام کی آواز بنتا ہے ۔ شازیب قتل کیس کے
شرمناک انجام کے بعد میڈیا میں بھی مایوسی کے سائے پھیل گئے ہیں کہ اگر کسی
مظلوم کی خاطر بدمست ہاتھیوں سے ٹکر لے بھی لی جائے تو مظلوم چند ٹکے وصول
کر کے میڈیا کی قربانی فروخت کر دے گا ۔ کرائم کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی
میری بات کی تائید ضرور کریں گے کہ بیشتر واقعات میں متاثرین میڈیا کا
سہارا لے کر ملزم سے ڈیل کا ریٹ بڑھاتے ہیں۔ ایسے خود غرض متاثرین ملزمان
کا حوصلہ بڑھا کر جرائم میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ جس میں حقوق و فرائض ، عدل و انصاف اور جزا و
سزا صریحاََ اسلامی قوانین کے مطابق ہونی چاہیے ۔ قانون اور انصاف سب کے
لئے یکساں ہو ۔ ملزم چاہے کتنا با اثر اور خطرناک ہی کیوں نہ ہو اس کے ساتھ
کسی قسم کا دید لحاظ نہ کیاجائے تا کہ ہماری دیگر سنبلیں وحشیوں کے چنگل سے
محفوظ رہ سکیں ۔ |