ہم لوگ جرمنی میں تھے ۔واپسی سے ایک دن پہلے کچھ وقت ملا
تو بچوں کے لیے کچھ چیزیں خریدنے ایک ڈیپارٹ منٹل سٹور چلے گئے ۔اسٹور کا
مالک ایک سکھ تھا ۔وہ ہمارے پاس آکر بڑی بشاشت سے ملااور یہ معلوم کرکے بہت
خوش ہوا کہ ہمار ا تعلق پاکستان سے ہے ۔اس نے فصیح وبلیغ اردو میں ،التجاء
کے سے انداز میں کہا کہ خریداری سے فارغ ہو کراگر آپ تھوڑی دیر کے لیے میرے
دفتر تشریف لے آئیں تو آپ کی نوازش ہوگی ۔ہم نے وعدہ کرلیا۔خریدار ی سے
فارغ ہو کر ہم اس کے دفتر میں گئے ،دفتر ماشاء اﷲ بڑی نفاست سے سجا
تھا،نفاست اورسلیقہ مندی دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔اس نے مجھ سے عقائدِ اسلام
کے متعلق مختلف باتیں دریافت کیں،میرے محبت بھر ے جوابات سننے کے بعدوہ
کہنے لگاکہ :مجھے تو یہ ساری باتیں بہت اچھی لگتی ہیں،میں ان سب کو ماننے
کے لیے تیار ہوں۔اچھا یہ بتائیے کہ :اسلام کیسے لاتے ہیں؟میں نے کہا اس کا
بہت آسان طریقہ ہے ۔اسلام میں ایک کلمہ ہے اس کے مطلب ومفہوم کو اچھی طرح
سمجھ کر جب آپ کو اس کے سچاہونے کا یقین ہوجائے تو اسے دل سے مان کر زبان
سے وہ کلمہ پڑھ لیا جائے ۔وہ کہنے لگا ٹھیک ہے ،آپ مجھے وہ کلمہ پڑھا
دیں،میں اسلام لانا چاہتاہوں۔میں نے کلمہ پڑھا دیا اور اس کا مطلب بھی
سمجھا دیا۔اس کے بعد دین کے بنیادی ارکان کے بارے میں بتایا اوررہنمائی کے
لیے اپنے میزبان سے تفسیر معارف القرآن اورنماز کی کتاب منگوا کراسے ہدیہ
کیں ۔
رخصت ہونے سے قبل ہم نے کہاکہ اب آپ ہمارے ساتھ مل کر دعا کریں ،اس وقت آپ
کی دعا زیادہ قابل قبول ہے ۔چنانچہ میں نے حدیث سنائی کہ ’’اسلام لانے پر
اﷲ تعالی ٰ پچھلے تمام گناہ معاف فرمادیتے ہیں‘‘لہذا آپ اس وقت سب گناہوں
سے پاک ہیں،غرض ہم نے مل کر خوب دعاکی۔اس کے بعد میں نے کہا:مبارک ہو ،اس
وقت آپ ہم میں سب سے بہتر مسلمان ہیں،کیوں کہ آپ کے پچھلے سب گناہ معاف
ہوچکے ہیں،یہ بڑی خوش نصیبی کی بات ہے ۔وہ حیرانگی سے کہنے لگا: کیامیں
مسلمان ہوں؟میں نے کہا ہاں الحمدﷲ آپ مسلمان ہوگئے ہیں۔وہ کچھ دیر پریشان
ساہوکر سوچتا رہا ،پھر بولا :نہیں! میں مسلمان نہیں ہوتا۔میں نے حیران ہو
کر وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا :آپ نے جوباتیں بتائی ہیں وہ بہت اچھی ہیں،میں
ان سب کو مانتاہوں،مگر میں نے بہت مسلمان دیکھے ہیں کہ وہ اچھے نہیں
ہوتے۔وہ جھو ٹ بولتے ہیں،چوری کرتے ہیں،دھوکہ دیتے ہیں،ملاوٹ کرتے ہیں۔غرض
اس نے مسلمانوں کی بہت سے خرابیاں بیان کیں۔آخر میں کہنے لگا کہ کیا ایسا
نہیں ہوسکتا ہے کہ میں اسلام لے آؤں مگر مسلمان نہ بنوں؟میں اس مشکل سوال
کے جواب میں اُسے تکنے لگا۔آخری بات جو اس نے کہی تھی وہ یہ تھی کہ میں سکھ
ہوں،سردار گوبندر سنگھ کا سکھ،میں مسلمان نہیں ہوں!حضرت مفتی محمد رفیع
عثمانی مدظلہم فرماتے ہیں کہ اس ملاقات کے بعد بھی میرا ان سے بالواسطہ
سلام وپیام کا سلسلہ جاری رہا ،مگر ملاقات نہ ہوسکی ،یہاں تک کہ ان کا اسی
حالت میں اس کا انتقال ہوگیا۔اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
اس واقعہ سے مقصود امت ِمسلمہ کی حالت ِزار کو بیان کرنااور اس سے سبق حاصل
کرناہے ۔آج پوری دنیامیں مسلمان جس طرح پِٹ رہے ہیں اس کی وجوہات میں سے
ایک بڑی وجہ دین ِاسلام سے دوری ہے ۔بحثیت مجموعی اس وقت پورا اسلامی
معاشرہ مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلاہے ۔کہیں فحاشی وعریانی اور بے
حیائی کے سیلاب میں سادہ لوح مسلمان ڈوبتے جارہے ہیں تو کہیں کرپشن
،بددیانتی ،جھوٹ ،غیبت،چوری ڈکیتی ،شراب نوشی ،وعدہ خلافی ،زناء
کاری،سودخوری جیسی قبیح عادات کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے
کہ غیر مسلم تعلیمات ِاسلام سے آگاہی حاصل کرکے حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں
اور مسلمان ،ایمان لانے کے باوجود بھی اسلام سے دور ہوتے جارہے ہیں۔آپ صرف
پاکستان کی مثال دیکھ لیں ۔یہ ملک اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔ پینسٹھ سا
ل بِیت گئے لیکن یہاں اسلامی نظام نافذ نہیں ہوا۔یہی حال دیگر اسلامی ممالک
کا ہے۔ہماری اس بد عہدی کی سزا ہے کہ آج پورا ملک بری طرح مسائل کے گرداب
میں گھرا ہواہے۔ اسلامی نظام سے روگردانی کا نتیجہ ہے کہ آئے
روزہمارامعاشرہ المناک حادثات کا شکار ہوجاتاہے ۔کبھی عصمت پرڈاکہ زنی کرنے
والوں کو روکنے پر ،معصوم لوگوں کا خون چوس لیا جاتاہے، تو کبھی دن دیہاڑے
معصوم کلیوں کو مسَل کرپھینک دیا جاتاہے ۔کہیں زبردستی آبروریزی اور درندگی
کے دل دہلادینے والے واقعات پیش آتے ہیں تو کہیں گھروں سے بہنوں اور بیٹیوں
کو پھُسلاکر بھگانے کے واقعات سے ہمارا معاشرہ بدنام ہوجاتاہے۔اس طرح کی
معاشرتی برائیوں کی سب سے بڑی وجہ ہمارا دین اسلام سے دور ہونا اور ان
برائیوں کے پنپنے کے خلاف سستی اور غفلت کا مظاہر ہ کرنا ہے ۔دیکھا جائے تو
اس وقت ہمارے ہاں معاشرتی برائیوں کے سدِباب کے لیے حکومت سے لے کر عوام تک
چیخ رہے ہیں ،میڈیا سے لے کر فن کاروں تک ہر کوئی فحاشی ،عریانی ،بے حیائی
جیسی برائیوں کے خاتمے کے لیے مشورے اور تجاویز دے رہے ہیں،لیکن دین ِاسلام
کی آفاقی تعلیمات کی طرف کوئی دھیان دیتاہے ،نہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی
کوئی فکر کرتاہے ۔ اس طرح کے المناک حادثات پراس طرح کے لوگوں کا کام صرف
سیاست چمکانا اور مفادات کاحصو ل ہوتاہے۔ درندگی کے حالیہ واقعات پر ان
لوگوں کا کیا کردار رہا ،اس سے بخوبی اندازہ ہوسکتاہے کہ ان لوگوں نے
معاشرے کے رِستے زخموں پر مرہم رکھی یا نمک چھڑکا؟۔
اگر یہ لوگ واقعی معاشرتی برائیوں کے سدِ باب میں سنجیدہ ہوتے تو آج باربار
ہمیں اس طرح کے واقعات سے ہزیمت اٹھانا پڑتی ، نہ یوں اقومِ ِعالم کے سامنے
شرم سے سرجھکانے پڑتے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی تما م برائیوں اور جرائم کے
سدِباب کے لیے قرآن وسنت کے وسیع ذخیرے میں بیش بہا مواد موجودہے۔ لیکن صرف
اس مواد کے موجود ہونے سے معاشرتی بیماریوں اور مسائل سے چھٹکارا نہیں مل
سکتا،بلکہ عملاً انہیں فالو(follow) اور اپلائی ((applyکرنا پڑے گا۔اس کے
لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے طرز عمل پر غور وفکر کرناہوگا،قول وفعل میں ہم
آہنگی لانا ہوگی اورصحیح طریقے سے قرآن وسنت کے مطابق اپنی زندگیوں کو
ڈھالناہوگا۔کیوں کہ اسی میں ہماری فلاح اور بقاء ہے ۔ آقاء نامدارصلی اﷲ
علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ (میں نے تم میں دو چیزیں ایسی چھوڑی ہیں کہ اگر
تم نے انہیں مضبوطی سے پکڑے رکھا تو تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے،وہ دو چیزیں
اﷲ کا قرآن اور سنت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں) بھی ہمیں اس کی دعوت
دیتاہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ان دوچیزوں کے ذریعہ نہ صرف اپنی زندگیوں میں اور
پورے معاشرے میں تبدیلی لاسکتے ،بلکہ غیر مسلمو ں کے لیے بھی بہترین آئیڈیل
اورنمونہ بن سکتے ہیں۔ |