عید الاضحیٰ کی آمد سے قبل دنیا
بھر میں قربانی کے جانوروں کی خریداری کے لیے مختلف قسم کی چھوٹی بڑی مویشی
منڈیاں سجائی جاتی ہیں۔ جہاں قربانی کے لیے خوبصورت اور تندرست جانور فروخت
کے لیے لائے جاتے ہیں۔ پاکستان اس اعتبار سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔
پاکستان کے تقریباً ہر شہر میں قربانی کے جانوروں کی منڈیاں لگائی جاتی ہیں
اوردنیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی لگانے کا اعزاز بھی پاکستان کے حصے میں
آیا ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ سپر ہائی وے پر سات
سو ایکڑ سے زائد رقبے پر دنیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی لگائی جاتی ہے، جس
میں مختلف علاقوں سے چھوٹے بڑے ہر نسل کے تقریباً تین لاکھ سے زائد جانور
بیچنے کے لیے لائے جاتے ہیں۔ جن میں ایک لاکھ 75ہزار بڑے جانور اور تقریباً
ایک لاکھ 25ہزار چھوٹے جانور ہوتے ہیں۔ امسال 17ستمبر کو کراچی میں دنیا کی
سب سے بڑی مویشی منڈی کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا۔ ویسے تو افتتاح سے بھی
ایک مہینہ قبل پاکستان کے مختلف علاقوں سے بیوپاری اپنے جانور مویشی منڈی
میں لانا شروع ہوگئے تھے۔ جمعرات کے روز تک ملک کے مختلف علاقوں سے منڈی
میں پہنچنے والے قربانی کے جانوروں کی تعداد پچپن ہزار تک تھی۔ جن میں سے
تقریباً تین ہزار چھوٹے جانور اور باقی بڑے جانور تھے۔ جانوروں کی خرید و
فروخت کے لیے ابھی خریداروں کا زیادہ رش نہیں ہوا۔ بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ
دوسرے شہروں سے ابھی کم جانور منڈی میں لائے گئے ہیں۔ عید کے قریب جب پورے
جانور منڈی میں آجائیں گے اس وقت خریداروں کا رش بھی بڑھے گا۔
منڈی مویشیاں سہراب گوٹھ کا انتظامی کنڑول کینٹ بورڈ ملیر کے پاس ہے۔کچھ
سال قبل کراچی کی مویشی منڈی میں بہتر انتظامات نہ ہونے کے باعث مویشی منڈی
جرائم پیشہ عناصر کے لے جنت بنی ہوئی تھی تاہم اس کا کنٹرول کینٹ بورڈ ملیر
کے سنبھالنے کے بعد مویشی منڈی میں کافی حد تک بہتری آئی، لیکن اس کے
باوجود کافی حد تک جرائم تھے۔ انتظامیہ کے مطابق پچھلے سال کی بنسبت اس سال
انتظامات میں کافی حد تک بہتری لائی گئی ہے۔ گزشتہ برسوں کی بنسبت شہریوں
کو بہتر ماحول میں خریداری کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔ قربانی کے
جانوروں کے اس عارضی شہر کے انتظامی معاملات سنبھانے کے لیے 500 کے لگ بھگ
اہلکار اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ جبکہ عارضی شہر میں ہر قسم کی سہولت
مہیا کی گئی ہے۔ جانوروں کی رہائش کے لیے انتظامیہ کی جانب سے خوبصورت
قناتیں لگائی گئی ہیں ہیں۔ ایک مانیٹرنگ سیل بھی بنایا گیا جہاں سے 24
گھنٹے نگرانی کا عمل جاری ہے اور کسی بھی غیر معمولی نقل و حرکت کی اطلاع
مویشی منڈی میں موجود سیکورٹی پر مامور افسران و اہلکاروں کو دی جائے تو وہ
فوری کارروائی کرتے ہیں۔ منڈی میں غیر معمولی سرگرمی سے نمٹنے کے لیے
سیکورٹی اہلکار دن میں کئی بار چکر بھی لگاتے ہیں۔ مویشی منڈی میں ایک
شکایتی سیل بھی بنایا ہے جو 24 گھنٹے فعال ہے۔ بیوپاری یا کسی بھی خریداری
کی جانب سے کی جانب والی جائز شکایت پر فوری ایکشن بھی لیا جاتا ہے ۔بورڈ
کے تحتمنڈی کے مرکزی گیٹ کے قریب گزشتہ تین سال سے ایک میڈیا سینٹر بھی
قائم کیا گیا ہے،جہاں بیٹھے میڈیا کے افراد باہر سے آنے والے صحافیوں کی
رہنمائی کرتے ہیں اور منڈی میں پیش آنے والی ہر غیر معمولی صورتحال کو
لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔منڈی میں کسی بھی شخص کو کوئی شکایت ہو تو میڈیا کے
افراد ان کی شکایت متعلقہ شعبہ کے سربراہان تک بھی پہنچاتے ہیں۔ مویشی منڈی
میں بیوپاریوں کو رقم جمع کرانے کے لیے نجی بینک قائم کیا گیا ہے جبکہ
خریداروں کے باآسانی رقم نکلوانے کے لیے دو اے ٹی ایم مشینیں بھی نصب کی
گئی ہےں۔ کیونکہ اے ٹی ایم مشین کے بغیر خریداروں کو کافی مشکلات کا سامنا
کرنا پڑتا تھا، رقم لاتے ہوئے خریداروں کے کروڑوں روپے لوٹ لیے جاتے تھے،
اب خریدار اے ٹی ایم مشینوں کے ذریعے اس مشکل سے محفوظ ہیں۔ مویشی منڈی کی
مانیٹرنگ کے لیے پچاس کے قریب کلوز سرکٹ نصب کیے گئے ہیں۔مویشی منڈی میں
روشنی کا بہترین انتظام کیا گیا ہے ۔مویشی منڈی میں پانچ سو سرچ لائٹوں کے
علاوہ ستر ہزار ٹیوب لائٹس بھی لگائی گئی ہیںجس کے باعث مویشی منڈی رات میں
بھی دن کا منظر پیش کررہی ہوتی ہے۔ پوری منڈی میں اسٹریٹ لائٹ فری ہے اور
اگر کوئی شخص انتظامیہ کی جانب سے مہیا کی گئی اسٹریٹ لائٹ سے زائد روشنی
حاصل کرنا چاہے تو اس کے لیے اسے زائد پیسے ادا کرکے انتظامیہ سے زائد بجلی
حاصل کرنا پڑتی ہے۔مویشی منڈی میں موبائل فون کمپنیز کے موبائل ٹاورز کی
تنصیب بھی کی گئی ہے تاکہ مویشی منڈی میں ملک بھر سے آنے والے بیوپاریوں
اور خریداروں کو ایک دوسرے سے موبائل فون کے ذریعے رابطہ کرنے میں کسی بھی
قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ایک درجن سے زائد ڈاکٹروں کی ٹیم
مویشی منڈی میں 24 گھنٹے اپنی خدمات انجام دےنے کے لیے تیار ہے۔ منڈی میں
کوئی بھی شخص اپنا قربانی کا جانور کسی بھی وقت ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں کی
ٹیم سے چیک کراسکتا ہے۔مویشی منڈی میں لائے جانے والے تمام جانوروں کو دن
میں دو بار فی جانور سولہ لیٹر کے حساب سے مفت پانی فراہم کیا جاتا ہے۔آٹھ
لیٹر صبح کے وقت اور آٹھ لیٹر شام کے وقت، جس پانی کو بیوپاری اپنے برتنوں
میں محفوظ کرلیتے ہیں، ضروت پڑنے پر استعمال کر تے ہیں۔ اگر کسی شخص کو
انتظامیہ کی جانب سے مہیا کیے گئے پانی سے زیادہ کی ضرورت ہوتو وہ نوے پیسے
فی لیٹر کے حساب سے خرید سکتا ہے۔بیوپاریوں کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہمیں اب
کسی قسم کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں لیکن آخری دنوں میں انتظامیہ کی توجہ کم
ہوجاتی ہے جس سے مسائل بھی بڑھ جاتے ہیں۔
منڈی میں بے شمار مختلف قسم کی اشیاءکی دکانیں بھی بنائی گئی ہیں ، دکان
بنانے کے لیے انتظامیہ سے پہلے بات کرنی پڑتی ہے اور فی دکان کا اندازاً
تیس ہزار روپے کرایہ دینا پڑتا ہے۔منڈی میں لوگوں کی تعداد کے مطابق متعدد
ہوٹل بھی بنائے گئے ہیں،ان ہوٹلوں سے دوردراز سے آئے ہوئے بیوپاری اور
خریدار کھانا خریدتے ہیں۔انتظامیہ نے منڈی میں قائم تمام سیلرز کو طے شدہ
نرخ سے زائد قیمت پر اشیا فروخت کرنے پر پابندی ؛گائی ہے۔گزشتہ ہفتے منڈی
انتظامیہ نے مویشی منڈی میں برف اور ٹھنڈے مشروب کی سپلائی کا ٹھیکا حاصل
کرنے والے ادارے کا ٹھیکا طے شدہ نرخ سے زائد فروخت کرنے پر منسوخ کر دیا
تھا جو کہ معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کر رہا تھا، مویشی منڈی انتظامیہ نے
تمام سپلائرز او ر ٹھیکیداروں کو خبردار کیا ہے کہ وہ طے شدہ نرخ سے زائد
پر اشیا فروخت نہ کریں اور عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کریں ورنہ
ان کے خلاف نہ صرف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی بلکہ ان کے ٹھیکے بھی
فوری طور پر منسوخ کر کے انھیں بلیک لسٹ کردیا جائے گا۔منڈی میں تقریبا ستر
کے قریب عارضی مساجد قائم کی گئی ہیں جن کا سارا انتظام کراچی کے مدارس اور
بڑی مساجد کی انتظامیہ کے پاس ہے۔ ان مساجد کو پانی اور لائٹ منڈی انتظامیہ
کی طرف سے فراہم کیا جاتا ہے اور مساجد قائم کرنے کے لیے انتظامیہ کی جانب
سے جگہ کا کوئی کرایہ بھی نہیں لیا جاتا۔ ایک عارضی مسجد کے امام نے بتایا
کہ کبھی ہمیں پانی وغیرہ مول بھی لینا پڑتا ہے ، اس کے علاوہ ہمارا ایک
مہینے کا خرچہ اندازاً تیس ہزار ہوجاتا ہے ۔ مویشی منڈی میں آنے والوں کی
سہولت کے لیے بیت الخلا بھی بنائے گئے ہیں۔ بڑے جانوروں کی فروخت کے لیے کل
21 بلاکس ہیں اور تقریباً سات بلاک چھوٹے جانوروں کی فروخت کے لیے بنائے
گئے ہیںاور منڈی میں بے شمار کیٹل فارم ہیں ، ہر بیوپاری اپنے کیٹل فارم کا
نام خود ہی دیتا ہے۔انتظامیہ کی جانب سے فی بڑے جانور کے منڈی میں انٹری
فیس ایک ہزار جبکہ چھوٹے جانور کی انٹری فیس چھ سو روپے لیے جاتے ہیں۔
مویشی منڈی میں موٹر سائیکل کی پارکنگ فیس 10 روپے جبکہ کار کی 30 روپے
مقرر کی گئی ہے۔ ایک وسیع رقبہ گاڑیوں اور موٹر سائکلوں کی پارکنگ کے لیے
مختص کیا گیا ہے۔
منڈی میں جگہ کی تقسیم پہلے آئیں پہلے پائیں کی بنیاد پر کی گئی ہے،وی آئی
پی جگہ کے مختلف ریٹ مقرر کیے گئے ہیں، جو جگہ جتنی بہتر اسی حساب سے اس کا
کرایہ بھی مہنگا ہے۔ وی آئی پی جگہ کا کرایہ تیس ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک
ہے جبکہ وی آئی پی جگہ کے علاوہ باقی ساری منڈی کی جگہ مفت ہے۔منڈی میں وی
آئی پی بلاک بھی قائم کیے گئے ہیں۔ جہاں قیمتی اور نایاب قربانی کے جانور
فروخت کے لیے لائے گئے ہیں۔ وی آئی پی بلاک میں لائے جانے والے قربانی کے
جانوروں کی قیمتیں دو لاکھ روپے سے 30 لاکھ روپے تک ہیں۔ مویشی منڈی میں
لائے جانے والے قیمتی اور نایاب جانور عوام کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
جبکہ اس کے علاوہ بکرا سکیشن کے وی آئی پی بلاک میں 50 ہزار سے 3 لاکھ روپے
مالیت کے بکرے بھی ہیں۔ مذکورہ جانوروں کے بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ جو
قیمتیں جانوروں کی مانگی جارہی ہیں وہ ان کی پرورش کے سامنے کچھ بھی نہیں
ہیں۔ جانوروں کی پرورش میں انہیں بے انتہا محنت کے ساتھ ساتھ کثیر رقم بھی
خرچ کرنی پڑتی ہے۔بیوپاریوں نے بتایا کہ ہم وی آئی پی جانوروں کو چنے، گندم
کا دلیہ ، سرسوں کا تیل اور مکھن کھلاتے ہیں، ان کے علاوہ ہمیں اپنے
جانوروں کی دیکھ بھال میں کئی قسم کے خرچے کرنا پڑتے ہیں۔بیوپاریوں کا کہنا
تھا کہ عام جانور کو کھل چوکر ونڈا کھلایا جاتا ہے جس پر روازانہ کا
تقریباً پانچ سو روپے جبکہ وی آئی پی جانور پے اس سے کہیں زیادہ خرچہ ہوتا
ہے۔مویشی منڈی سہراب گوٹھ کے وی آئی پی بلاک میں اکثر شہر کے معروف تاجروں
کی جانب سے جانور فروخت کے لیے لائے جاتے ہیں۔ جن میں زبردست مقابلہ بازی
بھی ہوتی ہے۔ اس سال مویشی منڈی کی اس مقابلہ بازی میں پاکستان کے موجودہ
صدر ممنون حسین کے دو بیٹیوں نے بھی مویشیوں کا اسٹال سجایا ہے۔ مویشی منڈی
کے وی آئی پی بلاک کو برقی قمقموں سے سجایا گیا ہے اور جانوروں کو خوبصورت
پنڈالوں میں رکھا گیا ہے۔ پنڈالوں میں شادی بیاہ کی تقریبات کی طرح انتہائی
قیمتی ڈیکوریشن لگایا گیاجاتا ہے اور ڈرائنگ روم سیٹ اپ تک لگایا جاتا ہے
جہاں جانور فروخت کے لیے رکھے گئے ہیں۔وی آئی پی جانوروں کی آﺅ بھگت کے لیے
بیوپاریوں نے کثیر تعداد میں ملازمین بھی رکھے ہوئے ہیں جو جانوروں کی
صفائی ستھرائی اور دیگر دیکھ بھال میں مصروف رہتے ہیں۔ وی آئی پی بلاک میں
فروخت کے لیے لائے جانے والے قیمتی جانوروں کو بیوپاریوں نے دلہن کی طرح
سجایا ہوا ہے اور لاکھوں روپے جانوروں کی سجاوٹ پر خرچ کردیتے ہیں۔ مویشی
منڈی کے بیوپاریوں کے مطابق جانوروں کو مویشی منڈی میں لانے کے بعد ان کا
ہار سنگھار کیا جاتا ہے۔ جس میں گھنگھرو، گلے کے ہار، تاج اور پیٹ پر
باندھنے والا پٹا شامل ہے۔ بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ جانوروں کے ہار سنگھار
پر لاکھوں روپے خرچ کردیے گئے ہیں۔اکثر بیوپاریوں کا کہنا تھا کہ ہم اپنے
جانور کراچی کی منڈی میں اس لیے بیچنے کے لیے لاتے ہیں کیونکہ کراچی کے
لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مال زیادہ دیا ہے اور یہ لوگ ہمارے جانوروں کی
اچھی قیمت لگاتے ہیں۔ منڈی میں اگرچہ ہر قسم کا امن ہے، لیکن منڈی سے باہر
سپرہائی وے پر چور ڈاکوﺅں نے قربانی کے جانور خریدنے کے لیے آنے والوں کو
لوٹنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ پولیس نے اس حوالے سے کوئی خاص انتظام
نہیں کیا۔ |