اگر ہم اپنے اندر جھانک لیں یعنی کہ اپنے ماحول کو ذرا
باریک بینی سے دیکھ لیں تو نہ ہم دہشت گرد کو دہشت گرد کہیں نہ قاتل کو
قاتل کہیں نہ ڈکیت کو ڈکیت کہیں نہ چور کو چور کہیں نہ زانی کو زانی کہیں
اور نہ ہی شرابی کو شرابی کہیں کیونکہ یہ سب کُچھ مردہ حالت میں ہم سب کے
اندرموجود ہے اور اِس کی روح ماحول ہے یہ روح جِسے فراہم ہوتی ہے اُس کے
اندر اِن میں سے کوئی ایک زِندہ ہو جاتا ہے یعنی کہ پیدائشی مجرم کوئی نہیں
ہوتا ہر مجرم کو مجرم بنایا جاتا ہے یا وہ بنتا ہے جیسا کہ دُنیا میں سب سے
پہلا قتل ایک پِرندے کو دوسرا پرندہ قتل کرتے ہوئے دیکھ کر کیا گیااگر میں
غلط نہیں تووہ قتل حوا کی بیٹی کو حاصل کرنے کیلئے ہوا کیونکہ مقتول اُس کے
حصول کے درمیان رُکاوٹ تھااِس میں قتل کی وجہ حوا کی بیٹی نہیں بلکہ قتل
کرنے والے کے اندر موجود ہوا کی بیٹی کو پانے کی وہ مُردہ خواہش تھی جِس کی
روح اُس وقت کا ایسا ماحول جِس میں حوا کی ایک بیٹی کے ثوا کوئی دوسری کا
میسرنہ ہونا اور ثوائے خُدا کی عدالت کے نہ کوئی عدالت تھی نہ قانون اور نہ
ہی کوئی سزا کا خوف تھااِس لئے خواہش نے اِتنی جلد غلبہ حاصل کرلیا،
اب میں اِس کی وضاحت اِس طرح سے بھی کر دوں تاکہ کِسی نہ کِسی طرح آپ سمجھ
سکیں کہ اگر آج کا جج جو مجرموں کو اُن کے جرائم کی سزائیں سُناتا ہے اگر
خدا اُسے اُس وقت اُن حالات میں پیدا کر دیتا جب یہ سب کُچھ نہ تھا تب وہ
کیا کرتا؟یقیناً اُس کے اندر بھی ایسی ہی خواہش پیدا ہوتی جِس کی تکمیل
کیلئے وہ بھی پرندے کو دیکھ کر اپنے باپ آدم کے بیٹے یعنی کہ اپنے بھائی کا
قتل کرڈالتا،
کہنے کا مقصد ہے کہ اب عدالتوں قوانین اور سزاؤں کا خوف ہونے کے باوجود
ایسے واقعات کے جنم لینے کے پیچھے کہیں نہ کہیں ایسا ماحول ( ماحول کا لفظ
اِس لئے استعمال کر رہا ہوں کہ اِس میں پڑھنا دیکھنا کھانا پینا رہنا سہنا
اور سُننا وغیرہ سب شامل ہیں)ضرور ہوتا ہے جو جُرم کرنے والے کے دِل و
دِماغ سے یہ سب خوف وخطراط نکال کر اُسے اپنی خواہش کی تکمیل کیلئے اُکساتا
یعنی کہ جُرم کرنے پر مجبور کرتا ہے اب یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اُس کا
کیا ہوا جُرم تو رپورٹ ہو جاتا ہے مگر اُس ماحول کی نشاندہی نہیں کی جاتی
جِس نے اُسے اِس فعل پہ آمادہ کیا تاکہ ان کی روشنی میں ایسے اِقدامات کئے
جا سکیں کہ یہ جُرم دوبارہ نہ جنم لے سکے،یہاں یہ ہوتا ہے کہ جو ظاہراً
دیکھا سُنا وہی رپورٹ کر دیاجو ایف آئی آر کا متن ہوا اُسی ہی کی خبر بنا
دی جیسا کہ لاہور میں پانچ سالہ پھُول سی بچی کے ساتھ پیش آنے والا سانحہ
گُزشتہ تقریباً ایک ہفتہ سے اخبارات کے صفحات سیاہ کر رہا ہے جگہ جگہ تبصرے
ہو رہے ہیں طرح طرح کی سزاؤں کے مطالبات کئے جا رہے ہیں مگراِس واقع کے پس
ِ پردہ حکایق و حالات اور وجوہات جِنہوں نے اِنسان پر غالب آتے ہوئے اُسے
اِنسان سے درِندہ بنایا بیان یا تحریر کرنے کی زحمت کِسی نے بھی نہیں کی
کیونکہ اب صرف اور صرف TCاور بلیک میلنگ کرنے یا بھیک مانگنے کا دُسرا نام
صحافت رکھ دیا گیا ہے جِسے کِسی بھی قسم کی پنا ہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ کِسی
نہ کِسی اخبار یا نیوز چینل کے آفس کا رُخ کر لیتا ہے وہاں پانچ دس ہزار
دیئے کارڈ لیا اور واپس آکر اپنے میخانے ،چڈوخانے یا کِسی بھی کالے دھندے
خانے کے باہر پریس لکھواکر سکون سے بیٹھ گئے ،
اور آئے روز بڑھتی ہوئی فحاشی عریانی و لڑکی لڑکوں کی دوستیوں وغیرہ کو
فیشن کا نام دیا جا رہا ہے جِس کے سبب زناء حرام خوری جنگل کی آگ کی طرح
پھیل رہی ہے اور جب کوئی جوڑا برہنہ یا نیم برہنہ حالت میں پکڑا جاتا ہے تو
مقدمہ زناء بالجبر کا درج ہوتا ہے اور ہم لوگ یعنی کہ مُجھ سمیت میرے پیٹی
بھائی رپورٹر ز متعلقہ لڑکی لڑکے کے جاننے والوں یا اُن کے اہل محلہ سے مِل
کر اصل حکائق تک پہنچنے کی بجائے اِس فرسٹ انویسٹی گیشن رپورٹ کی ہی روشنی
میں خبر بناتے ہوئے روانا کر دیتے ہیں،
جبکہ دوسری اور آخری سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم لوگ فارغ وقت ذِکرِ خدا میں
ماں کی قُربت میں یاکھیل کُود میں گُزارنے کی بجائے رسالہ جات پڑھنے فلمیں
دیکھنے یا اِنٹر نیٹ پرہر اچھا بُرا مواد دیکھ کر گُزارنے کو ترجیح دیتے
ہیں اور یہ سب کُچھ 50فیصد سیکس سٹوریوں پر مشتمل ہوتا جو اشتعال انگیز اِس
قدر ہوتا ہے کہ 16سے40سال تک کی عمر کے لوگو ں میں سے کِسی کو بھی اپنی
لپیٹ میں لیتے ہوئے اِس کے دِل و دماغ سے قانون و سزا کا خوف نِکال کر اُسے
دوستی کی آڑ میں زناء کرنے یا لاہور میں پھُول جیسی بچی کو وحشیانہ درِندگی
کا نشانہ بنانے جیسے واقعات رو نما کرنے کیلئے آمادہ کر سکتا ہے لہذا ایسے
سنگین قسم کے جُرا ئم سے معاشرے کو پاک کرنے کیلئے جہاں ہمیں ایسے فحاشہ
رسالہ جات فلمیں اور ویب سائٹس کو تلف کرتے ہوئے اِس گھناؤنے کاروبار میں
ملوث افراد کو بھی تلف کرنا ہوگا وہاں قانون کے اُن کھِلاڑیوں کی بھی حوصلہ
شکنی کرنی پڑے گی جو چند سِکوں کے عوض قانون کو اِس قدر توڑ مروڑ کر
عدالتوں میں پیش کرتے ہیں کہ مجرم کا جرم صاف دکھائی دیتے ہوئے بھی عدالتوں
کو مُجرم مجبوراً بری کرنا پڑتا ہے جِس سے مجرموں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے
اور وہ رہائی پاتے پہلے سے بھی بڑا کوئی کارنامہ کر دِکھاتے ہیں، |