کراچی ……سِسکتی حیات ،مسکراتی اَجل

دو کروڑ آبادی پر مشتمل شہر کراچی کے مثبت پہلو تو بہت سے ہیں ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی درد ناک المیے بھی اپنی جگہ ہیں ،ملک کی معیشت کا گہوارہ ،شہر قائد کے امن کو آخر کس کی نظر کھا گئی ہے ،کراچی میں انسانی جسموں کی نشانہ کشی(ٹارگٹ کلنگ ) کے نتیجے میں بے جان ہو نے کا سلسلہ ہنو ز جاری ……بھتا خو ری انڈسٹری کی صورت اختیا ر کر چکی ……نو گو ایریاز کی لکیریں کراچی کے نقشے پر اپنی جگہ پر قائم ……لینڈ مافیا ،ڈرگ مافیا کی کاروائیاں عروج پر …… نہ جانے یہ کون سا تمدن ہے ،یہ کونسی تہذیب ہے جو کھلم کھلا قتل و غارت گری کا لائسنس عطا کرتی ہے ؟ آج اس شہر قائد میں انسانی لہو اپنا تقدس کھو چکا ،ہر سو بہیمیت رقص عریاں میں محو ہے ،انسانی جان کی قدرو قیمت کا تصور قصہ پارینہ بنتا جا رہاہے اورعزت و حرمت سے کھلواڑ سکہ رائج الوقت قرار پارہاہے ۔کراچی میں خون کا بازار گرم ہے اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ اس شہر کے معاملات کو بر سر اقتدار حکمرانوں نے کبھی اتنا سنجیدہ نہ لیاجتنا کہ اس کا حق تھا ۔

شھر قائد میں زندگی رواں دواں ،سب اپنے اپنے کاموں میں مگن ……لیکن اچانک گولیوں کی بو چھاڑ……بھگدڑ ……خون اور موت……بھتے کی پرچی کے ساتھ گولی کا تحفہ ……تاجرو کاروباری طبقہ پریشان……لوٹ مار کی وارداتیں ……موبائل نکال …… پیسے نکال ……آنکھیں نیچی کر …… یہیں مار سوں گا ……!

بیٹا مقررہ وقت سے کچھ منٹ لیٹ ،ماں دروازے پر سلامتی کی دعا مانگتی انتظار میں ……نظریں ،ٹیلی وژن پر آج مرنے والوں کی تعداد اور دہشت گردی کی رپورٹ پر ……رب سے رحم کیلئے بدست دعا۔

کراچی شہر کو پاکستان کا معاشی حب ہو نے کا اعزاز حا صل ہے ،صرف اسی شہر سے ملک کو ستر فیصد آمدنی حا صل ہو تی ہے ۔یہاں کو ئی تعلیم کے حصول کیلئے آیا تو یہیں بس گیا ،کوئی روٹی کے لئے آیا تو اسی شھر کو اپنا مسکن بنا لیا ،غرض ہر شخص نے اس شھر سے فوائد حا صل کئے ۔آہستہ آہستہ اس شہر کاموسم متغیر ہونا شروع ہوا ،کہیں لسانی بنیادوں پر جھگڑے ……تو کہیں فرقہ واریت نے نے فسادات کا روپ دھاڑا ……فائرنگ ……قتل وغارت گری……بم دھماکے ……لوٹ مار ……بھتہ خوری نے اس شھر کے امن کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ،آئے دن کی ہڑتالوں ،مظا ہروں اور دھرنوں نے رہی سہی کسر بھی پو ری کر دی ،پہلے تو پولیس ہی لاء اینڈ آرڈر کیلئے نظر آتی تھی،بگڑتے حا لات کے باعث رینجر کو بھی مستقل طور پر یہاں تعینات کر دیا گیا ،مگر حالات کو نہ بدلنا تھا وہ نہ بدلے ۔پورے شہر میں اسلحہ اس رح پھیلا جیسے جنگل میں آگ پھیلتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف اسلحہ بردار ’’نامعلوم افراد‘‘کی اجارہ داری نظر آئی ۔

ان دنو ں کراچی میں آپریشن کی بازگشت زوروں پر ہے عوام امن کے متلاشی ہیں خواں یہ امن پولیس ،رینجریا فوج کسی کے ذریعے سے ہی ممکن کیوں نہ ہو ،سپریم کورٹ بھی کراچی امن و مان کے حوالے سے کئی احکامات صادر فرما چکی ہے مگر مجال ہے جو کسی ایک حکم پر من و عن عمل کی زحمت بھی گوارہ کی گئی ہو ،جب پولیس اور دیگر انتظامی اداروں میں سیاسی بھرتیاں اور وابستگیاں ہو ں گی تو ان اداروں سے بہتر کارکردگی کی توقع کرنا دن میں چاند دیکھنے کے مترادف ہی لگتا ہے ۔شہر قائد میں قیام امن کے حوالے سے غیرمعمولی اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے ،محدود پیمانے پر جرائم پیشہ افراد کے خلاف کاروائیاں تو کی جارہی ہیں مگر اس کے باوجود ٹارگٹ کلنگ ،لوٹ مار ،اغوابرائے تاوان ،بھتہ وصولی کا عفریت قابو آنے سے اب تک قاصر ہے ۔مجرموں کو سزائیں نہ ہونا یا اپنے اثر رسوخ اور پیسے کی بِنا پرچھوٹ جانا (یاضما نت پر آزادی حاصل کر لینا )اور سزائے موت کے قیدیوں کی سزاپر عمل درآمد نہ ہونا بھی جرائم میں اضافے کا ایک اہم سبب ہے ۔کراچی شہر میں ہر شخص ہی پریشان نظر آتا ہے وجہ یہ ہے کہ ہر شخص کو گھر سے نکلتے 80 فیصد یہی خدشہ ہوتا ہے کہ وہ نہیں اب اس کی لاش واپس آئے گی اگر مردہ نہیں تو زندہ لاش واپس آئے گی کیونکہ کراچی کے ہر گھر کاکوئی نہ کوئی فرد اسلحہ کے زور پر مال و زر سے محروم کر دیاگیاہے ۔ لاء اینڈ آرڈر قا بو میں نہیں تو رینجرز ،پو لیس دیگر سیکیو رٹی اداروں کے بجٹ پر سالانہ اربو ں خرچ کر نے سے کیا حا صل ؟ کیا ان کا کام صرف اعلیٰ شخصیات کو پروٹول اورسیکیو رٹی فراہم کر نا ہے تو پھر عوام تو اپنے آپ کو اﷲ اور اس کے بعد دہشت گردو ں کے رحم و کرم پر ہی چھوڑ دیں ۔خو ف و دہشت کا یہ عا لم ہے کہ کو ئی شخص اپنی جا ن و ما ل محفوظ نہیں سمجھتا ، خدا نخواستہ کب اور کہا ں سے دہشت گردی کے خول سے نکلی کوئی اندھی گو لی ہمیشہ کیلئے زندگی کے روشن چراغ گل کر نے کا سبب بن جائے ۔ مارنے والا تو کسی کے حکم کا تا بع ہے مر نے والے کو نہیں معلو م وہ کیو ں ما را جارہا ہے ۔

کیا قائد اعظم کے اس ملک میں بسنے والے عوام کے نصیب میں بم دھماکوں ،ڈرون اٹیک ،ٹارگٹ کلنگ میں مرنا ،کاروبار کی تباہی ،لو ڈ شیڈ نگ کی تا ریکیاں ،مذہبی و لسانی منافرت ،اشرافیہ کی لوٹ مار ،بیرونی قرضوں کا بوجھ ،ٹیکسوں کی بھر مار ،مہنگائی اور بد امنی کا سیلاب ، انسانی حقوق کی پامالی ،سماجی و معاشی نا گفتہ حالات ،قومی اداروں کی تباہی جیسے لا تعداد تحا ئف ہی ہیں ؟ کیا حکومت وقت کی کوئی ذمّہ داری نہیں بنتی ؟اگر یہی ’’بے نیازی‘‘ ارباب اختیار کا وطیرہ رہی تو ․․․․․․حیات یونہی سسکتی رہے گی اور اَجل یونہی مسکراتی رہے گی ۔
یہاں ہر شخص ،ہر پَل شکار ہونے سے ڈرتا ہے
کھلونا ہے وہ مٹی کا فنا ہونے سے ڈرتا ہے
شہر کراچی کے کسی کونے میں اک معصوم سا بچہ
بڑوں کی دیکھ کر لاشیں بڑا ہونے سے ڈرتا ہے
عجب ہے زندگی کی قید میں اس شہر کا انساں
رہائی مانگتا ہے اور رہا ہو نے سے ڈرتا ہے۔
Salman Ahmed Shaikh
About the Author: Salman Ahmed Shaikh Read More Articles by Salman Ahmed Shaikh: 6 Articles with 4463 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.