دنیا ، ـجسکی لاٹھی اسکی بھینس کہ مقولہ پر چلی جا رہی
ہے۔۔۔جو طاقتور ہے ہر میدا ن میں اسکا ہی طوطی بولتا ہے۔۔۔جو جس کی غلامی
میں رہا ہو یاغلام ہووہ اسی کی طرح بننے کا خواہاں نظر آتا ہے۔۔۔شائد یہ
ایک نفسیاتی عمل ہے۔۔۔کتا شیر کی کھال پہن کر کیسے شیر بن سکتاہے۔۔۔کتے کی
اپنی خصلت شیر کا اپنا رعب و دبدبا۔۔۔ایک کی رال ٹپکنے لگتی ہے تو دوسرا
طاقت اور رعب سے سب حاصل کر سکتا ہے۔۔۔گدھ کی اپنی فطرت اور شاہین کا جہاں
اور۔۔۔کوئی بھی،کسی کی طرح ،کسی وجہ سے ہی دیکھائی دینے کہ لئے کوشاں رہتا
ہے۔۔۔ہندوستان میں مغل دورِ حکومت کا سورج بہت بے دردی سے غروب کیا گیا۔۔۔
برِ صغیر پر تاجِ برطانیہ کا راج قائم ہوگیا ۔۔۔یہ وہ وقت تھا تاج ِبرطانیہ
کی ریاست میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔۔۔مگر ہر عروج کو زوال ہے ۔۔۔ہر
فرعون کیلئے موسیٰ ؑ ہیں۔۔۔بہت خون آلود ہوائیں چلیں۔۔۔بہت آہ وفغاں
ہوا۔۔۔کتنی ہی عزتیں پامال ہوئیں۔۔۔ قربانیوں کی لازوال داستانیں لکھی
گئیں۔۔۔پھر کہیں جا کہ تاجِ برطانیہ میں سورج نے غروب ہونا شروع کیا۔۔۔دنیا
کہ نقشے پر تبدیلی رونما ہوئی ۔۔۔افریقہ اور ایشیاء کہ نقشے تبدیل
ہوگئے۔۔۔تبدیلی کی ہوا چل پڑی۔۔۔اﷲ کہ نام پر پاکستان وجود میں آیا۔۔ ۔دوقومی
نظریہ کی بنیاد پر۔۔۔ عقائد اور شناخت کی بنیاد پر۔۔۔
حکمرانی ہو یا غلامی اپنے اثرات ضرور چھوڑتی ہے۔۔۔ہمارے لئے برس ہا برس کی
غلامی نے تبدیلی کے عمل میں پیچیدگیاں پیدا کردیں۔۔۔فیصلوں میں عدم اعتماد
آگیا۔۔۔جن سے دنیا نے معاشرتی علوم سیکھے تھے۔۔۔جن سے دنیا نے زندگی گزارنے
کہ زریں اصول سیکھے تھے۔۔۔وہ ادھر ادھر سے جمع کرکے نئے معاشرتی علوم اور
زندگی کے اصول مرتب دینے لگے۔۔۔کسی کی پینٹ ،کسی کا پاجامہ اور کسی کی
دھوتی میں اپنے پیر پھنسانے شروع کردئے۔۔۔اب چال بھی تو پہناوے کی سی
ہوگئی۔۔۔یہ بحث بہت دکھ بھری اور طویل ہو جائے گی ۔۔۔ تفصیل سے گریز کرتے
ہیں۔۔۔
ہم اپنی توجہ بنیادی نکتہ پر مرکوز کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔وہ ہے پاکستان
کی قومی زبان۔۔۔ہم نے لکھنے میں تو قوم لکھا۔۔۔بولنے میں ،تقریروں میں تو
قوم بولا ۔۔۔ مگر حقیقت میں ہم آج تک ایک قوم نہ بن سکے۔۔۔تو ہم قومی زبان
کا کیا مسلۂ حل کرتے۔۔۔قومی زبان کا درجہ تو اردو زبان کو دے دیا گیا۔۔۔مگر
سرکاری زبان کا درجہ انگریزی زبان کو ملا۔۔۔پاکستان میں پنجابی تقریباً
پینتالیس فیصد لوگوں کی مادری زبان ہے۔۔۔پشتو تقریباً سولہ فیصد پاکستان
میں بسنے والوں کی مادری زبان ہے۔۔۔سندھی قریب قریب پندرہ فیصد پاکستانیوں
کی مادری زبان ہے۔۔۔سرائیکی گیارہ فیصد پاکستان میں بسے لوگوں کی مادری
زبان ہے۔۔۔بلوچی چار فیصد افراد کی مادری زبان ہے۔۔۔اور اردوتقریباً نو
فیصد پاکستان میں رہنے والوں کی مادری زبان ہے۔۔۔ اردو زبان کو بولنے اور
سمجھنے والے ایک اندازے کہ مطابق نوے سے پچانوے فیصد پاکستانی ہیں۔۔۔جس کی
وجہ سے اردو کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے یا ہوگیا۔۔۔قومی زبان ملک میں
باہمی رابطے کی زبان کہ طور پر تو استعمال ہوتی ہے۔۔۔مگر کیا اردو زبان کو
سرکاری سطح پر نافذ العمل ہونا چاہئے یا نہیں۔۔۔یہ ایک ایسا سوال ہے جو
کوئی بھی محبِ وطن پاکستانی کہ ساتھ ساتھ اردو سے محبت بھی رکھتا ہو، اٹھا
سکتا ہے۔۔۔
ہم پاکستانیوں کہ مزاج میں کوئی چیز اسوقت پائدار اور مضبوط نہیں ہوسکتی جب
تک وہ درآمد شدہ نہ ہو۔۔۔اس پر جاپان، چین، امریکہ ، جرمنی کہ نام کی مہر
ثبت نہ ہو۔۔۔ حال یہ کہ جو نام آپ کو پتہ بھی نہیں آپ شرمندگی سے پوچھے
بغیر اس نام کی چیز بخوشی خرید لینگے۔۔۔شائد یہی وجہ تھی ہم نے قومی زبان
تو اردو رکھ لی مگر سرکاری زبان کا درجہ ایک درآمد شدہ زبان کو دے
دیا۔۔۔قومی لباس شلوار قمیض رکھا مگر درآمد شدہ ملبوسات کو اہمیت
دیدی۔۔۔قومی کھیل ہاکی رکھا مگر اہمیت کرکٹ کو دے دی۔۔۔نظام ِ خلافت کہ
ماننے والے تھے پارلیمانی نظام رکھ لیا۔۔۔دنیا کو آئین دیا مگر اپنے لئے
درآمد شدہ آئین نافذ کردیا۔۔۔
دنیا جہان میں جن ممالک نے ترقی کی اس کی ایک بنیادی وجہ وہاں رائج قومی
زبان کو ہی سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ۔۔۔تعلیمی نظام میں اس زبان نے
اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔۔۔جوزبان آپکے ملک کے شائد آٹھ یا دس فیصد لوگ
بولتے یا سمجھتے ہیں۔۔۔آپ کا سارا کا سارا انحصار اسی زبان پر کیوں؟ ۔۔۔آپ
دوسرے کہ جوتے میں پیر ڈال کر کہاں تک سفر کرینگے۔۔۔اور جوتا بھی وہ جو
آپکے ناپ کا نا ہو۔۔۔اگر انگریزی کو آپ نے اتنے بھرپور طریقے سے پروان
چڑہانا ہی تھا ۔۔۔تویہ دوہرا، تہرا نظام ِ تعلیم رائج نہ کرتے۔۔۔صرف ایک
نظام ِ تعلیم رکھتے۔۔۔نہ تو احساسِ محرومی بڑھتی اور نہ ہی دہشت گرد یا
دہشت گردی نام کا کوئی خوفناک حوا پیدا ہوتا۔۔۔ہم سب کو اندازہ ہے کہ
پاکستان اور پاکستانیوں میں کتنی زرخیزی ہے۔۔۔کچھ نہ کر کہ بھی دنیا کو ہلا
کر رکھا ہوا ہے۔۔۔اگر مثبت راستوں پر گامزن ہوتے۔۔۔تو دنیا آج ہماری
حکمرانی میں ہوتی۔۔۔اور ہر طرف اردو کا بول بالا ہوتا۔۔۔پاکستان میں قومی
زبان پر کتنا کام ہو رہا ہے ۔۔۔کچھ کہنا آسان نہیں ۔۔۔اگر آپ اردو میڈیم
ہیں تو ساری زندگی شرمندگی آپ کا پیچھا کرتی رہے گی۔۔۔اور آپ کا اس سے
پیچھا چھڑوانا مشکل ترین کاموں میں سے ایک کام ٹہرے گا۔۔۔لوگ اپنے اپنے طور
سے کچھ نہ کچھ لکھ کر اردو کی خدمت کر رہے ہیں۔۔۔کوئی پذیرائی کوئی ستائش
نظر نہیں آتی۔۔۔
اب جو کچھ ہو چکا ہے جانے دیتے ہیں ۔۔۔لکیر کو نہیں پیٹتے ۔۔۔ماضی کو گھسیٹ
کر حا ل میں نہیں لاسکتے۔۔۔مگر حال اور مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے کوئی
باضابطہ پروگرام تشکیل دیا جاسکتا ہے۔۔۔جس کہ توسط سے ہم اپنے نظام ِ تعلیم
سے یہ دوہرا ، تہرا نظام خارج کریں۔۔۔اردو کی ترویج پر بھرپور توجہ
دیں۔۔۔اردوترقیاتی بورڈ کو انتہائی فعال ادارہ بنائیں۔۔۔اردو کا ہم پر بہت
احسان ہے ۔۔۔ تاریخ بڑے بڑے ایسے ناموں سے منور ہے جنہوں نے اپنا اوڑھنا
بچھو اردوکو بنایا۔۔۔آج ہمیں ایک ایسے ادارے کی ہے جو دنیا جہان کے علوم کا
ترجمہ اردو زبان میں کر سکے۔۔۔اور ایسے اسکول ، کالج اور یونیورسٹی بھی
قائم کریں جہاں تمام علوم اردو میں پڑھائے جائیں۔۔۔یقینا کچھ لوگ اس سوچ کو
دقیا نوسی سوچ کہینگے۔۔۔مگر۔۔۔ہمارا ادب اردو زبان میں مرتب دیا جاتا رہا
ہے ۔۔۔کم و پیش سارا تاریخی ورثہ اسی زبان میں موجود ہے ۔۔۔مگر نئی نسل کو
اس دور رکھا جارہا ہے۔۔۔یا رکھنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔۔۔مجھے
پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔۔۔درآمد شدہ چیزیں میرے لئے بھی اتنی ہی اہمیت
رکھتی ہیں جتنی کسی اور پاکستانی کہ لئے ۔۔۔مگر میں معاشرے میں رہتے ہوئے
تبدیلی کا خواہ ہوں۔۔۔میں نے اپنے دل میں ایک قندیل روشن رکھی ہے۔۔۔پاکستان
اور اردو سے محبت کی۔۔۔ان اشعار کہ ساتھ احتتام کرونگا کہ۔۔۔
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے۔۔۔خواب ہوجاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ
گے۔۔۔
دے رہے ہیں جو تمھیں آج رفاقت کا فریب۔۔۔ان کی تاریخ پڑھو کہ تو دہل
جاؤگے۔۔۔
اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو۔۔۔سنگ ِ مر مر پہ چلو گہ تو پھسل جاؤ
گے۔۔۔
تیز قدموں سے چلواور تصادم سے بچو۔۔۔بھیڑ میں سست چلو گے تو کچل جاؤ گے۔۔۔ |