بعض سیاسی اوردفاعی تجزیہ نگاروں کاخیال تھاکہ
امریکاافغانستان میں ناک رگڑنے کے بعد سدھرجائے گااوراب مزیدخونریزی سے
بازآجائے گالیکن شام کی صورتحال دیکھ کر گمان یقین میں تبدیل ہوگیاہے کہ
امریکاکی سرشت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔تاریخ شاہد ہے کہ وہ اس سے
پہلے بھی ۳۸ممالک میں جارحیت کے ارتکاب کے بعدہرملک سے ذلیل ورسواہو کرہی
نکلاتھا۔امریکاکے موجودہ اقدامات آج سے سات سال پہلے میرے ان کالموں کی ان
اطلاعات کی تصدیق کرتے ہیں کہ امریکانے ۲۰۰۵ء میں امت مسلمہ کاجغرافیہ
تبدیل کرنے کوجوفیصلہ کیاتھا اس کے تمام تراقدامات اسی فیصلے کی کڑی ہیں۔
۲۰۰۵ء میں امریکی میگزین میں سی آئی اے کے کرنل رالف پیٹرکے حوالے سے ایک
’’نیو ورلڈآرڈر‘‘ کاایک نقشہ شائع ہواتھاجس میں واضح طورپرمسلمان ممالک
اورخطۂ عرب کے ممالک کانقشہ اوران مسلمان ممالک کی سرحدوں کاازسرنوتعین
دکھایاگیاتھاجس میں لبنان اورسعودی عرب بھی شامل ہے۔بعض حلقوں کی رائے یہ
تھی کہ افغانستان میں جوتے کھانے کے بعدامریکی راستی بدل چکے ہیں
مگرایسانہیں۔یہ امریکی اب بھی پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنے صیہونی دوستوں کے
استعماری ایجنڈے پرقائم ہیں،کم ازکم شام پرحالیہ امریکی یلغارسے تویہی
تاثرملتاہے۔
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ امریکی حکومت نے شام پرحملے کافیصلہ کرلیاہے ۔اس
سلسلے میں سفارتی تیاریاں اورعالمی سطح پرقبولیت کیلئے اقدامات کئے جارہے
ہیں۔اس بات کا اشارہ ۲۷/اگست کوامریکی وزیردفاع جیک ہیگل کے اس بیان سے مل
گیاتھاجس میں انہوں نے دہمکی دی تھی کہ امریکی افواج نے شام کوسبق سکھانے
کیلئے تمام ضروری اقدامات کر لئے ہیں۔امریکی بحریہ کاچوتھاجنگی بیڑہ شام کی
طرف بڑھناشروع ہوگیاہے،جیسے ہی امریکی صدرحکم دیں گے ،شام پرحملہ کردیاجائے
گااورشام پرحملے کیلئے اسرائیلی بھی راستہ دینے پر آمادہ دکھائی دیتے
ہیں۔امریکی اقدام کانتیجہ کیاہوگااس کاواضح نقشہ شام کے وزیراطلاعات کے اس
بیان کی روشنی میں دیکھاجاسکتاہے جس میں انہوں نے کہاہے کہ امریکانے مداخلت
کی توخطے میں ہمارے بھی راستے ہیں،پورے خطۂ عرب کوآگ لگ جائے گی۔اس کی
حمائت میں ایرانی وزیردفاع نے بھی تہران سے دہمکی دی ہے کہ اگر امریکا شام
میں آیاتویہ اچھانہیں ہوگاجبکہ روس جوپہلے دن سے ہی شام کی حکومت کے ساتھ
ہے ،اس نے بھی دہمکی دی ہے کہ امریکانے مداخلت کی تویہ حملہ تباہ کن ہوگا۔
کہایہ جارہاہے کہ امریکی صدر نے روس کوسفارتی سطح پرراضی کرنے کیلئے بعض
فوری اقدامات اٹھانے کوکوششیں شروع کردی ہیں۔سناہے کہ سعودی وزیرخارجہ فیصل
سعود نے روس کے صدرپیوٹن کے ساتھ ایک ہنگامی ملاقات میں چیچن کے معاملے میں
مراعات کااشارہ دیتے ہوئے کہاکہ وہ چیچن پراپنااثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے
آئندہ روس میں کاروائیاں بند کروانے کی کوشش کریں گے جس پرروسی صدرپیوٹن
سیخ پاہوگئے اورجواباًانتباہ کرتے ہوئے دہمکی دی کہ اگرامریکانے شام پرحملہ
کیاتو اس کا جواب سعودی عرب میں دیا جائے گاجس کی وجہ سے اب صورتحال
مزیدابترہوتی دکھائی دے رہی ہے۔دوسری جانب شام نے دہمکیوں کے باوجوداقوام
متحدہ کی ٹیم کوکیمیائی ہتھیاروں کے حملے کی جگہ کا معائنہ کرنے کی اجازت
دی توامریکانے نیا اعتراض کھڑاکردیاکہ اجازت تاخیرسے کیوں دی گئی۔
واقفانِ حال جانتے ہیں کہ امریکاکی دہمکیاں اوراقدامات شام میں کیمیائی
ہتھیاروں کے حملے کے بعددیکھنے میں آرہی ہیں مگران کی چاپ اورتیاریوں کی سن
گن اس کیمیائی حملے سے پہلے سنی جارہی تھی۔یوں دکھائی دے رہاتھاکہ شام میں
کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کوجوازبناکرہی امریکااپناراستہ نکالے
گا۔برطانیہ کے ایک مشہوراخبارڈیلی میل نے ڈیڑھ ماہ سے بھی پہلے اس
خبرکوشائع کیاتھاجس پراس پرمقدمہ دائرکردیاگیا۔اس اخبارنے عدالت سے
باہرڈیڑھ لاکھ پاؤنڈہرجانہ تواداکردیالیکن اپنے ذرائع کانام افشانہیں کیا
اوراب اس خبرکی حقانیت توسب کے سامنے آگئی ہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں
کے استعمال کوہی حملہ کاجوازبنایاجارہاہے۔ تاکہ امریکاگولان کی پہاڑیوں
پرقابض اسرائیلی افواج کے تحفظ کی خاطر خطے میں اپنی افواج اتارے۔
اس وقت شام میں جوصورتحال دکھائی دے رہی ہے اس کے اثرات پوری دنیاپرمرتب
ہورہے ہیں۔ایک طرف سعودی حکومت شام کی اپوزیشن فورسزکی حمائت کررہی ہے تو
دوسری جانب ایران بھی شامی حکومت کی مددمیں حدیں پھلانگ چکاہے اورایرانی
اقدام اس قدرخوفناک ہے کہ پاکستان جیسے ملک کے علاوہ دیگرکئی ممالک میں
فرقہ وارانہ فسادات کاخطرہ بڑھ گیاہے اورصہیونی واستعماری پالیسی سازوں نے
ایران وسعودی عرب کواستعمال کرتے ہوئے پورے عالم اسلام کوشیعہ سنی تقسیم
میں الجھادیاہے جبکہ اس انتشار نے اسرائیل اوربھارت کوقدرتی تحفظ فراہم
کردیاہے اوراب امریکی افواج کے آجانے سے اسرائیل کومزیدحوصلہ اورتحفظ نصیب
ہوگا۔
ایک طرف شام کی یہ صورتحال ہے تودوسری جانب غزہ میں قائم حماس کی جمہوری
حکومت بھی خطرے کی زدمیں ہے کیونکہ مختلف اطلاعات میں یہ کہاجارہاہے کہ
مصرکی انٹیلی جنس موساد سے مل کر حماس کی حکومت ختم کرکے اس کے ساتھ بھی
اخوانیوں والی تاریخ دہرانے کے چکرمیں ہے اوراس مقصدکیلئے صرف شام میں
امریکی افواج کے داخلے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔۔حماس کی حکومت پہلے ہی
دباؤ کا شکار ہے کہ شام کے معاملے میں شیعہ حکومت کی بجائے سنی اپوزیشن
کاساتھ دینے پرایران نے حماس کی معمولی سی امدادجووہ دیتاتھاوہ منقطع کردی
ہے اورمرسی حکومت کے خاتمے سے انہیں مصری سرحدسے دستیاب امدادبھی ختم ہوچکی
ہے البتہ اب مصر سے دشمنیاں اورسازشوں کی درآمدشروع ہوچکی ہیں۔
شام کی لڑائی جوابتداء میں صرف حکومت اوراپوزیشن کی جنگ تھی کہ مارچ ۲۰۱۱ء
میں ’’عرب سپرنگ‘‘سے متاثرہ نوجوانوں نے حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کردیئے
اوروہ بشارالاسدکی برطرفی کامطالبہ کررہے ہیں مگرالسیسی کے استاد بشارالاسد
نے اپریل ۲۰۱۱ء میں مظاہرین پراس طرح فوج چڑھادی جس طرح چندہفتے قبل مصرمیں
ہوامگریہاں ایران نے حکومت کے اقدام کی حمائت اورسعودی حکومت نے مخالفت
کی،جس سے یہ سیاسی لڑائی مذہبی حیثیت اختیاکرگئی اورشیعہ سنی تقسیم پوری
دنیامیں گہری ہوتی چلی گئی۔اس پورے قضیہ میں جس کاتفصیل سے جائزہ لیناضروری
ہے۔اگرایک طرف سعودی حکومت نے سنیوں کی مالی مددکی ہے توایرانی حکومت نے
بشارحکومت کی اس سے بڑھ کرمددکی اور ایرانی فوجی جہازوں میں بھربھرکرشام
میں اترتے رہے اورشامی عوام پربرسانے کیلئے کلسٹربم اورسکڈمیزائل بھی شام
کوایران نے فراہم کئے اورچوری چھپے نہیں بلکہ اعلانیہ سب کچھ فراہم
کیاجاتارہا۔ایرانی حکومت کے اس اقدام کومکمل امریکی حمائت حاصل
تھی،اگرایسانہ ہوتاتوامریکی عراق کے اوپرسے پروازکرکے شام پہنچنے والی
ایرانی پروازوں کوروک سکتے تھے جن کوانہوں نے دانستہ نہیں روکاکیونکہ یہ
انتشاراورشیعہ سنی قتل وغارت ان کے عین پروگرام اورمنصوبے کے مطابق ہی
توتھاجس میں وہ مزیدتیزی لاناچاہتے تھے۔
ایرانی افواج اورایرانی حکومت کے ذریعے دنیابھرسے بھرتی کئے گئے شیعہ
رضاکاروں کوشام تک ایران نے پہنچایا۔صلاح الدین ایوبی اورخالدبن ولیدکے
مزارات بھی گرادیئے گئے اوراس پرپوراعالم اسلام خاموش رہا۔شام میں جاری یہ
خانہ جنگی ایک منظم جنگ بن چکی ہے جوعالم اسلام کے خلاف لانچ کی گئی اوراس
میں نہ صرف یہ کہ عالم اسلام کی دولت بلکہ قوت بھی ضائع کی جارہی ہے۔امریکی
اب کیمیائی حملوں کے الزام کی آڑمیں شام میں داخل ہونے کیلئے پرتول رہے
ہیں۔جب پہلی بار کیمیائی حملہ اگست ۲۰۱۲ء میں کیاگیاتھا تواپوزیشن نے الزام
عائدکیاتھاکہ یہ کیمیائی موادشام حکومت کوایران نے فراہم کیاہے توامریکیوں
نے ایران سے شام کیلئے فوجی فنڈنگ کوروکاکیوں نہیں؟اورپھراگست ۲۰۱۲ء ہی
نہیں شامی فورسزنے ۱۹مارچ ،۳۰مئی،۲جون،۶جولائی،۵اگست اوراب ۲۲اگست ۲۰۱۳ء
کوپھرکیمیائی حملہ کئے لیکن چونکہ اب امریکی منصوبہ کے مطابق مداخلت کی
حکمت عملی تیار تھی ،اس لئے مداخلت کااعلان کردیاگیا۔
اگرتجزیہ کیاجائے تو۱۵مارچ ۲۰۱۱ء کوشروع ہونے والی یہ سیاسی جدوجہداپریل
۲۰۱۱ء کواس وقت تشددمیں بدلی جب شامی فوجوں نے مظاہرین پرحملے شروع کر
دیئے۔اس تشدد نے تشددکوجنم دیااوراسی وقت کاصہیونی اوراستعماری قوتوں
کوانتظارتھا۔یہ وہی صورتحال ہے جوامریکی آج مصر میں پیداکرنے کی خواہش
رکھتے ہیں۔کہایہ جاتاہے کہ ابتداء میں مظاہرین پرحملوں کے حکم کوتسلیم کرنے
سے انکارکرنے والے شامی فوجی مظاہرین کے ساتھ شامل ہوئے اورانہوں نے لڑائی
شروع کی۔یہ لڑائی ابتداء میں مکمل طورپرغیرمنظم اور بغیرکسی قیادت کے تھی
مگرذرائع کایہ بھی دعویٰ ہے کہ شام کی باقاعدہ منظم فوج سے ۲۵ہزارکی
تعدادمیں لوگوں کوآمادۂ بغاوت کرنادراصل امریکی کارنامہ تھا ورنہ بے آسر
ااور بغیر قیادت کے اپوزیشن میں اتنی سکت کہاں تھی کہ یونٹوں کی یونٹیں
باغی ہوجائیں اورپھرانہی باغی فوجیوں نے جولائی ۲۰۱۱ء میں ’’فری سیرین
آرمی‘‘(ایف ایس اے) بھی قائم کر ڈالی اورپھر۲۰۱۱ء کے آخرمیں القاعدہ کے کچھ
عناصربھی اس جنگ میں شریک ہوگئے جنہیں شروع میں امریکی اورفری سیرین آرمی
نے خوش آمدیدکہا مگرجب ۲۳جون ۲۰۱۲ء کوان القاعدہ عناصرنے’’جبتہ النصرہ‘‘کے
نام سے ایک الگ تنظیم کااعلان کیاتوامریکیوں کے کان کھڑے ہوئے اورانہوں نے
دسمبر۲۰۱۲ء میں اسے دہشتگردی قراردے دیا جس کانتیجہ یہ ہواکہ ایف ایس اے
اورالنصرہ میں آپس میں ٹھن گئی جس کے نتیجے میں ان کے درمیان مسلح لڑائیاں
شروع ہوگئیں۔
انہی لڑائیوں کے نتیجے میں فوجی تسلط سے آزادکرائے گئے علاقے خصوصاًگولان
پہاڑیوں کے قریب کے علاقے بشارالاسدکی فوج نے دوبارہ چھین لئے اوران کی
لڑائی اس قدر بڑھی کہ ۱۰جولائی کوالنصرہ نے ایف ایس اے کے جنرل
ابوبسیرکوپکڑکرمارڈالا۔اب صورتحال یہ ہے کہ شام کی اپوزیشن فورسزمیں ایف
ایس اے اورسعودی حمائت یافتہ احرارشام ایک طرف حکومت کے خلاف مصروفِ جنگ
ہیں تودوسری طرف النصرہ سے بھی جنگ چل رہی ہے۔۔اس سہہ فریقی جنگ میں نقصان
صرف اپوزیشن فورسزاٹھارہی ہیں۔شام کا المناک پہلویہ ہے کہ مقبوضہ بیت
المقدس اپناوزن شیعہ حکومت کے پلڑے میں ڈال کرخودکوفرقہ پرست فورس ثابت
کردیاہے اورحسن نصراﷲ نے تویہاں تک اعلان کر دیا ہے کہ وہ خود کسی بھی وقت
شام جاسکتے ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جون ۲۰۱۳ء تک ایک لاکھ سے زائدلوگ مارے جاچکے ہیں
جب کہ ۴۰لاکھ سے زائد مسلمان مہاجرت کی زندگی گزارنے پرمجبورہیں اوراس حال
میں امریکی فورسزداخل ہواچاہتی ہیں ۔نتیجہ کیانکلتاہے کوئی بہت اچھی توقع
نہیں رکھی جاسکتی کہ فرقوں میں بٹی اورباہم دست و گریباں امت ہی امریکاکے
بہترین مفادمیں ہے۔ |