دہشت گرد کیا چاہتے ہیں؟ جن کے نزدیک
مساجد،امام بارگاہوں،گرجاگرہوں اور مندروں کی کوئی تکریم نہیں وہ مسلمان
ہیں؟ قطعاً نہیں وہ مسلمان نہیں ہو سکتے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ کہ وہ اپنے
آپ جہادی کہلواتے ہیں۔۔۔ارے جہاد تو اسلام کو وہ عظیم ترین عمل ہے جس کی
ادائیگی کے دوران موت واقع ہو جائے تو انسان حساب و کتاب کے بغیر جنت کا
مہمان بن جاتا ہے۔۔۔تم دہشت گرد ہو اور دہشت گرد مسلمان نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔اور
دہشت گرد جب درندگی پر اتر آئے تو وہ انسان کی حیثیت بھی کھو بیٹھتا
ہے۔۔۔ہمارے بزرگان دین کہتے ہیں کہ یہ دہشت گرد مسلمان نہیں کافر ہے ۔۔۔۔معذرت
کے ساتھ میں ان سے اتفاق نہ کر نے کی جسارت کر رہا ہوں۔۔۔ہر مسلمان دہشت
گرد نہیں ،ویسے ہی ہر کافر دہشت گرد نہیں ہوتا ۔۔۔انہیں کافر کے فہرست سے
نکال کر درندوں یا اس سے بھی بدتر کے لقب سے نوازیں۔۔۔۔۔۔یہ تحریر انتہائی
فرط جذبات سی کیفیت میں لکھی جا رہی ہے۔۔۔ایک بار پھر ان درندوں نے میرے
پاکستان کو لہو لہان کر دیا۔۔۔۔قائد اعظم کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا ’’
پاکستان میں ہر مسلم اور غیر مسلم کو برابری کے حقوق ہو ں گے‘‘ آج انہوں نے
میرے قائد کو پھر سے افسردہ کر دیا۔۔۔۔۔نام نہاد مسلمان درندوں تم نے اسلام
کی تعلیمات کی کھلے عام نفی کرتے ہوئے گرجا گھر میں معصوم بچوں کو نشانہ
بنایا ۔اﷲ تم سب کو غارت کرے۔۔۔۔۔اسلام تو امن و سلامتی کا دین ہے ،یہ تو
ہمیں سکھلاتا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ،ارے اس نے تو
یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ایک طرف کعبہ دوسری طرف انسان ہو تو انسان کوبچایا
جائے ۔تو کون سے اسلام کی بات کرتے ہو۔۔۔تم مسلمان اور انسان نہیں ہو ۔خبر
کے مطابق کالم لکھتے وقت تک تقریباً80افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے
ہیں،سینکڑوں زخمی ہوئے۔ بین کرتیں ماؤں اور بہنوں کو دیکھ کر میرا دل بھی
خون کے آنسو رو رہا ہے۔۔۔۔ درندوں نے درجنوں بچوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو
بھی ابدی نیند سلا دیا۔ میرے پاکستان کے تشخص کو بری طرح تباہ کیا۔۔۔۔۔آئے
روز پاکستان میں بسنے والے مسلم اور غیر مسلموں کے مقدس مقامات پردرندے
حملہ کر کے بڑی دھٹائی سے ذمہ داری قبول کرتے ہیں ۔۔۔اے اﷲ اسلام کو بدنام
کرنے والوں کو غارت کردے۔۔۔50ہزار میرے بہن بھائی ان کا نشانہ بنے۔دین
اسلام ہمارے غیر مسلموں کے حوالے سے ہماری رہنمائی کس انداز میں کرتا ہے ،اس
کے لیے پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ محمد طاہر محمود اشرفی کی مرتب
شدہ کتاب ’’مسلم حکمران اور غیر مسلم رعایا‘‘میں بڑے احسن انداز میں بتایا
گیا ہے ۔
ایک معاہدہ جونجران کے عیساؤں اور مدینہ کی اسلامی ریاست کے مابین طے پایا
تھا اس کے مندرجات میں درج ہے’’ نجران اور اس کے اطراف کے(عیسائی) باشندوں
کی جانیں ، ان کا مذہب، ان کی زمینیں، ان کا مال ، ان کے حاضر و غائب، ان
کے قافلے ،ان کے قاصد، ان کی مورتیں اﷲ کی امان اور اس کے رسول ﷺ کے ضمانت
میں ہیں ۔ ان کی موجودہ حالت میں کوئی تغیر نہیں کیا جائے گا۔ نہ ان کے
حقوق میں سے کسی حق میں دست اندزی کی جائے گی، نہ صورتیں بگاڑی جائیں گی ،
کوئی اسقف اپنی اسقفیت سے ، کوئی راھب اپنی رھبانیت سے اور کلیسا کا کوئی
منتظم اپنے عہدہ سے نہ ہٹایا جائے گا اور جو بھی کم یا زیادہ ان کے قبضے
میں ہے اسی طرح رہے گا ، ان کے زمانہ جاہلیت کے کسی جرم یا خون کا بدلہ نہ
لیا جائے گا، نہ ان سے فوجی خدمت لی جائے گی ، نہ ان پر عشر لگایاجائے گا،
نہ اسلامی فوج ان کی زمین پامال کرے گی ،ان میں سے جو شخص اپنے کسی حق کا
مطالبہ کرے گا تو اس کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ ان پر کسی قسم کا ظلم نہ
کیا جائے گا، ان سے جو شخص سود کھائے گا وہ میرے ضمانت سے بری ہے، س
دستاویز میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس کے پورا کرنے کے بارے میں اﷲ کی امان
اور محمدﷺ کی ذمہ داری ہے ،یہاں تک کہ اس ے بارے میں خداکا کوئی حکم نازل
ہو۔جب تک وہ مسلمانوں کے خیر خواہ رہیں گے ان کے ساتھ جو شرائط طے کی گئی
ہیں ،ان کی پابندی کی جائے گی۔ ان کو ظلم سے کسی بات پر مجبور نہ کیا جائے
گا‘‘ عبد اﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا’’جس نے کسی ذمی کو
قتل کر دیا وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھے گا‘‘(بخاری، احمد)دوسری طرف حضرت
عمر بن عبد العزیز رحمہ اﷲ کے عہد میں ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کر
دیاتو آپ نے مسلمان کو ذمی کے ورثا کے سپرد کر دیا کہ وہ چاہیں معاف کر دیں
چاہیں قصاص میں قتل کر دیں۔انہوں نے قتل کر دیا۔
یہ ہے اسلام کی خوب صورت تعلیمات ان سے انحراف کرنے والے مسلمان نہیں ہو
سکتے ،گذشتہ روز ہونے والی اے پی سی میں ان دہشت گردوں سے سے مذاکرت کا
فیصلہ کیا گیا،جس پر کوئی پیش رفت ہوتی نظر نہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے ہمارے
انتہائی محترم بزرگان دین کو اس وقت ایک ہو کر ان کے بارے میں کوئی واضح
بیان جاری کیا جائے،اور حکومت وقت کوئی پالیسی واضح کر لائحہ عمل طے کیا
جائے۔۔اس حملے کے ہر پہلو کا جائزہ لیا جانا چاہیے ۔ہمارے ملک میں دہشت گرد
حملے کرنے والے کون ہیں؟میڈیا کے ذریعے ہمارے عوام کو ایک نام ہی بتایا
جاتا ہے’کالعدم تحریک طالبان پاکستان‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ گرجا گھر پر حملہ
کرنے والوں کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں۔دوسری طرف حال ہی میں
القاعدہ کے رہنما ایمن الزوہری نے بیان جاری کر کے اپنی نظریہ واضح کر دیا
کہ مسلمانوں اور ہندووں شہریوں پر حملے نہ کیے جائیں۔اے میرے رب میرے
پاکستان پر رحم فرما،اس کو امن و آشتی کا گہوارہ بنا آمین۔ |