کنواری کالونی !!

کنواری کالونی ، کراچی کے دور افتادہ علاقے منگھو پیر کے قریب 1980ء سے قائم آبادی ہے۔کنواری کالونی ، یونین کونسل ۹ سا ئٹ ٹاؤن ضلع غربی میں واقع ہے۔محسود برادری کی اکثریت آبادی والا یہ علاقہ دنیا بھر میں طالبائزیشن کے حوالے سے وجہ شہرت رکھتا ہے۔کوئی دن ایسا نہیں گزرتا ، جب کنواری کالونی میں حساس اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے دعوی نہ کیا جاتا ہو کہ تحریک طالبان سے تعلق رکھنے والے کسی نہ کسی طالبان کو گرفتار نہ کیا گیاہو۔کٹی پہاڑی سے ایک کلومیٹر کی مسافت پر کے ڈی اے اسکیم ۳۳ کے سیکٹر ۶ میں آباد علاقے میں پاکستان کا سب سے بڑا ماربل فیکٹریوں کا صنعتی زون بھی واقع ہے ، جہاں سینکڑوں چھوٹی بڑی فیکٹریاں سنگ مرمر کی مصنوعات کی تیاریوں میں چوبیس گھنٹے لاکھوں مزدورں کے ساتھ مصروف رہتے ہیں۔کنواری کالونی کے نام کا وجہ تسمیہ واٹر بورڈ کیجانب سے قائم ایک آفس ہے جیسیانکوئری آفس کے نام سے پکارا جاتاتھا۔کنواری کالونی دراصل میٹرول ۲ کہلائی جاتی ہے جو کے ڈی اے اسکیم ۳۳ میں کچی آبادی کے طور پر لیز کی گئی ہے۔پانی کی فروانی اور بلوچستان کے نزدیک ہونے کی وجہ سے منگھو پیر روڈ پر ماربل انڈسٹری زون قائم کیا گیا تھا ، جس کی وجہ سے روزگار کے مواقع زیادہ ہونے کی وجہ سے بیرون کراچی سے آنے والوں نے اس ایریا کے نزدیک اپنی رہائش اختیار کرلی اور قصبہ کالونی کے منصوبے کے ساتھ ہی نیو میانوالی کالونی ، اسلامیہ کالونی میں نیازی برادری اور پختون برداری نے آباد ہونا شروع کردیا ۔یہ علاقے ولیکا سیمنٹ فیکٹری کے زیر استعمال تھے جہاں سیمنٹ کی تیاری کیلئے پہاڑی کو کاٹ کر پتھر نکالے جاتے تھے ۔ مقامی ٹھیکدار جیسے جیسے پہاڑی کو کاٹتے جاتے وہاں حکومت کی اجازت کے بغیر پلاٹوں کی شکل میں انتہائی کم قیمت پر بیرون کراچی سے آنے والے محنت کشوں کو وہ زمین فروخت کردیا کرتے ، جس کی وجہ سے آبادی میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا اور ولیکا سیمنٹ فیکٹری کو آبادی کے بڑھ جانے کے سبب اپنا کام روکنا پڑا ، کیونکہ انھیں پتھر سپلائی کرنے کیلئے پہاڑ میں بارود سے دہماکے کرنے پڑتے تھے جس سے آس پاس کی آبادیوں اور انسانی جانوں کو نقصان پہنچنے کے خطرات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔قصبہ کالونی کراچی کے ادارے کے ڈی اے سے منظور شدہ پراجیکٹ تھا جو سعودی حکومت کی جانب سے 1965ء میں کم آمدنی والے خاندانوں کے لئے منظور کیا گیا تھا ،یہاں پاکستان میں ہجرت کرکے آنے والے مہاجروں نے آباد کاری کی۔قصبہ کالونی میں بتدریج مختلف زبان بولنے والوں نے ارد گرد کی خالی جگہوں پر آباد کاری شروع کردی اور قصبہ کالونی کی گرد و نواح کی پہاڑیوں میں ایک نئے پہاڑی آبادی کا اضافہ ہوا جیسے پیر آباد ، مسلم آباد اور غریب نواز کالونی کے نام سے آباد کیا گیا ۔15اکتوبر2009ء میں گورنر سندھ عشرت العباد کے ہمراہ ناظم کراچی مصطفی کمال نے نارتھ ناظم آباد اور اورنگی ٹاؤن کو آپس میں ملانے والے منصوبے جیسے عرف عام میں کٹی پہاڑی کہا جاتا ہے ، افتتاح کیا۔یہ منصوبہ قصبہ کالونی میں آبادی کاری کے وقت سے موجود تھا لیکن پہاڑی میں سرنگ بنانے کے منصوبے پر حکومت کی جانب سے فنڈز مہیا نہیں کئے جاتے تھے ۔ نارتھ ناظم آباد جو کہ ایک بنیادی سہولیاتی منصوبے پر مشتمل آبادی کے طور پر آباد کیا گیا ، قیام پاکستان کے بعد کراچی وفاقی دارالحکومت تھا اس لئے نارتھ ناظم آباد کو جدید علاقے کے طور پر منتخب کیا گیا جہاں کی آبادی منصوبہ بندی کے تحت ہوئی جس سے علاقے کی قدر وقیمت میں قابل ذکر اضافہ ہوا۔قصبہ کالونی کی آبادی کاری کے وقت پہاڑی کو کاٹنے کا منصوبہ زد عام تھا اس لئے ارزاں رہائش کے خواہاں خاندانوں نے بہتر مستقبل کیلئے یہاں آبادی کاری ، لیکن پہاڑ میں سرنگ نہ نکلنے کی وجہ کی بنا ء پر نصرت بھٹو کالونی کی پہاڑی کو کاٹ کر نارتھ ناظم آباد سے منگھوپیر کو ملا دیا گیا۔اسی روڈ پر ماربل زون ہونے کے سبب اور شہری علاقے میں پہاڑی کٹ جانے کے بعد تیزی کے ساتھ علاقے آباد ہونا شروع ہوئے اور کے ڈی اے کی جانب سے میٹرول ۲ کی بنیاد پڑی ، جنوبی وزیرستان سے ہجرت کرکے آنے والوں نے بڑی تیزی کے ساتھ سستے پلاٹوں پر اپنی آبادیاں قائم کرلیں ۔ کراچی میں ترقیاتی کاموں کیلئے ڈمپر ، لوڈر ، کرین کی ضروریات کو محسود قبائل کے کاروباری افراد نے پورا کرنا شروع کیا۔ روزگار کے وافر مقدار میں ذرائع میسر آنے کے سبب وزیرستان سے تعلق رکھنے والوں نے سہراب گوٹھ کے ساتھ کنواری کالونی کا رخ کیا کیونکہ یہاں ماربل فیکٹریوں کو بھی اپنی ضروریات کیلئے بھاری مشینری کی ضرورت پڑتی تھی اس وجہ سے وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ٹرانسپورٹرز نے اربوں روپیہ کی سرمایہ کاری کرکے کراچی کے ترقیاتی کاموں میں حصہ لینا شروع کیا اور کراچی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔وقت کے ساتھ ساتھ میٹرول ۲ کی یہ آبادی اعوان کالونی اور پھر مسیحی برادری کی آبادیوں میں بھی آباد ہونا شروع ہوئی اور کنواری کالونی کے اطراف میں بڑی تعداد میں غیر مسلم آباد ہوئے۔تاہم آج تک کوئی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا ، جو کسی ناخوش گوار واقعے کی بنیاد بنتا۔محسود برادری ، غول اور گروہ کی شکل میں رہنے کی عادی رہی ہے اور اپنی قبائلی راویات کے مطابق اپنے فیصلے بھی اپنے مقرر کردہ جرگوں میں کرنے پر قائم رہی ہے۔ایک لاکھ سے زائد نفوس کی اس آبادی میں صرف ایک سرکاری اسکول ، جو مسجد صفا کے نام سے مدرسہ اسکول اسکیم کے تحت قائم ہوا تھا ، لیکن حکومت کی عدم توجہ کے سبب مسجد صفا سے منسلک یہ اسکول حوادث زمانہ کی نظر ہوگیا اور کنواری کالونی کے بچوں کو اسکول کی واحد سہولت بھی نہیں رہی۔قبائلی روایات کے مطابق مساجد کے ساتھ قائم مدارس میں دینی تعلیم مہیا کی جاتی تاہم یہ بھی محدود حد تک تھی جس میں ناظرہ قرآن پاک کی تعلیم اور حفظ قرآن تک تھی ۔باقاعدہ مذہبی تعلیم کے لئے ان بچوں کو سہراب گوٹھ کے بڑے مدارس یا پھر زیادہ تر وزیرستان ہی بھیج دیا جاتا تھا۔سرکاری سہولت کے طور پر یہاں کوئی پارک ، میدان ، کیمونٹی سینٹر ، ڈسپنسری ، ہسپتال ، اسکول ، یا کوئی دوسری سہولت میسر نہیں ہے۔جس سے ان آبادیوں میں احساس محرومی و معاشرتی مسائل میں اضافہ ہوا۔نائن الیون کے بعد پاکستان کی جنگی کیفیت مکمل تبدیل ہوگئی اور پاکستان کے تمام قبائلی علاقے افغانستان سے منسلک ہونے کے سبب امریکی جنگ کی لیپٹ میں آگئے۔افغانستان کی سرحدوں کے ساتھ منسلک ان قبائلیوں کے تعلقات ایک دوسرے سے کئی عشروں سے قائم ہیں ۔روس کے خلاف جنگ میں قبائلی عوام نے امریکہ کی شہ پر بھرپور کردار ادا کیا تھا اس لئے طالبائزیشن 1980ء میں ہی ان علاقوں میں قائم ہوچکی تھی۔افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد بڑی تعداد میں طالبان نے محفوظ پناہ گاہوں کا رخ کیا جس میں جنوبی و شمالی وزیر ستان قریب تر تھے ، تاہم جن جنوبی وزیر ستان میں فوجی آپریشن کیا گیا تو وہاں کی عوام کی نقل مکانی کیساتھ ہی بڑی تعداد میں طالبان بھی منتقل ہوگئے اور خاموشی سے زندگی گزارنے لگے، کیونکہ کراچی کے دور افتادہ علاقہ ہونے کے سبب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توجہ کم مرکوز تھی اور منگھو پیر پولیس اسٹیشن کی حدود نہایت وسیع اور نفری کم تھی اس بنا ء پر قانون کی عملداری کم ہونے لگی ، بعد ازاں منگھو پیر پولیس اسٹیشن کی حدود سے ان علاقوں کو پیر ٓاباد پولیس اسٹیشن میں شامل کردیا گیا ، لیکن اس تھانے کی حدود کاآخری علاقہ ہونے کے سبب اور کم نفری کے باعث مختلف انواع کے افراد کو یہاں پنپنے کا موقع مل گیا۔پاکستان میں طالبان کی جانب سے متعدد متواتر واقعات کے سبب طالبان پاکستان کی بڑی شخصیات ، بیت اﷲ محسود نے یہاں کافی دل چسپی لی اور اب حکیم اﷲ محسود گروپ کا یہاں کافی اثر و نفوذ ہے۔حساس اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے طالبان سے تعلق رکھنے والے افراد کو بڑی تعداد میں اس علاقے سے گرفتار کیا گیا ہے۔اس وقت یہ علاقہ عملی طور پر نو گو ایریا ہے جہاں کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کو اپنی سرگرمی کی اجازت نہیں ہے۔طالبان کی جانب سے قبائلی روایات کے مطابق جرگہ سسٹم نافذ ہے جو اسلامی قوانین کے مطابق فیصلے دیتا ہے۔چونکہ علاقہ قبائلی روایات کو اپنے مستتقل علاقے وزیر ستان کی بنا ء پر تعلق رکھتا ہے اس لئے انھیں طالبان کی جانب سے عدالتی نظام کے قیام پر کوئی اعتراض نہیں ہے ، کنواری کالونی میں طالبان رہنماؤں کی موجودگی کے سبب مقای آبادی میں اثر ونفوذ رکھنے والوں نے ایک ایسا سسٹم بھی رکھا ہوا ہے جس میں ان کی مخبری کرنے والوں کو ہلاک بھی کیا گیا۔ سیاسی جماعتوں کے نقل و حرکت پر پابندی کے سبب سیاسی ہلاکتیں بھی ہوئیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مقابلے بھی ہوئے۔ماربل فیکٹریوں سے پہلے بھتہ نہیں لیا جاتا تھا لیکن بعد میں کراچی میں جس طرح طالبان کی جانب سے بھتہ وصول کئے جانے لگا تو یہاں بھی کاروبار کرنا مشکل ہوگیا۔ تاہم طالبان کے بعض گروپ نے اس عمل کی مذمت کی۔کنواری کالونی اس وقت بین الااقوامی قوتوں کی توجہ کا مرکز ہے لیکن حکومت کی جانب سے مستقل بنیادوں پر کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔کنواری کالونی کے حالات وزیرستان کے امن کیساتھ منسلک ہیں۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744556 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.