تقریبا دوسال قبل ایک دوست کا ایس ایم ایس موصول ہوا کہ
علماء کرام کی زیرنگرانی حلال اور پاکیزہ کاروبار مضاربت میں اپنی رقم
انویسٹ کریں اور ماہانہ چار سے پانچ ہزار روپے منافع حاصل کریں، یہ بات
میرے لئے بہت حیران کن بھی تھی اور باعث مسرت بھی، میں نے اس دوست سے رابطہ
کیا اور مزید تفصیلات معلوم کرنا چاہی تو پہلے سے عجیب اور حیرت انگیز
معلومات حاصل ہوئیں، وہ یہ کہ اس دوست نے کہا یار اگر تمہارے پاس اپنے پیسے
نہیں تو پھر اپنے جاننے والوں سے کم از کم ایک ایک لاکھ روپے اکٹھے کرکے
ہمارے ساتھ کاروبار میں لگوا دو، اس طرح انہیں بھی پورا پورا منافع ملے گا
اور تمہیں بھی ہرمہینے ایک لاکھ پر تین سو روپے کمیشن ملے گا، اس نے بتایا
کہ میں نے اب تک تقریبا 90لاکھ روپے لوگوں کے اس کاروبار میں لگائے ہوئے
ہیں۔میں نے پوچھا کاروبار کیا ہے؟ اس نے کہا اسکریپ اور ہول سیل کا کاروبار
ہے۔
چونکہ اس دوست نے علماء کی زیر نگرانی کاروبار کی بات کی تھی اس لئے میرا
ذہن اس طرف گیا ہی نہیں کہ آیا یہ حلال ہے یا حرام؟ چنانچہ میں نے وقتی طور
پر فیصلہ کرلیا کہ لوگوں سے رقم اکھٹی کرکے اس کاروبار میں لگانا
چاہیے،لیکن صرف چند ہی دنوں بعد ایک اور پرانے جاننے والے سے ملاقات ہوئی
تو اس نے بھی اسی طرح کی آفر کی کہ اپنے زیورات،زمین وغیرہ بیچ کر رقم
انویسٹ کرو، یا لوگوں سے رقم اکھٹی کرکے ہمیں دو ، اس صورت میں ایک لاکھ پر
500روپے کمیشن دوں گا۔چنانچہ میں نے پہلے والے دوست کو چھوڑ کراس کے پاس
لوگوں کی رقم انویسٹ کرنے کا ارادہ کرلیا۔ اسی دوران میری ملاقات ایک تیسرے
دوست سے ہوئی اس نے بھی اسی طرح کی آفر، میں نے پوچھا آپ کا کیا کاروبار ہے
؟ اس نے کہا ہم شہد،زیتون کا تیل، اور جوس تیار کرکے انگلینڈ ایکسپورٹ کرتے
ہیں، مجھے اس بات پر بہت خوشی ہوئی کہ شکر ہے پاکستانی تاجر اس قابل ہوگئے
کہ اب ان کا تیار کردہ جوس گورے نوش کریں گے۔
چونکہ یہ بہت حیران کن انکشافات تھے اس لئے میں نے اس میں مزید دلچسپی لیتے
ہوئے معلومات اکھٹی کرنا شروع کردیں، انہیں دنوں مختلف شہروں میں
’’میزبان‘‘ نام کے سٹور کھلنا شروع ہوگئے، دوست نے بتایا یہ ہمارے سٹور ہیں
یہی ہمارا کاروبار ہے اور اسی سے کما کر ہم ہر مہینے لوگوں کو منافع دیتے
ہیں، چنانچہ میں نے تحقیقات اور معلومات اکھٹی کرنے کا دائرہ وسیع کردیا،
کچھ ہی عرصے بعد اطلاع ملی کہ کراچی میں کچھ ایسے لوگ جن کے نام کے ساتھ
مفتی اور عالم کے سابقے لاحقے لگے ہوئے ہیں وہ ہر مہینے بیس ہزار منافع دے
رہے ہیں۔ یہی وہ پوائنٹ تھا جہاں سے میری تحقیقات کا رُخ دوسری طرف منتقل
ہوگیا، کیونکہ یہ بات ناقابل یقین تھی کہ ایک لاکھ پر ہر مہینے باقاعدگی کے
ساتھ بیس ہزار کی آمدن کیسے ہوسکتی ہے۔
تقریبا پانچ چھ ماہ کی محنت اور معلومات اکھٹی کرنے کے بعد میں جس نتیجے پر
پہنچا اسے میں نے ایک سال قبل اپنے ایک اخباری مضمون میں لکھا، جس کا خلاصہ
یہ تھا کہ یہ ایک بہت بڑی گیم ہے جس کے پیچھے ملکی اور غیر ملکی ذہین ترین
سٹہ باز ہیں، چونکہ ائمہ کرام پر لوگ اعتماد کرتے ہیں اس لئے انہوں نے ان
کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں سے رقم اکھٹی کرنا شروع کردی ہے، یہ لوگ نئی
جمع ہونے والی رقم میں سے ہی کچھ منافع کے نام پر واپس لوٹا دیتے ہیں اور
باقی اپنے اکاونٹس میں منتقل کردیتے ہیں، چنانچہ ائمہ کرام کو دست بستہ
اپیل کی کہ خدا راس گھناؤنے کھیل سے باہر آجائیں، یہ کھیل اس وقت تک چلتا
رہے گا جب تک نئے نئے لوگ پیسے جمع کروا رہے ہیں، جس دن نئے جمع کروانے
والے کم ہوئے اس دن یہ گیم ختم ہو جائے گئی، چنانچہ ٹھیک ایک سال بعد ایسا
ہی ہوا۔
آج جو صورت حال ہے وہ آپ حضرات کے سامنے ہے بڑے سٹہ باز بھاگ چکے ہیں، جبکہ
دوسری کیٹگری کے کچھ روپوش ہیں اور کچھ گرفتار ہیں، جب کہ تیسری کیٹگری کے
ائمہ اور علماء کرام عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں، کئی مدرسوں کو تالے
لگا کر بھاگ گئے ہیں، اور کچھ ایسے بھی ہیں جو ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں۔
اسی طرح کے ایک شخص کو ایبٹ آباد میں لوگوں نے سرعام مارا پیٹا، اور پھر
سر، داڑھی، بھنویں مونڈ کر سڑکوں پر گھمایا۔ اس سارے معاملے میں سب سے
حیران کن بات یہ ہے کہ کھربوں روپے کے اس سکینڈل میں حکومت، اور عدالتیں
بالکل خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، اور اصل کردار ایک ایک کرکے ملک سے فرار
ہورہے ہیں۔ اگرچہ اکثر علمائے کرام اپنی ناسمجھی اور بیوقوفی کی وجہ سے اس
گیم میں پھنسے ہیں لیکن کراچی کے ایک جامعہ سے تعلق رکھنے والے بعض ایسے
ناخلف مفتی بھی ہیں جن کو پہلے دبئی کی سیر کرائی گئی پھر واپس آکر انہوں
نے ناصرف اس ناجائز کام کے حق میں فتوے دیے بلکہ مخالفت کرنے والے جید
علمائے کرام (بنوری ٹاؤن،وفاق المدارس)پر کڑی تنقید بھی کی، اور پھر اس
مسند پر بیٹھ کر جہاں ان کو دین اسلام کی ترجمانی اور تشریح کے لئے بٹھایا
گیا تھااس ناجائز کاروبار کا لین دین بھی کرتے رہے،حکومت کو چاہیے کہ فوراً
تمام مجرموں کو نہ صرف گرفتار کیا کرے بلکہ قرار واقعی سزا دینے کے ساتھ
ساتھ غریبوں کی رقم بھی وصول کرے۔ |